• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دمہ کو عام بیماری نہ سمجھا جائے یہ جان لیوا ہوسکتی ہے، میر خلیل الرحمٰن سوسائٹی اور ہائی نون لیبارٹریز کا سیمینار

پشاور (نمائندہ جنگ) ماہرین امراض سینہ نے کہا ہے کہ دمہ کوعام بیماری نہ سمجھا جائے، ڈاکٹرز مریضوں کی بات سنتے ہوئے بیماری کی نوعیت معلوم کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں شعور اجاگر کریں، انہیں انہیلر کے استعمال کا طریقہ سمجھائیں اس کے استعمال سے مریضوں کی جھجھک کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔ وہ میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی جنگ گروپ آف نیوز پیپرز اور ہائی نون لیبارٹریز کے زیر اہتمام عالمی ہفتہ دمہ کے حوالے سے سیمینار سے خطاب کر رہے تھے جس میں ماہرین امراض سینہ، ٹرینی میڈیکل آفیسرز، ڈاکٹروں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ سیمینار سے کنسلٹنٹ پلمانالوجسٹ وسابق سربراہ پلمانالوجی ڈیپارٹمنٹ خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور پروفیسر ڈاکٹر مختیار زمان آفریدی، کنسلٹنٹ پلمانالوجسٹ وسابق صدر پاکستان چیسٹ سوسائٹی ڈاکٹر ارشد جاوید، پلمانالوجی ڈیپارٹمنٹ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے سربراہ وصدر پاکستان چیسٹ سوسائٹی خیبر پختونخوا ڈاکٹر ظفر اقبال، پلمانالوجی ڈیپارٹمنٹ خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور کی سربراہ ڈاکٹر سعدیہ اشرف ، جنگ کے سینئر ایڈیٹرو چیئرمین میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی واصف ناگی، ہائی نون لیبارٹریز کے جنرل منیجر قیصر رشید جنجوعہ اور عاطف رفیق نے خطاب کیا۔ ڈاکٹر ارشد جاوید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دو تین عشرے پہلے صرف ایک قسم کا انہیلر دستیاب تھا مریض اس کے استعمال سے کتراتے تھے موثر تشخیص اور صحیح نسخے کی تجویز کے لئے ڈاکٹروں کو مریض کی بات غور سے سننی چاہئے جس سے ڈاکٹرز جلد مرض کی نوعیت جان جاتے ہیں مریضوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے سے تشخیص میں آسانی ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنیشنز ، پیرا میڈیکس اور نرسز کی تربیت اور ان کی مہارتیں بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ انہیلر کا صحیح استعمال یقینی بنایا جائے۔ پروفیسر ڈاکٹر مختیار زمان آفریدی نے کہا کہ مختلف علاقوں کے لوگ مرض کی اپنی مقامی زبانوں میں مختلف تشریحات کرتے ہیں ڈاکٹروں کے لئے مریض کی بات سننا انتہائی اہم ہے مریض کی ابتدائی 30 سیکنڈ تک باتوں کو نہ کاٹا جائے اگر ابتدائی باتیں سنی جائیں تو ڈاکٹرز فوری نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ مرض کی نوعیت اور قسم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرض کی علامات میں سینے میں درد، جھکڑن اور سانس پھولنا بڑی علامات ہیں۔ ڈاکٹر سعدیہ اشرف نے کہا کہ 2019 میں دنیا بھر میں 282 ملین افراد دمہ کا شکار ہوئے جن میں 4 لاکھ 61 ہزار موت کے منہ میں چلے گئے عالمی ادارہ صحت نے رواں سال کے لئے دمہ کے علاج کی تین جہتی گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں دمہ ایک بڑی غیر متعدی مرض ہے جو چھوٹے بڑوں سب کو متاثر کر رہاہے کم آمدن والے ممالک میں یہ ایک بڑا مسئلہ ہے آلودگی ایک بڑا چیلنج ہے تشخیص اور مانیٹرنگ بڑھانے سے مرض قابل تدارک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کو دمے کے کنٹرول کے لئے مریض کو لاحق دیگر بیماریوں پر بھی توجہ دینا ہوگی مریض کی ہسٹری معلوم کرنا ہوگی دمہ کا باعث بننے والے عوامل پر بھی نظر رکھنا ہوگی دمہ کا کنٹرول ایک مسلسل عمل ہے جس میں ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ خدمات تک مریضوں کی کم رسائی، کم تشخیصی شرح، مریضوں کو نہ سننا، شعور وآگہی کی کمی، ڈاکٹروں کا مریضوں کو کم وقت دینا، سرکاری طبی اداروں پر بوجھ، تمام ہسپتالوں میں مرض کے علاج کی سہولت کی عدم دستیابی، مریضوں کا علاج کے اخراجات برداشت نہ کرنا، غلط تصورات وغیرہ دمے کے علاج میں بڑی مشکلات ہیں، علامات وسگریٹ نوشی کے کنٹرول اور خطرات میں کمی لانے کے لئے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ جنگ کے سینئر ایڈیٹر واصف ناگی نےکہا کہ دمے کے کنٹرول کے لئے عوام کو آگاہی دینا وقت کا تقاضا ہے آبادی بڑھ رہی ہے صحت کے مسائل گھمبیر ہو رہے ہیں ملک میں صحت کے مسائل درپیش ہیں لوگ دمہ کو عام بیماری سمجھتے ہیں اس کا علاج ٹوٹکوں اور دم درود سے کرتے ہیں ، ڈاکٹروں سے رابطہ آسان نہیں، مریضوں کو سمجھانا ہوگا کہ ٹوٹکوں کی بجائے علاج کے لئے ڈاکٹروں سے رابطہ کریں دمے کو آسان نہ سمجھیں یہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

ملک بھر سے سے مزید