• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یمن کی خانہ جنگی میں عارضی جنگ بندی سے کچھ امن کی امید پیدا ہوچکی ہے۔ دو ماہ کی اس عارضی جنگ بندی کو اقوامِ متحدہ نے ممکن بنایا اور اس پر سعودی زیرِ قیادت اتحاد اور یمن حکومت ایک طرف تھے اور ایران سے قربت رکھنے والے حوثی قبائل دوسری طرفاس جنگ میں اب تک لاکھوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ لوگ بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اس سے قبل آخری جنگ بندی 2016 کے امن مذاکرات کے بعد ہوئی تھی۔ جو زیادہ عرصے نہیں چلی تھی۔ سات سال سے جس جاری اس خانہ جنگی میں یمن جیسا غریب ملک پیس کر رہ گیا۔ 

عارضی جنگ بندی مستقل امن میں تبدیل ہوسکتی ہے؟

یوکرائن کی جنگ سے قبل یمن کو ہی دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران سمجھا جاتا تھا لیکن روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد بین الاقوامی ذرائع ابلاغ تو جیسے یمن کو بھول ہی گئے ہیں۔2015 میں اس جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق تقریباً چار لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں آدھے سے زیادہ براہِ راست جنگی اموات نہیں ہیں۔ یعنی وہ کسی محاذ پر لڑتے ہوئے دشمن کا نشانہ نہیں بننے۔ بل کہ غذا اور پانی کی قلت اور ناکافی صحت کی سہولتوں کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ دو تہائی یمنی باشندے غذائی امداد کے منتظر ہیں اور چالیس لاکھ کے قریب لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

مسلسل فضائی حملوں کے باعث اسکول اور ہسپتال کام نہیں کررہے اور تقریباً پونے دو کروڑ یمنی جن میں تقریباً پچیس لاکھ بچے شامل ہیں غذائی قلت کا شکار ہیں۔ شمالی اور جنوبی یمن کی اس جنگ میں شمالی علاقے کہیں زیادہ خراب حالات کا سامنا کررہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنوبی یمن میں حالات کچھ زیادہ بہتر ہیں وہاں بھی کم وبیش ایسے ہی خراب حالات ہیں لیکن شمال سے کچھ کم۔

اب عارضی جنگ بندی کے بعد کوئی چھ سال بعد یمن کے دارلحکومت صنعا سے تجارتی پروازیں شروع کردی گئیں ہیں۔ گو کہ بین الاقوامی طور پر تسلیم کی جانے والی یمن حکومت صنعا میں نہیں ہے کیوں کہ وہاں حوثی باغیوں کا قبضہ ہے جو خود کو باغی نہیں کہتے بل کہ یمن کی اصل حکومت گردانتے ہیں۔اس وقت حوثی قبائل اپنی حکومت دارلحکومت صنعا سے چلارہے ہیں جہاں اُن کی وزارتیں بھی جیسے تیسے کام کررہی ہیں۔ حوثیوں کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ کوئی تین لاکھ سے زیادہ مریض صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں کیوں کہ چھ سال سے پروازیں نہ چلنے کے باعث دواؤں اور دیگر طبعی آلات و سہولتوں کی کمی ہے۔ 

پروازوں کے معطل ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ حوثی حکومت کے جاری کردہ پاس پورٹ کو قبول کرنا دیگر ملکوں کے لیے مشکل تھا مگر اب یمن کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ حوثی پاس پورٹ پر سفر کی اجازت دے گی۔لیکن اب انتظام یہ کیا جارہا ہے کہ حوثی علاقوں سے آنے والے مسافروں کو اُردن میں یمن کے نئے پاس پورٹ جاری کردیے جائیں گے۔ اس سے قبل شمالی یمن اور صنعا پر سعودی قیادت میں فوجی اتحاد نے پابندی لگا رکھی تھی اور اس کا محاصرہ کر رکھا تھا کیوں کہ حوثی قبائل پر ایران سے مدد لینے کا الزام ہے۔

یاد رہے کہ آٹھ سال قبل 2014 میں عرب دنیا کے اس غریب ترین ملک میں صنعا پر حوثی قبائل نے قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد 2015 میں سعودی زیرِ قیادت ایک اتحاد وجود میں آیا جس نے پیش قدمی شروع کی۔اب عارضی جنگ بندی رمضان کے مہینے کے احترام میں شروع کی گئی تھی جو رمضان کے بعد بھی جاری رکھی گئی۔ اس کے تحت نہ صرف پروازوں کی اجازت ملی بل کہ باغیوں کے زیرِ قبضہ ایک اور شہر تعیز کو جانے والے راستے بھی کھول دیے گئے۔ 

یہ شہر یمن کے جنوب مغرب میں واقع ہے اور بحر احمر سے قریب ہے۔تعیز یمن کا تیسرا بڑا شہر ہے جو صنعا اور جنوبی یمن کے دارلحکومت عدن کے بعد آتا ہے۔ تعیز جو کسی زمانے میں یمن کا ثقافتی مرکز سمجھا جاتا تھا اب جنگ نے شدید بدحالی اور تباہی کا نشانہ بن چکا ہے۔ صلاح الدین ایوبی کے دور حکومت میں یہ شہر یمن کا دارلحکومت رہ چکا ہے پھر سن 1500 میں دارلحکومت کو صنعا منتقل کردیا گیا۔اب پروازوں کی اجازت اور تعیز کو راستوں کی بحالی سے محصور علاقوں میں ایندھن کے ٹینکرز جانے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور ممکنہ سانحہ بھی وقوع پذیر ہوسکتا ہے جس کا باعث ایک پُرانا تیل کا جہاز ہے جو یمن کے ساحل سے صرف پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر گل سڑ رہا ہے۔ 

