لاہور(نمائندہ جنگ)تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کواینٹی کرپشن پنجاب کی ٹیم نےگرفتارکرلیا تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے حکم پر انہیں رہا بھی کردیاگیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شیریں مزاری کے خلاف ڈی جی خان میں ایک مقدمہ درج ہوا تھا جس پر انہیں اینٹی کرپشن پنجاب کی ٹیم نے اسلام آباد پولیس کی مدد سے تھانہ کوہسار کی حدود میں ان کےگھرکےباہرسےگرفتار کیا ، تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب کے رہائی کے حکم کے بعد شیریں مزاری کو لے جانے والی ٹیم کو ڈی جی خان کے راستے سے ہی واپس بلا لیا گیا۔
اینٹی کرپشن حکام کے مطابق شیریں مزاری کو قانون کے مطابق گرفتار کیا گیا، اُن سے قانون کے مطابق تحقیقات کی جائیں گی، کیس ختم نہیں ہوا، متعدد بار شیریں مزاری کو الزامات کے جواب کے لیے بلایا لیکن وہ پیش ہی نہیں ہوئیں۔
شیریں مزاری پر جو الزامات ہیں ان سے متعلق جواب تو انہیں ہر صورت دینا ہی ہوگا، شیریں مزاری کے خلاف کیس بزدار دور میں بنا،ایف آئی ار کے مطابق پولیس کارروائی کے لیے 11 اپریل 2022ء کو ڈائریکٹر اینٹی کرپشن پنجاب کو لیٹر موصول ہوا، لیٹر میں ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب نے شوکت علی پٹواری، قسمت علی پٹواری پر اندراج مقدمہ کا حکم دیا گیا۔
لیٹر میں دیگر قصورواران کے دوران تفتیش تعین کا بھی حکم دیاگیا،ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ مقدمہ اینٹی کرپشن پنجاب نے اسسٹنٹ کمشنر راجن پورکے احکامات پر درج کیا، لیٹر کے ساتھ اے سی روجھان کی انکوائری رپورٹ بھی شامل تھی۔
شیری مزاری کی گرفتاری کی اطلاع ملنے پروزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہبازنےانہیں رہاکرنےکاحکم دیتےہوئےکہاکہ شیریں مزاری بطور خاتون قابل احترام ہیں، کسی بھی خاتون کی گرفتاری معاشرتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی۔
انہوں نے ہدایت کی کہ شیریں مزاری کوگرفتارکرنے والے اینٹی کرپشن عملےکیخلاف تحقیقات ہونی چاہئیں،تفتیش اورتحقیقات میں گرفتاری ناگزیرہے تو قانون اپنا راستہ خود بنالے گا، شیریں مزاری کی گرفتاری کے عمل سے اتفاق نہیں کرتا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھاکہ مسلم لیگ ن بحیثیت سیاسی جماعت خواتین کے احترام پریقین رکھتی ہے۔علاوہ ازیں پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن انسانی حقوق کی علمبردار اور سابق وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کی مذمت کردی۔
پی آر اے کے صدر صدیق ساجد، سیکرٹری آصف بشیر چوہدری اور ایگزیکٹو باڈی نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کو قانون و انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر گرفتار کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اگر ان کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو قانون کے مطابق انہیں شامل تفتیش کیا جائے اور گرفتاری سے قبل کے تمام تقاضے پورے کئے جانے چاہئیں تھے۔