پشاور ( لیڈی رپورٹر) تمباکو نوشی کے مضر اثرات کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لئے آج پچاس سے زائد سول سوسائٹی کی نمائندہ تنظیمیں کولیشن فار ٹوبیکو کنٹرول کے بینر تلے انسداد تمباکو کا عالمی دن منائیں گی ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی عالمی ادارہ صحت کی جانب سے انسداد تمباکو کا عالمی دن منایا جائے گا جس میں عالمی ادارہ صحت کے اس سال کے نصب العین " ماحول کو محفوظ بنائیں " کو اجاگر کیا جائے گا ۔ تمباکو کی صنعت سرکاری ، غیر سرکاری اور کمیونٹی پر مبنی تنظیمیں اپنے اپنے علاقوں میں سوسائٹی آف آلٹرنیٹو میڈیا اینڈ ریسرچ کے ماتحت ادارہ کولیشن فار ٹوبیکو کنٹرول کے تعاون سے چاروں صوبوں میں سیمینار ،ریلیوں اور مختلف سرگرمیوں کا اہتمام کریں گی جس میں پوسٹر ز اور بینرز کو آیزاں کیا جائے گا جن پر انسداد تمباکو کے خلاف بیداری ، سگریٹ پر ٹیکس میں اضافہ ، سمیت تمباکو کی دوسری مصنوعات جیسے ای سگریٹ نسوار ، گٹکا ، ویلو وغیرہ کے خلاف عوامی شعور کو اجاگر کیا جائے گا اور سول سوسائٹی کے نمائندگان تمباکو سے ہونے والے عوامی صحت کے نقصانات ، صحت بجٹ پر تمباکو کی وجہ سے پڑنے والے اضافی بوجھ ، اور تمباکو سے پھیلنے والی بیماریوں کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں گے ۔ تمباکو کی افزائش، تیاری اور استعمال ہمارے پانی، مٹی، ساحلوں اور شہر کی سڑکوں کو کیمیکلز، زہریلے فضلے، سگریٹ کے باقیات ، بشمول مائیکرو پلاسٹک، اور ای سگریٹ کے فضلے سے زہر آلود کر دیتے ہیں۔ تمباکو مصنوعات کی تیاری میں تمباکو کی صنعت 600 بلین درختوں اور 22000 بلین ٹن پانی سگریٹ بنانے میں استعمال کرتی ہے، اور 84000 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوا میں ہوتا ہے جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث ہے۔ یاد رہے کہ ہر سال لاکھوں افراد تمباکو نوشی و خوری کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن عوامی شعور میں کمی کے باعث تمباکو کی صنعت پھیل رہی ہے اور ان کے منافع میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے ، ہر سال اٹھارہ سال سے کم عمر تقریبا بارہ سو سے پندرہ سو بچے تمباکو نوشی کا آغاز کرتے ہیں ۔ اپنے آنے والی نسل کو تمباکو کے مضر اثرات سے بچانا انتہائی ضروری ہے اسی لئے عالمی ادارہ صحت اور تمباکو کے خلاف کام کرنے والے ادارے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر پورا سال کام کرتے ہیں لیکن تمباکو کے خلاف بہت سا کام کرنے کی اشد ضرورت ہے اسی لئے ا نسداد تمباکو کا عالمی دن، عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے ہر سال 31 مئی کو منایا جاتا ہے تاکہ عوامی شعور میں اضافہ ہو۔