اس کہاوت کا مطلب یہ کہ فالتو چیز کی قیمت کام کی چیز سے زیادہ ہے۔ یہ ایسے وقت بولتے ہیں جب کوئی شخص ضروری چیز کے ساتھ غیر ضروری چیز خریدنے کی شرط رکھے یا ایک مفید کام کے ساتھ نقصان دہ کام لازم ہو جائے۔
اس کہاوت کی کہانی یہ ہے کہ ایک شخص کا اونٹ کھو گیا۔ اس نے اونٹ کو بہت تلاش کیا۔ سارا شہر چھان مارا پر اونٹ کا کہیں پتا نہ چلا۔ اس پر اسے اتنا غصّہ آیا کہ قسم کھالی کہ اگر اونٹ مل گیا تو ایک رپے میں بیچ دوں گا۔ یہ بات چاروں طرف پھیل گئی۔ الله کا کرنا یہ ہوا کہ جلد ہی اس کا اونٹ مل گیا۔ لوگوں کو پتہ چلا تو اس کا اونٹ ایک رپے میں خریدنے اس کے گھر پہنچے۔ اب تو وہ شخص بہت گھبرایا۔
ایک دوست سے مشورہ کیا۔ اس عقلمند دوست نے اسے مشورہ دیا، "اونٹ کے گلے میں لمبی سی رسّی باندھو اور رسّی کے دوسرے سرے پر ایک بلّی باندھ دو۔ اونٹ کی قیمت تو بےشک ایک ہی روپیہ رکھو، لیکن بلّی کی قیمت ایک سو روپیہ رکھو۔ خریدار کے لیے ضروری ہو کہ وہ اونٹ کے ساتھ بلّی بھی خریدے۔ صرف اونٹ اکیلا نہیں بیچا جائے گا۔"
اس نے ایسا ہی کیا۔ جب لوگوں نے یہ سنا تو ہنستے ہوئے یہ کہہ کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے کہ یہ تو اونٹ کے گلے میں بلّی ہے۔ اور یہ کہاوت مشہور ہو گئی۔