• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پی ٹی آئی جمہوری اقدار پامال کرنے پر بضد کیوں؟

آرمی چیف کی تعیناتی، آئی ایم ایف مذاکرات، وفاقی بجٹ کے اعلان سے پہلے شدید گرمی کی پروا نہ کرتے ہوئے جلد بازی میں لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرکے ایک بار پھر عمران خان نے غلط فیصلہ کیا جس کا اعتراف بھی وہ حسبِ روایت کسی انٹرویو میں کردیں گے۔ ریاست کے پیدا کردہ تضادات کے نتیجے میں ہونیوالے اس لانگ مارچ کے حوالے سے وزیر داخلہ کو حکیم بننے کا اختیار ہوا تو رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ گرفتاریاں بھی ہوئیں، اگر حکومت کے ہاتھ بندھے رہے تو ثابت ہو جائے گا کہ نیوٹریلٹی بس نام کی ہے۔ 

اس صورت میں مظاہرین اور دھرنے کے شرکاء کی تعداد کو برقرار رکھنا ایک چیلنج ہوگا، سی پیک معاہدے کو سست بنانے والے، معیشیت کو ڈبو دینے والے، ایک اینٹ لگائے بغیر قرضے 24ہزار ارب روپے سے 53ہزار سات سو ارب تک پہنچانے والے اسلام آباد میں ہیں، اب عوام طے کریں گے کہ ان کیساتھ کیسا سلوک کرنا ہے، اگر لانگ مارچ کے انتشار کے نتیجے میں حکومت کو قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنا پڑا تو پھر ہر بڑا پریشر گروپ لانگ مارچ اور دھرنے کا حربہ ہی استعمال کیا کرے گا، پریشر گروپ بن کر رہ جانیوالی پی ٹی آئی نے حکومت سے بیدخلی پر صدر اور گورنر کے مستعفی ہونے کی روایت بھی توڑ دی ہے، صدر پاکستان، برطرف گورنر پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نہ صرف مستعفی ہونے کو تیار نہیں بلکہ کاروبارِ حکومت چلانے میں باقاعدہ رکاوٹ بن رہے ہیں۔ 

بظاہر حکومت اتحادیوں کے فیصلے کے مطابق انتخابی اصلاحات کے بعد ہی نئے انتخابات کروانے پر آمادہ ہے تاہم پی ٹی آئی فوری انتخابات پر بضد ہے، 25منحرف اراکینِ پنجاب اسمبلی کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد بقول پی ٹی آئی حکومتِ پنجاب ختم ہو گئی ہے جبکہ ن لیگ کے مطابق سادہ اکثریت حاصل ہونے کی وجہ سے اسے کوئی خطرہ نہیں ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ بڑے مقدمے یعنی فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلہ محفوظ کرنے اور ایک مہینے میں فیصلہ سنائے جانے کے قوی امکانات ہیں، اس کیس میں جرم ثابت ہونے پر پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دیا یا پھر اس کے ممنوعہ فنڈز ضبط کیے جا سکتے ہیں۔ 

مسجدِ نبوی کے تقدس کی پامالی کی گرد ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ عمران خان نے ایک نیا کٹا کھول دیا ہے، سابق وزیراعظم کے مریم نواز شریف بارے غیراخلاقی ریمارکس کے بعد ہر پلیٹ فارم پر تنقیدی تبصروں کا طوفان آگیا، سوشل میڈیا پر بدزبان، بداخلاق اور ناقابل اشاعت الفاظ پر مشتمل ٹرینڈ بن گئے، سیاسی اجتماعات میں تنقید روایت رہی ہے لیکن غیراخلاقی جملے اچھالے جانے کا کوئی جواز نہیں ہوتا ہے، مریم نواز پر ریمارکس کے بعد تنقیدی بیانات کے سونامی نے عمران خان کو ایسے سیاسی بھنور میں پھنسا دیا ہے جہاں سے نکلنا مشکل دکھائی دیتا ہے، سوشل میڈیا پر کہا جارہا ہے کہ عمران خان آپ سابق وزیراعظم ہیں، ریاستِ مدینہ کے داعی ہیں، قرآن اور حدیث کے حوالے دیتے ہیں، آپ نے بچی کھچی معاشرتی اور خاندانی اخلاقیات کا بھی جنازہ نکال دیا ہے۔ 

عمران خان کے زیر استعمال الفاظ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک لوپ میں ہیں، مخصوص باتیں دہرانا، خود کو ابھارنا اور سراہتے چلے جانا نارمل عمل ہرگز نہیں ہے، خود پسند شخص خود کو اپنی طاقت کے بارے میں وہم کی حد تک زعم ہوتا ہے، اسے غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ اوتار ہے، اس لیے اس کی کی تعریف کرنا سب پر فرض ہے، وہ ہر دل پسند چیز کا حصول حق سمجھتا ہے، اگر اسے کوئی پسندیدہ عہدہ مل جائے تو وہ ہمیشہ کیلئے اسی کا ہے، شک، گھمنڈی رویے کا برملا اظہار کرنا اس کی عادت ہوتا ہے، الفاظ میرا، مجھے، میں اور میری دہراتے جانا نارمل نہیں کہا جا سکتا ہے، معاملہ خطرناک حد تک تب پہنچتا ہے جب کہا جاتا ہے کہ میرا بولا گیا حرف آخر ہے، جو نہیں مانتا یہ اس پر حملہ کردیتا ہے، خود پسندی کی گردان کو تھوپنا اور اسے ماننے پر اصرار کرنا ایک نارمل صورتحال نہیں بلکہ نرگسیت ہے۔ 

اس بیماری کو نارسیسٹک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر (این پی ڈی) کہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ میں بہت بہت اہم ہوں، متاثرہ شخص کا رویہ نارمل حدود سے پار ہو چکا ہے، ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ قریبی اور غیر شناسا لوگوں سب کیلئے خطرناک بن جاتا ہے، ڈاکٹر تو اس کو گاڑی تک چلانے کی اجازت نہیں دیتے کجا اسے کوئی اہم انتظامی عہدہ دے دیا جائے، ڈیپ ڈیپریشن میں مبتلا شخص رونا دھونا کر کے مجوزہ مقاصد پورے کرنے کی کوشش کر کے کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے، 69سالہ سابق وزیراعظم عمران خان سے 36سال چھوٹے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے غیر ملکی دورے میں جس طرح خود کو ایک مدبر سیاستدان ثابت کیا ہے ہر پلیٹ فارم پر اسکی پذیرائی ہورہی ہے، بلاول کی جانب سے سابق وزیراعظم کے دورہ روس کا دفاع کرنا بھی بہت سراہا جارہا ہے۔

سیکرٹری جنرل ن لیگ حمیر حیات خان روکھڑی کی قیادت میں سرگودھا سٹی فٹ بال گرائونڈ میں منعقد ہونے والے پاور شو نے ثابت کردیا ہے کہ عوام میں ن لیگ کی جڑیں بہت مضبوط ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب میاں حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز شریف نے چارجڈ کرائوڈ سے جو مکالمے کئے وہ یادگار رہیں گے،حمیر حیات خان روکھڑی نے اپنے پہلے ہی امتحان میں ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے زبردست پذیرائی حاصل کی۔ اراکینِ قومی اسمبلی محسن شاہ نواز رانجھا، حامدحمید، رکن اسمبلی ڈاکٹر لیاقت علی، رضوان گل، ملک کرم الٰہی، خوشاب، بھکر اور میانوالی سے قافلوں کے ہمراہ جلسے میں شامل ہوئے، ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والے جلسے نے سرگودھا میں لیگی سیاست کے قدم مزید مضبوط کردیے ہیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید