• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اے این پی کی صوبائی قیادت سیاسی معاملات سے لاتعلق کیوں؟

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کم و بیش 2 ماہ کی رابطہ عوام مہم کے بعد آخر کار اسلام آباد لانگ مارچ کیلئے5 مارچ کی تاریخ مقرر کردی ہے، ساتھ ہی انہوں نے اسمبلیوں کی تحلیل اور ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ جب تک انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوتا، اسلام آباد میں رہ کر احتجاج جاری رکھیں گے، وہ جیل جانے اور جانوں کی قربانی کی بھی پروا نہیں کریں گے ،اگر بیوروکریسی نے لانگ مارچ میں کوئی رکاؤٹ ڈالنے کی کوشش کی تو وہ ایکشن لیں گے۔ 

تحریک انصاف نے جس طرح رابطہ مہم کا آغاز پشاور سے کیا تھا اسی طرح اب اس نے نہ صرف لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان بھی پشاور سے ہی کیا بلکہ پارٹی سربراہ عمران خان نے صوبہ خیبرپختونخوا سے لانگ مارچ کی قیادت کرنے کا بھی اعلان کیا، خیبرپختونخوا میں چونکہ تحریک انصاف کی حکومت ہے اور کے پی گزشتہ9 سال سے پی ٹی آئی کا گڑھ چلا آرہا ہے چونکہ پنجاب میں عمران خان کی گرفتاری کا خدشہ تھا اس لئے وہ ملتان جلسے سے سیدھے پشاور آئے اور انہوں نے نہ صرف کور کمیٹی کا فیصلہ کن اجلاس بھی پشاور میں بلایا بلکہ لانگ مارچ کا آغاز بھی پشاور سے کرنے کا اعلان کیا کیونکہ یہاں پر کارکنوں کو جمع اور اسلام آباد روانہ کرنے کے مراحل میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آسکتی۔

تحریک انصاف نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے جس طریقے سے اپنے کارکنوں کو متحرک اور فعال رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی اس کے نتائج بھی سامنے آئے ، صرف مئی میں پاکستان تحریک انصاف نے ڈیڑھ درجن سے زیادہ جلسوں کا شیڈول رکھا ، ان جلسوں کیلئے صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے ان اضلاع کو چنا گیا جن سے لوگ باآسانی اسلام آباد مارچ کےلئے جاسکتے ہیں، ظاہر ہے کہ تحریک انصاف کا مقصد یہی تھا کہ ایک طرف کارکنوں کو متحرک رکھا جاسکے اسی طرح حکومت پر دباؤ بڑھانا بھی مقصود تھا مگر ساتھ ہی اس کا اصل مقصد اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ کےلئے کارکنوں کو تیار کرنا تھا۔ 

اگر ہم صوبہ خیبر پختونخوا کی بات کریں تو تحریک انصاف نے پشاور سمیت صوبہ کے مختلف اضلاع میں6 بڑے جلسے کرکے دکھائے اور اسی کے بعد ہی یہاں مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام کو بھی متحرک ہونا پڑا اگر پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں حکومت قائم ہے تو اب جے یو آئی اور مسلم لیگ ن وفاقی حکومت میں شامل ہونے کیوجہ سے کارکنوں کی امیدوں کا مرکز بن چکی ہیں اور کارکنوں کو ان دونوں جماعتوں سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوچکی ہیں جن کو پورا کرنا دونوں جماعتوں کیلئے کسی چیلنج سے کم بھی نہیں۔ 

 خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے پے درپے جلسوں کا جواب سب سے پہلے مسلم لیگ ن نے دیا جو اب تک صوبہ میں تین بڑے اجتماعات کا انعقاد کرچکی ہے ساتھ ہی جمعیت علمائے اسلام نے بھی کارکنوں کو متحرک کرنے کیلئے تحفظ حرمین کانفرنس کا اعلان کیا اور پشاور میں کانفرنس کی صورت میں بھر پور سیاسی قوت کا مظاہرہ کرکے دکھایا تاہم حیرت انگیز طور پر صوبہ کی بڑی قوم پرست جماعت’’ عوامی نیشنل پارٹی‘‘ جو تحریک انصاف سے قبل پانچ سال تک صوبہ میں حکومت بھی کرچکی ہے وہ ابھی تک گوں مگوں کی کیفیت کا شکار دکھائی دیتی ہے چنانچہ ایک ایسے مرحلہ پر جب اے این پی کی صوبائی قیادت کو صوبہ میں رہتے ہوئے تحریک انصاف کو عملی جواب دینے کیلئے رابطہ عوام مہم کا آغاز کرنا چاہئیے تھا اچانک اس کی پوری صوبائی قیادت روس کے ایک غیر ضروری دورہ پر نکل پڑی۔ 

 یہ دورہ ایک ہفتہ سے زائد پر مشتمل رہا ،صوبہ کے عوام اور پارٹی کارکن تاحال اس دورہ کے اغراض و مقاصد کو سمجھنے سے قاصر ہیں بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ شاید عمران خان کے روس والے بیانیہ سے متاثر ہوکر اے این پی نے بھی ایک روس نواز بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کی ہے، وجہ چاہے جو بھی ہو بلدیاتی انتخابات میں مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پارٹی کی قیادت بیٹھ کر ان تمام عوامل کا جائزہ لیتی جو صوبہ میں اس کی شکست کا باعث بنے اور پھر مستقبل کیلئے صف بندی کیساتھ ایک جارحانہ رابطہ عوام مہم شروع کی جاتی مگر اس کے برعکس صوبائی قیادت گزشتہ دو ماہ سے سیاسی معاملات سے لاتعلق سی دکھائی دے رہی ہے شاید اسے اندازہ نہیں ہورہا کہ اسے کس سمت آگے بڑھنا چاہیے، اے این پی کا غیر واضح بیانیہ اس کے کارکنوں کےلئے مزید مایوسی کا باعث بن رہا ہے۔ 

اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو اے این پی کو آنے والے انتخابات میں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنی مشکل ہوجائیگی، ادھر اگر خیبر پختونخوا کی دوسری اپوزیشن جماعتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو صوبہ میں جماعت اسلامی کی صوبائی قیادت کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہونے کی وجہ سے پارٹی فی الوقت کارکنوں کی فعالیت کے مرحلہ سے فاصلے پر دکھائی دیتی ہے لیکن پیپلز پارٹی بھی جو اب مرکزی حکومت کا حصہ بن چکی ہے تاحال منظر سے غائب ہے اور یہی حال قومی وطن پارٹی کا بھی ہے، گویا اس وقت صوبہ میں تحریک انصاف کے بعد مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام کسی حد تک متحرک ہوچکی ہیں۔ 

باقی تمام سیاسی جماعتوں کی صفوں پر جمود طاری ہے جو یقیناً آنیوالے انتخابات میں ان جماعتوں کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے، بلدیاتی انتخابات کے نتائج یہ ثابت کرچکے ہیں کہ جب تک اپوزیشن جماعتیں یہاں پر انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرتیں تو کم از کم صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا راستہ روکنا ان کیلئے مشکل ہے، دوسری جانب ملک کے بدلتے ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت نے بھی معاملات نمٹانے میں تیزی کا مظاہرہ شروع کردیا ہے اور وزیر اعلیٰ محمود خان ہر ہفتے دو سے تین اضلاع کے دورے کرکے نہ صرف مختلف ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے میں مصروف ہیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید