• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی پولیس کے بعد سندھ پولیس کی کمانڈ بھی تبدیل کر دی گئی ہے۔ دو سال سے زائد آئی جی سندھ کے عہدے پر کام کرنے والے مشتاق مہر کو آئی جی سندھ کے عہدے سے ہٹا کر اسٹبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کے احکامات جاری کر کے قائم مقام آئی جی سندھ کا چارج ڈاکٹر کامران فضل کو دے دیا گیا ہے۔ مشتاق مہر کو فروری 2020 میں کلیم امام کی جگہ آئی جی سندھ تعینات کیا گیا تھا۔ مشتاق مہر اس سے قبل دو بار کراچی پولیس چیف کے عہدے پر بھی تعینات رہے۔ کراچی پولیس چیف اور آئی جی سندھ بننے کے بعد بھی وہ کراچی کی طرح صوبے کو پسند اور ناپسند کی بنیاد پر چلاتے رہے۔

پروفیشنل افسران نے متعدد بار یہ شکایات کیں کہ وہ فورس کو ایک پروفیشنل افسر کی طرح نہیں چلا رہے۔ آئی جی سندھ بننے کے بعد بھی ان کی زیادہ دل چسپی کراچی کے معاملات پر ہی رہی اور میڈیا بھی ان سے شاکی رہا۔ کراچی پولیس چیف کی حیثیت سے ان کے پی ایس او عدنان کا نام زبان زد عام رہا ، جس پ یہ الزام تھا کہ وہ ایس ایچ اوز کی ٹرانسفر پوسٹنگ سمیت دیگر معاملات میں ملوث ہے اور مشتاق مہر کے آئی جی سندھ بننے کے بعد بھی اس کے کارنامے سامنے آتے رہے۔

تاہم اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس دور میں نہ صرف ڈی آئی جیز ،ایس ایس پیز اور ایس پیز کے پسند اور ناپسند کی بنیاد پر تبادلے کیے گئے، بلکہ ایس ایچ او لیول تک بھی افسران ان کے عتاب کا شکار بنے۔ اسی وجہ سے کراچی پولیس چیف کے ساتھ بھی ان کی ورکنگ ریلیشن شپ بہتر نہ ہو سکی اور انہوں نے کراچی پولیس چیف کے کاموں میں بھی مداخلت کی، جب کہ قائم مقام آئی جی کامران فضل کو بھی وہ پسند نہیں کرتے تھے۔ سندھ حکومت کے ساتھ پہلے تو ان کے تعلقات بہتر رہے۔ 

تاہم بعد ازاں سندھ حکومت بھی ان کی کارکردگی سے خوش نہیں تھی اور گزشتہ دِنوں شہر میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کے بعد انھیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ سندھ حکومت یہ سمجھتی تھی کہ سندھ پولیس میں اس کے چند ’’ چہیتے ‘‘ افسران کی پروموشن نہ ہونے میں بھی مشتاق مہر کا ہاتھ تھا۔ مشتاق مہر نے پولیس فورس کا مورال بلند کرنے میں بھی کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا اور ان کے دور میں پولیس افسران اور اہل کاروں کے ساتھ کمیونیکیشن گیپ کا مسئلہ رہا۔ ان کے دور میں بہت سے ناخوش گوار واقعات میں سے ایک واقعہ 20 اکتوبر 2020 کو ہوا، جب ایک ادارے کے افسران کی جانب سے ان کے مبینہ اغواہ،بد سلوکی پر احتجاج کرتے ہوئے سندھ پولیس کے تمام افسران نےچھٹی مانگ لی۔

چھٹی کی درخواستیں دینے والوں میں آئی جی سمیت 3 ایڈیشنل آئی جیز، 25 ڈی آئی جیز، 30 ایس ایس پیز، متعدد ایس ایچ اوز اور دیگر افسران بھی شامل تھے۔ کراچی میں پی ایم این کے جلسے کے بعد کیپٹن (ریٹائرڈ ) صفدر پر مقدمے اور گرفتاری کے لیے پولیس حکام پر دباؤ کے معاملے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ سمیت اعلیٰ پولیس افسران نے چھٹیوں پر جانے کی درخواستیں دیں۔ چھٹی دینے والے افسران کے مطابق کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایف آئی آر کے واقعہ میں پولیس افسران کو بے عزت اور ہراساں کیا گیا۔

افسران سے ہوئے ناروا رویے پر تمام پولیس افسران کو دھچکا لگا،رخصت کی درخواست دینے والوں میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سندھ مشتاق مہر، ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز سندھ ثاقب اسماعیل میمن،کراچی پولیس چیف پولیس غلام نبی میمن، ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ عمران یعقوب منہاس، ڈی آئی جی ایڈمن (کراچی) امین یوسف زئی،زونل ڈی آئی جیز سمیت سکھر ، حیدرآباد، میرپورخاص، لاڑکانہ اور نواب شاہ رینج کے افسران بھی شامل تھے۔اس سارے معاملے میں سندھ پولیس کی بہ حثیت ادارہ سبکی ہوئی اور ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئی جی سندھ اس واقعہ کے بعد اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہو جاتے۔ 

تاہم انہوں نے ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیر اعلیٰ سندھ کے ساتھ آئی جی پولیس مشتاق مہر کی رہائش گاہ پہنچے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آرمی چیف نے مجھے کراچی واقعہ کی شفاف تحقیقات کی یقین دہائی کرائی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آرمی چیف نے مجھے یقین دہانی کرائی ہے کہ کراچی واقعے کی تحقیقات کے جلد نتائج سامنے آئیں گے، سندھ حکومت بھی کراچی واقعہ کی وزراء کی سطح پر تحقیقات کر رہی ہے، جس کے بعد مشتاق مہر نے پولیس افسران کو 10روز کے لیے چھٹی کی درخواست مؤخر کرنے کی ہدایت کر دی۔

قائم مقام آئی جی ڈاکٹر کامران فضل ایک پروفیشنل افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ تاہم جولائی میں ان کی بھی ریٹائرمنٹ ہے اور فی الحال آئی جی بلوچستان محسن بٹ آئی جی سندھ کے لیے مضبوط امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔ تاہم اس کا فیصلہ سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان طے پا جانے والے معاملات پر منحصر ہو گا۔ قائم مقام آئی جی سندھ کے عہدے کا چارج سنبھالنے کے فوری بعد ڈاکٹر کامران فضل نے حکم نامہ جاری کیا کہ وہ سب سے پہلے سینٹرل پولیس آفس میں دربار کریں گے اور افسران و ملازمین کے مسائل سنیں گے، جسے بہت سراہا گیا۔ 

سینٹرل پولیس آفس میں منعقدہ دربار میں ڈاکٹر کامران فضل نے فیلڈ میں مصروف عمل پولیس افسران اور جوانوں کے مسائل اور مشکلات سُنے اور ان کے فوری حل کی بابت موقع پر موجود سینئر افسران کو واضح ہدایات دیں۔ دربار میں پولیس افسران اور جوانوں کی کثیر تعداد کے علاوہ سی پی او اسٹاف نے بھی شرکت کی۔ آئی جی سندھ نے پولیس افسران و جوانوں سے ان کے تبادلوں اور تقرریوں، دوران فرائض درپیش دیگر مسائل و مشکلات کے فوری حل کے حوالے سے متعلقہ سینئر پولیس افسران کو نہ صرف احکامات دیے، بلکہ اس حوالے سے تعمیلی رپورٹس برائے ملاحظہ ارسال کرنے کی بھی ہدایات دیں۔ 

ڈاکٹر کامران فضل کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس کو ممکنہ درپیش تمام جائز مسائل کا فوری حل میری اولین ترجیح ہوگی اور اس حوالے سے میرے دروازے ہمیشہ کُھلے رہیں گے۔ تاہم پولیس کے لیے بھی ضروری ہی کہ وہ پولیسنگ کے جملہ امور کو عوام دوست بنائیں اور دوران فرائض شہریوں کے ساتھ احسن سلوک وبرتاؤ کو اپنا شعار بنائیں۔اس موقع پر ڈی آئی جی ٹریننگ سندھ عبدالحمید سنجرانی، اے آئی جی اسٹیبلشمنٹ سندھ سہائے عزیز،اے آئی جی ایڈمن سی پی او ڈاکٹر قمر عباس رضوی و دیگر سینئر افسران بھی موجود تھے۔ 

انہوں نے سینٹرل پولیس آفس کراچی کے جملہ اسٹاف افسران کے ساتھ ہونے والے ایک اہم اجلاس کی صدارت کی اور سندھ پولیس کے جاری،زیر التواء اور پایہ تکمیل تک پہنچنے والے پروجیکٹس سمیت، پولیس ویلفیئر، تقرریوں تبادلوں ودیگر محکمہ امور کا تفصیلی جائزہ لیا اور مذید ضروری اقدامات کی ہدایات دیں۔ انہوں نے سندھ پولیس کے انتظامی اور مالیاتی امور پر بھی بریفنگ لیتے ہوئے ہدایات دیں کہ دستیاب وسائل کو بہترین اور شفاف طریقے سے استعمال میں لاتے ہوئے پولیس ملازمین کی فلاح و بہبود، محکمانہ مالی معاونت سمیت ان کی تمام جائز ضروریات کو باقاعدہ ایک میکنزم کے تحت ہی قابل عمل اور ممکن بنایا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس ملازمین کو درپیش ممکنہ مسائل اور مشکلات کے ازالے پر خصوصی فوکس رکھیں اور انھیں اپنی ترجیحات میں شامل کریں، تاکہ پولیسنگ کے جملہ امور کو مذید ٹھوس اور عوام دوست بنایا جائے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید