• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران حکومت نے پٹرول کی قیمت میں 68 فیصد اضافہ کیا

اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے تین سال 8؍ ماہ کے دورِ حکومت میں 28؍ فروری 2022ء تک پٹرول کی قیمت میں 68؍ فیصد اضافہ کرکے اسے 159.86؍ روپے فی لٹر تک پہنچایا جبکہ ڈیزل کی قیمتوں میں 52.1؍ فیصد اضافہ کرکے اس کی فی لٹر قیمت 154.15؍ روپے تک پہنچائی۔

تاہم، سابق وزیراعظم عمران خان نے جب یہ محسوس کیا کہ اپوزیشن جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو انہوں نے اگلی حکومت کیلئے بارودی سرنگیں بچھاتے ہوئے یکم مارچ 2022ء سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں دس روپے فی لٹر کمی کا اعلان کرتے ہوئے یہ نرخ 30؍ جون 2022ء تک برقرار رکھنے کا اعلان کیا، انہیں یہ معلوم تھا کہ اوگرا نے قیمتوں میں یکم مارچ سے دس روپے اضافے کی تجویز پیش کر رکھی ہے۔

اس طرح سابق وزیراعظم نے پٹرول اور ڈیزل کے ہر لٹر پر قومی خزانے کو 20؍ روپے کا نقصان پہنچایا۔

 پی ٹی آئی حکومت نے قیمتیں بڑھانے کی بجائے یکم مارچ سے دو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دس روپے فی لٹر کمی کرکے پٹرول کو 149.86؍ روپے جبکہ ڈیزل کو 144.15؍ روپے فی لٹر تک محدود رکھا۔

عمران خان نے 22؍ اگست 2018ء کو بحیثیت وزیراعظم پاکستان عہدے کا حلف اٹھایا تھا اور یکم ستمبر 2018ء کو پٹرول ک یقیمت 95.24؍ روپے فی لٹر جبکہ ڈیزل کی قیمت 112.94؍ روپے فی لٹر تھی۔

 اس وقت سے پی ٹی آئی حکومت نے 28؍ فروری 2022ء تک پٹرول کی قیمت میں 64.62؍ روپے فی لٹر اضافہ کرکے اسے 159.86؍ روپےتک پہنچایا جبکہ ڈیزل کی قیمت 58.79؍ روپے بڑھا کر 154.15؍ روپے تک پہنچائی۔ جب عمران خان کی حکومت اقتدار میں آئی تھی اس وقت ایک ڈالر 122.42؍ روپے کا تھا اور 10؍ اپریل 2022ء تک ڈالر 186.28؍ روپے کا ہوگیا۔

ڈالر کی قدر میں 52.16؍ فیصد اضافے نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے میں اہم کردار ادا کیا اور افراط زر 13.4؍ فیصد تک جا پہنچا۔ جس وقت عمران خان وزیراعظم بنے تھے اس وقت افراط زر صرف 3.39؍ فیصد تھا۔

 یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس وقت سابق وزیراعظم عمران خان نے پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں کمی کا اعلان کیا تھا اس وقت آئی ایم ایف نے ناراضی کا اظہار کیا تھا اور 6؍ ارب ڈالرز کے پیکیج کو معطل کر دیا گیا۔

 لیکن جب شہباز شریف کی زیر قیادت نئی اتحادی حکومت اقتدار میں آئی تو 45؍ دن تک غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہی اور معیشت کو شدید نقصان ہوتا رہا۔ تاہم، موجودہ حکومت نے بالآخر سخت فیصلہ کرتے ہوئے 27؍ مئی 2022ء سے پٹرول کی قیمت میں 20.02؍ فیصد (30؍ روپے فی لٹر) اضافے کا اعلان کیا جس سے پٹرول 179.86؍ فی لٹر اور ڈیزل 174.15؍ روپے فی لٹر (20.81؍ فیصد اضافہ) ہوگیا۔

موجودہ حکومت نے یہ کڑوا گھونٹ آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کیلئے پیا تاکہ 900؍ ملین ڈالرز کی قسط جاری ہو سکے۔ اگر آئی ایم ایف نے رضامندی کا اظہار کیا تو سعودی عرب تین ارب ڈالرز کے قرضہ جات کی ادائیگی میں سہولت دے گا، چین بھی پاکستان کو مالی معاونت فراہم کرے گا جبکہ امریکا بھی یہی اقدامات اٹھائے گا۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کیا جانے والا یہ تازہ ترین اضافہ کافی نہیں ہے، اگلے پندرہ دن بعد حکومت کو اسی شرح سے اگلا اضافہ کرنا ہوگا۔ اگر حکومت نے سبسڈی ختم نہ کی تو اسے ماہانہ 120؍ ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا جو وفاقی حکومت کے اخراجات سے بھی زیادہ ہے جو صرف 85؍ ارب روپے تک ہیں۔

 10؍ اپریل 2022ء کو خام تیل کی قیمتیں 102.40؍ ڈالر فی بیرل تھیں جن میں 26؍ مئی 2022ء کو اضافہ ہوا اور یہ 114.22؍ ڈالر فی بیرل تک جا پہنچیں۔

 روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے اور خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے حکومت کے پاس 30؍ روپے فی لٹر تک قیمتیں بڑھانے کے سوا اور کوئی آپشن باقی نہیں تھا، اقدام کا مقصد ملکی معیشت کو ہونے والے شدید نقصان کو روکا جا سکے۔

اہم خبریں سے مزید