دُنیا پر یہ خطرہ منڈلا رہا ہے کہ دُنیا خوراک کی کمی بلکہ ایک حد تک قحط سالی کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ روس اور یوکرین کے مابین تین ماہ سے جاری شدید تباہ کن جنگ ہے۔ یورپی ممالک کو دوطرفہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ایک قدرتی گیس کی نایابی اور دُوسرے گندم کی فراہمی، کیونکہ گندم کی پیداوار میں روس اور یوکرین نمایاں ممالک ہیں اور خاص کر افریقی اور جنوبی ایشیائی ممالک کو انہی ممالک کی جانب سے گندم فراہم ہوتی ہے۔
خصوصاً سب صحارا افریقی ممالک میں تو اب بھی خوراک کی شدید قلّت ہے۔ ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ خوراک کی کمی کی وجہ سے روزانہ سینکڑوں بچّے ہلاک یا شدید بیمار ہو رہے ہیں۔ پوری دُنیا میں اَناج کی کمی کے خطرے کی وجہ سے مہنگائی میں سترہ فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ دُوسری طرف گلوبل وارمنگ کی بڑھتی ہوئی وبا سے پانی کی شدید قلّت ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ کولمبو میں ہر بڑے بنگلے کے احاطے میں آٹھ دس قیمتی جدید کاریں کھڑی ہیں، گھروں میں آرائش و سجاوٹ سے مکیں لطف اندوز ہو رہے ہیں جبکہ عوام پچاس ارب ڈالر سے زائد کے قرضوں تلے روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو ترس رہے ہیں ستم یہ کہ ہر فوجی اور سول افسر ریٹائرڈ ہو کر سیاسی پارٹیوں، پارلیمان اور اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہے گویا ہر طرح سے عوام کو لوٹا جا رہا ہے۔
چینی نجی بینکوں سے بڑے بڑے قرضے لئے گئے جن پر سود کی شرح زیادہ تھی جو چند برسوں میں کئی گنا بڑھ گیا جس پر چینی حکومت نے سری لنکا کی پورٹ اور اس سے ملحقہ ہزاروں ایکڑ زمین ضبط کر لی۔ سری لنکا دیوالیہ ہوگیا ایسے میں عوام نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے محل نما کوٹھیوں، بنگلوں کو آگ لگا دی ساتھ ہی وہاں کھڑی لگژری کاریں بھی بھسم ہوگئیں۔ جہاں جہاں چین نے سرمایہ کاری کی وہاں بتایا جاتا ہے کہ معیشت کا بُرا حال ہے۔ قرضوں میں جکڑتی جا رہی ہے۔
دُوسری جانب میانمار ہے جہاں سری لنکا جیسے یا اس سے بُرے حالات ہیں۔ میانمار کی مسلح افواج نے تین سال سے زائد عرصے سے اقتدار پر قبضہ جما لیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فوجی جنتا کو دَرپردہ چین کی مکمل حمایت ہے۔ فوجی جنتا عوام کو قتل کر رہی ہے۔ گرفتار کر رہی ہے اب تک دو ہزار سے زائد سیاسی قیدی جو طلبہ ہیں جیلوں میں سخت اذیتیں برداشت کررہے ہیں تمام سیاسی جماعتوں اور عوامی اجتماعات پر پابندیاں ہیں۔
افریقی ممالک تنزانیہ، سوڈان، مالی، وسطی کانگو اور نائیجر میں شدید معاشی اور سیاسی اَبتری ہے۔ افریقی ممالک کا پرانا روگ قبائلی جنگیں ہیں۔ نسلی، لسانی اور قبائلی جھگڑوں نے اس حسین براعظم کو بدنما بنا دیا ہے۔ ایک محتاط جائزہ کے مطابق براعظم افریقہ میں روزانہ دو سے تین ہزار افراد کا قتل ہوتا ہے جن میں سے عورتیں اور بچّے بھی شامل ہیں۔ سولہویں اور سترھویں صدی تک یہ براعظم دُنیا کا امیرترین براعظم تھا مگر یورپی نوآباد کاروں نے نہ صرف اس خطّے کے قیمتی ذخائر لوٹ لئے بلکہ ہزاروں مرد و زن کو غلام بنا کر یورپ امریکہ میں فروخت کر دیا۔
افریقی ممالک کے ساحلی شہروں سے لوگوں کو اغوا کر کے کشتیوں میں ڈال کر لےجاتے اور فروخت کر دیتے ان میں اکثر بیمار ہو کر مر جاتے جن کو سمندر بُرد کر دیا جاتا تھا۔اج افریقی عوام پر توڑا گیا ظلم ایک المناک داستان ہے۔ ڈیڑھ سو سال قبل وسطی کانگو کا ایک امیرزادہ دُنیا کا امیرترین شخص کہلاتا تھا۔ اس لئے دیکھا گیا ہے کہ افریقی باشندے سفیدفام باشندوں سے شدید نفرت کرتے ہیں جبکہ یہی رویہ سفید فام لوگوں کا بھی ہے۔
آج کی دُنیا کا تمام انحصار جدید معیشت پر ہے۔ ایک دور تھا جب انسان اشیاء کے بدل میں اشیاء کا سودا کرتا تھا۔ مگر بیسویں صدی میں جدید معیشت یا سرمایہ داری میں بیش تر تبدیلیاں کی گئی ہیں اس میں بنکوں، تجارتی اداروں اور معاشی اداروں کا اہم ترین کردار چلا آ رہا ہے۔ شرح سود کم ہو تو قرضے زیادہ لئے جاتے ہیں۔ کاروبار میں پھیلائو آتا ہے۔ معاشی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔ اگر شرح سود زائد ہو تو سرمایہ کے پھیلائو میں فرق آ جاتا ہے۔ گلوبل اکنامی میں 2019ء میں 2.9سے 3.3تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ فی زمانہ امریکہ عالمی معیشت کا لیڈر ہے اور پہلے پائیدان پر کھڑا ہے۔ چین دُوسرے، جاپان تیسرے، جرمنی چوتھے اور برطانیہ پانچویں پائیدان پر کھڑا ہے۔
کووڈ19- کے بعد دو تین برس تک شعبہ سیاحت کو زبردست نقصان اُٹھانا پڑا۔ سب سے زیادہ نقصان تھائی لینڈ کو ہوا کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں چینی سیّاح بنکاک آتے تھے۔
دُنیا میں سیاحت کا شعبہ صنعت کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ اس شعبے سے ہوٹل کا کاروبار، ٹرانسپورٹ، ہوائی کمپنیاں وغیرہ۔ اس حوالے سے پاکستان میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ مختلف تجاویز حکومتوںاور متعلقہ محکموں کو ارسال کی گئیں مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ بیش تر ماہرین سیاحت کراچی آ کر گوادر سے آگے تک سات سو کلومیٹر سمندری ساحلی پٹی کا سروے کر چکے ہیں اور ہر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ سب سے حسین ساحلی پٹی ہے جہاں ہوٹل، کلب، ٹورسٹ اسپاٹ تعمیر ہو سکتے ہیں۔
مگر اُوپر پُراسرار خاموشی چھا جاتی ہے۔ کیا تعجب خیز بات نہیں ہے کہ جو شعبے پاکستانی معیشت کو مستحکم کر سکتے ہیں افسرشاہی ان کی طرف توجہ دینے سے قاصر ہے۔ دُنیا میں ماہرین معاشیات نئے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ معیشت کے لئے نئی راہیں ہموار کر رہے ہیں۔ خاص طور پر گھریلو صنعتوں کے شعبوں میں بہت گنجائش موجود ہے۔ نئی گھریلو صنعتیں قائم کر سکتے ہیں بشرطیکہ خلوص نیت بھی ہو۔
ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ پوری دُنیا کی سالانہ مجموعی آمدنی 85ٹریلین ڈالر ہے۔ اس میں محض چند بلین ڈالر ہمارے ہوں گے وہ بھی قرض کے ساتھ۔
تعجب خیز بات یہ ہے کہ چین جس کو دُوسری بڑی اکنامی کہا جاتا ہے جاری حالات میں وہاں کے حالات بہت بگڑ چکے ہیں شنگھائی چین کا سب سے بڑا شہر اور بڑا صنعتی مرکز بھی ہے وہاں وبائی مرض کورونا کی نئی شکل نے صورت حال خاصی مخدوش کر دی ہے۔ کئی دنوں سے وہاں زبردست لاک ڈائون چل رہا ہے۔ پولیس کسی کو گھر سے نکلنے نہیں دے رہی ہے۔ کارخانے بند ہیں، شہر میں خوراک کی شدید قلّت پیدا ہو چکی ہے۔ شہر کی عوام بھوکوں مر رہی ہے۔ اس طرح ملکی معیشت اور معاشرت پر مہیب اَثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
سال دو ہزار بائیس چین کے لئے ایک ڈرائونا خواب بن گیا ہے جبکہ پوری دُنیا میں کووڈ19- کے حوالے سے بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ مگر وبائی مرض ہوا کی طرح پھیلتا ہے۔ پھر بھی زیادہ تر ممالک نے ویکسین کی مدد سے اس مرض کو روک رکھا ہے مگر چین میں یہ مرض بہت تیزی سے پھیلا۔ بیش تر طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں زندہ جانوروں اورحشرات الارض کی کھلی منڈیاں وبائی امراض کا سبب ہیں۔ کووڈ2019 ء میں ووہان ہی سے پھیلا تھا۔ تاہم عالمی تجارت کے حوالے سے چین کی پوزیشن مستحکم ہے کیونکہ عالمی منڈیوں میں چین کا اَرزاں سامان بھرا پڑا ہے۔
چین کی امکانی قوت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ جاری مشکل حالات پر جلد قابو پا لے گا۔ مگر بدلتی دُنیا میں مطلق العنان ریاستوں کو اپنی روش تبدیل کرنا پڑے گی۔ سابق سوویت یونین میں لگ بھگ ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ جدید سرمایہ دارانہ نظام کی جدلیات کو نظرانداز کرنا مشکل ہے۔ یوں بھی آج کی دُنیا کے بیش تر بڑے سردار جو کل تک جمہوریت، انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو روندتے آئے تھے آج انہی نعروں کے ٹھیکے دار بنے دندناتے پھر رہے ہیں۔
ایسے میں حکومتوں کو اپنے طرزعمل پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ آج کی دُنیا انٹرنیٹ جدید میڈیا کی دُنیا ہے۔ نظریات ہوائوں پر سفر کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومتیں عوام کو جتنی اظہار رائے کی آزادی دیں گے، پابندیوں اور سختیوں سے اجتناب برتیں گی وہ معاشرے پھلتے پھولتے نظر آئیں گے۔ عوام کو تازہ آکسیجن ملتی رہنی چاہئے۔ پابند معاشرے گھٹن کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ۔ مغرب کی ترقّی میں پہلا قدم میڈیا اظہار رائے کی آزادی کا رہا ہے۔ جمہوری اقدار اور فرد کی اظہار رائے کی آزادی نے مغرب کو ترقّی کی نئی منزلیں عطا کیں۔
اس کے باوجود مغرب کے بعض مبصرین کو خدشات ہیں کہ مغرب میں جمہوری اقدار کو خطرات لاحق ہیں۔ وہ مزید آزادی اور مزید جمہوریت کے خواہاں ہیں۔ مگر جاری حالات میں دُنیا کا سب سے بڑا مسئلہ انرجی کا ہے۔ دُنیا میں تیل اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے زیاد تر ممالک کی معیشت پر مہیب اثرات مرتب کئے ہیں۔ مستقبل قریب میں لگتا ہے یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہو سکتا ہے کیونکہ تیل اور گیس کا بڑا سپلائر روس ہے جو چالیس فیصد سے زیادہ یورپی ممالک کی ضروریات کو پورا کرتا ہے چونکہ مغرب نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں ایسے میں یورپ میں تیل اور گیس کا بحران بڑھ رہا ہے اگر یہ سلسلہ کچھ دن اور جاری رہا تو ترقّی پذیر ممالک کو زیادہ مصائب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔
گزشتہ صدی کے ابتدا ہی سے دُنیا میں تیل کی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا، رفتہ رفتہ تیل کی اہمیت عالمی سیاست کا اہم ترین جُز بن گئی۔دُنیا میں تیل سب سے زیادہ اہم ہے۔ دُنیا کی ساری معیشت اور معاشرت کا دارومدار تیل پر ہے۔ دُنیا میں تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں پہلے روس اور پھرامریکہ کا نام لیا جاتا ہے لیکن دُنیا میں تیل کے ذخیرے اور مقدار کے لحاظ سے روس چھٹے اورامریکہ نویں نمبر پر ہے۔ تیل کے بڑے ذخائر رکھنے والے ممالک کی فہرست کچھ یوں ہے دُنیا میں تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ وینزویلا کے پاس ہے، دُوسرا سعودی عرب، تیسرا کینیڈا ہے، چوتھا ایران ہے، پانچواں عراق ہے، روس چھٹے نمبر پر ہے مگر قدرتی گیس میں وہ نمبر ون پر آتا ہے۔ پھر کویت، متحدہ عرب امارات، امریکہ اور لیبیا ہیں۔
تاہم قدرتی گیس میں روس کے بعد قطر کا نمبر ہے۔قطر کی اس بناء پر سیاسی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مشرقی وسطیٰ میں صرف قطر تادیر تیل اور گیس کی فراہمی کر سکتا ہے۔ رفتہ رفتہ سعودی عرب، یو اے ای، کویت وغیرہ کے ذخائر خشک ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شاہ سلمان سعودیہ کو جدید ملک بنانے، اس ضمن میں جدید شہر بسانے کے سو جتن کر رہے ہیں۔ یوں بھی ظاہر حقیقت ہے کہ قدرتی وسائل ہمیشہ دستیاب نہیں ہو سکتے۔
مثلاً چین نے گزشتہ تیس برسوں سے سستی بجلی پیدا کرنے کے لئے اپنے قدرتی کوئلہ کے ذخائر خرچ کر دیئے۔ گزشتہ برس چینی حکومت نے قدرتی کوئلہ کی تلاش کے لئے تیزی سے کام شروع کر دیا ہے اور جگہ جگہ کھدائی کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت نے روس پر پابندیوںکے باوجود اس سے تیل کی خریداری کی بڑی ڈیل کی ایسے میں روس نے بھارت کو پُرکشش ڈسکائونٹ بھی دیا۔ بھارت کو روسی تیل کی ترسیل جاری ہے جبکہ یورپی یونین اور نیٹو نے احتجاج کیا کہ بھارت روس سے تیل نہ خریدے جس پر بھارت کا کہنا کہ یورپی ممالک جتنا تیل روس سے خرید کر ایک دن میں خرچ کر دیتے ہیں بھارت اتنا تیل ایک سال میں خرچ کرتا ہے۔ امریکہ کی دُوسری عالمی جنگ کے بعد پالیسی رہی کہ تیل نکالا نہیں جائے بلکہ اپنے ذخائر محفوظ رکھو اور اوپن منڈی سے تیل خرید کرتے رہو۔ مگر سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں طے پایا کہ وقت آ گیا ہے کہ امرکہ اپنے تیل کے ذخائر کا استعمال کرے۔
اس فیصلہ کی بڑی وجہ یہ تھی کہ دُنیا میں قدرتی ماحول کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور آلودگی میں اضافہ کی وجہ سے قدرتی کوئلہ، تیل وغیرہ کے استعمال میں کمی لانے کی مہم کی وجہ سے بیش تر یورپی ممالک نے الیکٹرک کاریں، موٹرسائیکل وغیرہ پر کام شروع کر دیا تھا۔دُنیا میں تیل قدرتی کوئلہ کا متبادل تلاش کیا جا رہاہے دُوسرے لفظوں میں انرجی پیدا کرنے کے متبادل طریقوں پر زور دیا جا رہا ہے اور اس ضمن میں کام ہو رہا ہے۔
تازہ خبر یہ ہے کہ برطانوی پارلیمان میں حکومت کی طرف سے انسانی فلاحی امداد کے فنڈ میں اِکاون فیصد کٹوتی کرنے پر حزب اختلاف اور دیگر غیرسرکاری تنظیموں نے زبردست احتجاج کیا۔ اقوام محدہ کے شعبہ عالمی خوراک نے بھی برطانیہ سے احتجاج کیا ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ دُنیا کی ایک تہائی آبادی روس اور یوکرین کے گندم اور بارلے کی عدم دستیابی کی وجہ سے بھوک کا شکار ہے ایسے میں انسانی فلاحی امداد میں اتنی بڑی کٹوتی قابل افسوس عمل ہے حکومت اس فیصلے کو واپس لے۔
افریقی ممالک سب صحارا میں خوراک کی کمی کا مسئلہ شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ برطانیہ میں تارکین وطن کی بیش تر تنظیموں نے بھی حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔ یوں بھی ان دنوں برطانیہ میں تارکین وطن زیادہ سرگرم ہیں۔ حکومت کے بس میں نہیں ہے کہ مذہبی معاملات اور مذہبی گروپوں کی سرگرمیوں پر کوئی پابندی لگا سکے۔ خاص طور پر برمنگھم، مانچسٹر اور گلاسکو کے علاقوں میں جنوبی ایشیا کے مسلمان تارکین وطن مقامی حکومتوں کے لئے ایک بڑا معرکہ بنے ہوئے ہیں۔ مقامی سطح پر سات اراکین لوکل گورنمنٹ میں اہم عہدوں پر منتخب ہو کر آئے ہی۔
مبصرین کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیائی مسلمانوں کے پاس سوائے مذہبی نعروں اور مسائل کے اور کچھ نہیں ہے۔ ایسا ہی مسئلہ فرانس کی مقامی حکومتوں کو بھی درپیش ہے۔ فرانس میں زیادہ تر شمالی افریقی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے مسلمان آباد ہیں جن کی اب تیسری نسل میدان عمل میں قدم رکھ چکی ہے۔ بیش تر تارکین وطن مقامی کلچر کو اپنےطور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ صورت حال فی الفور برطانیہ میں زیادہ ہے اور شدید خدشات ہیں کہ کسی بھی وقت لاوا پھٹ سکتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ یہاں تبلیغ کے لئے آتے ہیں وہ تارکین وطن کے حوصلے بڑھا کر چلے جاتے ہیں ایسے میں صورت حال بگڑنے کا زیادہ خدشہ رہتا ہے۔
فی الفور کہیں امن ہے، کہیں احتجاج، کہیں مظاہرے، پوری دُنیا میں اَتھل پتھل، مسائل عام ہیں۔