اگر یہ تیل کا جہاز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا تو اس سے رسنے والے تیل کے باعث بحر احمر میں یمن کے ساحل کے قریب بہت بڑا ماحولیاتی سانحہ ہوگا۔ یہ جہاز پچاس برس قبل تعمیر کیا گیا تھا اب اس میں دس لاکھ بیرل سے زیادہ خام تیل موجود ہے جو بہہ نکلا تو یمن کے ساحل پر آباد بیس لاکھ سے زیادہ افراد جن کا انحصار صرف ماہی گیری پر ہے روز گار سے محروم ہوجائیں گے اور تیل کے بہاو سے بیماریوں کا شکار بھی ہوں گے۔

چوں کہ اس وقت دو کروڑ لوگوں کو غذائی امداد کی ضرورت ہے جو بندر گاہوں سے ہی آسکتی ہے اس لیے کسی بندر گاہ کے بند ہونے سے غذائی امداد مسدود ہوجائے گی۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق اس طرح کے سانحے سے تیل کی صفائی پر بیس ارب ڈالرز سے زیادہ خرچ ہوسکتے ہیں۔ اگر نقشے پر نظر ڈالی جائے تو نہر سوئز سے باب المندب تک کا علاقہ خطرے میں ہے۔ اور نہر سوئز بند ہونے سے عالمی تجارت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

عارضی جنگ بندی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ سعودی اتحاد نے 100 سے زیادہ جنگی قیدیوں کو آزاد کر کے یمن پہنچا دیا ہے۔ یہ وہ حوثی قیدی تھے جو سعودی اتحاد کے خلاف جنگ آزما تھے۔ دونوں طرف کے جنگی قیدیوں کی مجموعی تعداد تقریباً دو ہزار بتائی جاتی ہے۔ اس دوران ایک کام یہ بھی ہوا کہ یمن کی ایک نئی صدارتی کونسل رشاد العلیمی کی قیادت میں تشکیل پائی ہے۔ 

رشاد العلیمی یمن کے 68سالہ سیاست دان ہیں جو خود تعیز شہر کے رہنے والے ہیں جنہوں نے مصر کی ایک یونی ورسٹی سے سماجیات میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ رشاد العلیمی پہلے 2001 سے 2008 تک یمن کی ایک سیاسی جماعت مؤتمر الشعبی العام یا عوامی کانگریس کی طرف سے یمنی حکومت میں وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔ یاد رہے 1990 میں شمالی اور جنوبی یمن کا اتحاد عمل میں آیا تھا۔ شمالی یمن زیادہ تر شمال مغربی علاقوں پر مشتمل رہا ہے جب کہ جنوبی یمن میں جنوبی اور مشرقی علاقے شامل ہیں۔

شمالی یمن 1918 میں سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے دنوں میں ایک ریاست کے طور پر ابھرا تھا۔ جب کہ جنوبی یمن جس کا دارلحکومت عدن تھا برطانوی ہندوستان کے انتظامی اختیار میں تھا جسے 1937 میں ایک برطانوی کالونی کے طور پر الگ کیا گیا تھا۔ پھر سرد جنگ کے دنوں میں جنوبی یمن کے باغیوں کو سوویت مدد ملی۔ جس کے نتیجے میں 1967 میں برطانیہ نے اپنی سابقہ کالونی سے انخلاء کرلیا۔ 1960 کے عشرے میں یمنی خانہ جنگی جسے عدن کی بغاوت بھی کہا جاتا ہے کوئی چار سال چلی یعنی 1963 سے 1967 تک۔ 

اس سے قبل 1962 میں برطانیہ کی زیرسرپرستی ایک وفاقی ریاست بنائی گئی تھی جسے اتحاد الجنوب العربی کا نام دیا گیا تھا جو دراصل جنوبی یمن تھا جس کا دارلحکومت عدن بنایا گیا۔ اس اتحاد میں فضلی, عوذلی اور بیحان وغیرہ کی امارات شامل تھیں۔ یمن کی اس خانہ جنگی میں مصر کے صدر جمال عبدالناصر کا بھی خاصہ ہاتھ تھا جس کے نتیجے میں 1967 میں برطانیہ کا اس خطے سے انخلاء ممکن ہوا۔

اب رشاد العلیمی کی قیادت میں نئی کونسل نے پُرانے صدر عبد الربہ منصور ہادی کی جگہ لی ہے جو 2012 سے اپریل 2022 تک یمنی صدر رہے۔ وہ اس سے قبل علی عبداللہ صالح کی صدارت میں یمن کے نائب صدر کے عہدے پر اٹھارہ سال 1994 سے 2012 تک فائز رہے تھے۔ علی عبدالله صالح نے بائیس سال حکومت کرنے کے بعد 2012 میں استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس سے قبل صالح 1978 سے 1990 تک بارہ سال جنوبی یمن کے صدر رہے تھے۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ یمن مسلسل مسائل کا شکار رہا ہے۔ اب امید کی جانی چاہیے کہ عارضی جنگ بندی مستقل امن میں تبدیل ہوجائے اور اس مسلے کا دیر پا حل نکلے۔