• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دمہ دائمی مرض جسے معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے، میرخلیل الرحمٰن سوسائٹی کا سیمینار

کراچی (بابر علی اعوان / اسٹاف رپورٹر) دمہ ایک دائمی مرض ہےجسے معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ اس مرض میں سانس کی نالیوں کے اندر سوجن ہوجاتی ہے، نالیاں سکڑ جاتی ہیں، کھانسی ہوتی ہےجس میں خون بھی آتا ہے۔ اس کے شدت اختیار کرنے والے عوامل میں گندگی، دھول مٹی، پرندوں کے جسم کے باریک ذرات، کیمیکل، انفیکشن، دیواروں پر فنگس کے ذرات ، قالین، پردوں اور صوفے سے نکلنے والے مٹی کے ذرات، کاکروچ کے جسم کے ذرات، مچھر مارنے کے اسپرے و دیگر شامل ہیں۔ اس کا بہترین علاج انہیلر ہے۔ ان خیالات کا اظہار آغا خان اسپتال کے کنسلٹنٹ پلمانالوجسٹ اور پاکستان چیسٹ سوسائٹی سندھ چیپٹر کے صدر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اے خان، اوجھا انسٹیٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پروفیسر ڈاکٹر فیصل فیاض زبیری، انڈس اسپتال کے شعبہ پلمانالوجی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سہیل اختر، اوجھا انسٹیٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز کےسابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد راؤ اور جناح اسپتال کے اسسٹنٹ پروفیسر و پاکستان چیسٹ سوسائٹی سندھ چیپٹر کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر کامران خان نے میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی (جنگ گروپ آف نیوز پیپرز) اورہائی نون لیبارٹریز لمیٹڈ کے زیراہتمام مقامی ہوٹل میں منعقد سیمینار بعنوان ’’کلوزنگ گیپس ان ایستھما کیئر‘‘ سے خطاب کے دوران کیا۔ سیمینار کی نظامت کے فرائض میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی (جنگ گروپ آف نیوز پیپرز) کے چیئرمین واصف ناگی نے سرانجام دیئے۔ سیمینار کے آغاز پر ڈاکٹر کامران خان نے دمہ کی بیماری ، علامات اور علاج سے متعلق مفصل پریزنٹیشن دی ۔ ڈاکٹر کامران خان نے بتایا کہ دمہ کی علامات میں سانس پھولنا، کھانسی، سینے میں جکڑن، سانس میں سیٹی کی آواز آنا شامل ہے۔ اس کی تشخیص علامات اور ہسٹری کے ساتھ اسپائرو میٹری ٹیسٹ سے بھی کی جاتی ہے۔ دمہ عمومی طور پر موروثی ہوتا ہے لیکن اگر خاندان میں کسی کو نہ ہو تب بھی ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک دائمی مرض ہے جس میں سانس کی نالیوں کے اندر سوجن ہوجاتی ہے، نالیاں سکڑ جاتی ہیں، کھانسی ہوتی ہےجس میں خون بھی آتا ہےاور خاص موسم میں اس کے دورے بھی پڑتے ہیں۔ اس مرض کے شدت اختیار کرنے والے عوامل میں گندگی، دھول مٹی، پرندوں کے جسم کے باریک ذرات، کیمیکل، انفیکشن، دیواروں پر فنگس کے ذرات، قالین، پردوں اور صوفے سے نکلنے والے مٹی کے ذرات، کاکروچ کے جسم کے ذرات، مچھر مارنے کے اسپرے و دیگرشامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 262 ملین افراد اس سے متاثر ہیں جبکہ امریکہ میں سالانہ 25 ملین افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دمہ کا بہترین علاج انہیلر ہے۔ اس سے بچنے کے لئے تمباکو نوشی سے گریز کرناچاہیے، جسمانی کام بڑھانے چاہئیں، جو ادویات دمہ کو بڑھاتی ہیں ان کا استعمال ترک کرنا چاہیے، اچھی خوراک استعمال کی جائے اور گھر کے اندر الرجی والی اشیاء سے دور رہا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر مریض دمے کے علاج میں دلچسپی رکھے تو روبہ صحت ہونے میں آسانی رہتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اے خان نے بتایا کہ اگر کسی مقام پر اسپائیرو میٹری ٹیسٹ کی سہولت میسر نہ ہو تو علامات اور ہسٹری سے بآسانی پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ دمہ کا مرض لاحق ہے۔ انہوں نے ڈاکٹروں کو مشورہ دیا کہ مریض کو ایک طرح کا انہیلر دیں جس سے اسے آرام ملے مختلف انہیلر دینے سے مریض پریشان ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عموماً مریض انہیلر لینے کی تکنیک سے ناواقف ہوتے ہیں اس لئے آرام نہیں آتا۔ مریضوں کو ہدایت کی جائے کہ معائنے کے دوران اپنا انہیلر ساتھ لائیں تاکہ انہیلر کا درست استعمال سکھایا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے شہر دنیاکے آلودہ ترین شہروں میں شمار کیے جاتے ہیں حکومت کے ساتھ عوام کو بھی صفائی کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ درخت لگائے جائیں کیونکہ درخت ماحول کے پھیپھڑوں کا کام کرتے ہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر فیصل فیاض زبیری نے کہا کہ دمہ کے مرض کو معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے اور لوگ بتانے سے گھبراتے ہیں حالانکہ دمے کے مرض کو تسلیم کرکے علاج سے مرض میں بہتری آتی ہے ۔ اس مرض کے ساتھ انسان نارمل زندگی گزار سکتا ہے ۔دنیا میں کئی نامور افراد ہیں جنہیں یہ مرض ہے لیکن اس کے باوجود وہ نہ صرف صحت مند زندگی گزار رہے ہیں بلکہ انہوں نے اپنا نام بھی پیداکیا ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حاملہ خواتین حمل کے دوران انہیلر لے سکتی ہیں اس کے کوئی مضر اثرات نہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر سہیل اختر نے کہا کہ دمے کے بارے میں ایک عام وہم ہے کہ اگر بچپن میں دمہ ہو تو بڑے ہو کر ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ والدین کی امید ہوتی ہے کہ بیماری آگے تک نہیں چلے گی بلکہ ختم ہو جائے گی لیکن والدین کو حقیقت بتائی جانی چاہیے کہ ہر کیس میں یہ ممکن نہیں ہوتا۔اگر کسی میں مرض کم ہو بھی جائے تو کچھ عرصہ بعد دوبارہ علامات آجاتی ہیں ۔ اس لئے والدین اس بات پر گھلنے کے بجائے اس کو تسلیم کریں اور علاج پر توجہ دیں تاکہ مرض شدت نہ اختیار کرے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیلر کے خوف کو ختم کیا جائے کیونکہ انہیلر فوبیا پاکستان سمیت دنیا بھر میں پایا جاتا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد راؤ نے کہا کہ دمہ ایک قابل علاج مرض ہے اور علاج سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن مکمل طور پر اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ دوائیں باقاعدگی سے لی جائیں اور ان عوامل سے بچا جائے جن سے دورے پڑتے یا مرض میں اضافہ ہوتا ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ عموماً مریض سانس کی بہتری اور سکون ملنے پر دوا چھوڑ دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ مرض ختم ہو گیا ہے حالانکہ مرض ختم نہیں ہوتا کنٹرول ہو جاتا ہےا ور ادویات چھوڑنے سے اس میں شدت آجاتی ہے ۔ہائی نون لیبارٹریز لمیٹڈ کے عاطف رفیق نے کہا کہ ہائی نون کوآپریٹ سوشل ریسپانسیبلٹی پر کام کرتی ہے ۔ اس سے قبل ہم نے تھیلیسیما فاؤنڈیشن کے ساتھ الحاق کیا اور کافی عرصہ کام کیا پھر ذیابطیس اور امراض قلب کے لئے کام کیا اب نظام تنفس کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ ہائی نون لیبارٹریز لمیٹڈ کے قیصر رشید جنجوعہ نے کہا کہ ہم برسوں سے کام کر رہے ہیں ۔ جہاں ادویات فراہم کر رہے ہیں وہیں عوام کو بیماریوں سے متعلق آگہی بھی دیتے ہیں ۔واصف ناگی نے کہا کہ میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی ( جنگ گروپ آف نیوز پیپرز )کے تحت عوامی آگہی کے لئے سیمینارز منعقد کرائے جاتےہیں ۔ اب تک صحت اور تعلیم سے متعلق 750سے زائد سیمینارز کا انعقاد کرایا ہےاور شاہد ہی صحت کا کوئی ایسا موضوع ہو جس پر سیمینار نہ کرایا گیا ہو۔ اس کا بنیادی مقصد عوام کو صحت کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے تاکہ وہ خود کو بیماریوں سے محفوظ رکھ سکیں کیونکہ ایک صحت مند گھرانہ ہی صحت مند معاشرہ کی بنیاد رکھتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ دمہ کا موضوع بہت اہم ہے جس کے لئے لاہور ، پشاور اور راولپنڈی میں سیمینار کرائے گئے۔ کراچی میں یہ چوتھا سیمینار ہے جس سےعوام کے ساتھ ڈاکٹروں کو بھی سیکھنے کو ملے گا۔ اس موقع پر شرکاء نے ماہرین سے سوالات بھی کئے جس کے جوابات دیئے گئے ۔
اہم خبریں سے مزید