فرحی نعیم
اسکول کے زمانے میں ٹیچرز اور سہیلیوں سے آٹو گراف لینا، ایک یادگار لمحہ ہوتا تھا، یہ اس دور کی نسل خوب جانتی ہے، ایک خوبصورت سی آٹو گراف بک خریدنے سے لے کر اس پر دیدہ زیب اور رنگین مارکروں سے دلفریب خوشخطی میں کوئی ایسا شعر، قول، نصیحت اور دلچسپ کلمات لکھنا یا لکھوانا کہ کئی برس بعد بھی جب وہ کھلے تو، بیتے حسین دن نظروں میں گھوم جائیں اور ماضی روپہلی کرنیں بن کر دل میں ہزار رنگ بکھیر دے۔
ایسے ہی ایک استانی نے ہماری، آٹو گراف بک پر بڑا بےمثال شعر لکھا۔
جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کر ملتے ہیں
صراحی سرنگوں ہوکر بھرا کرتی ہے پیمانہ
شاید اس وقت تو اس شعر کے معنی ہم پر اتنے نہیں کھلے ،کہ کم عمری کا تقاضا بھی تھا، لیکن وقت اور اردگرد کے ماحول وحالات نے اس کے مفہوم خوب واضح کیے، اس شعر کی معنویت نے اس کو ہم پر ایسا روشن کیا کہ استانی صاحبہ کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ کہنے والے نے کیا خوب انکساری وعاجزی کو بیان کیا اور اسے اعلیٰ ظرفی سے تشبیہ دی، اور مثال دی تو مٹی سے بنی صراحی کی، جو برتر ہوتے ہوئے بھی، اپنے چھوٹوں کے آگے جھک رہی ہے۔ آج ہمارے ، گھر ، خاندان اور معاشرے میں اس اعلیٰ ظرفی کی مثال خال، خال ہی رہ گئی ہے، جس کی بنیادی وجہ اقدارکی ٹوٹ پھوٹ اور روایات کا دھندلا پڑتے پڑتے آہستہ آہستہ معدوم ہو جانا ہے۔
خودسری کو خود اعتمادی کا نام دینا ، غلطی پر ندامت کو کمزوری اور خاموشی کو کم ہمتی کا نام دے کر ہم نے اعلیٰ اوصاف کا خوب مذاق بنایا ، اور اختیار کر نے والے کے تو وہ لتے لیے کہ آئندہ کرنے سے وہ بھی دامن بچا لے، ایک طرف اگر ہم خاندانی نظام مضبوط ڈوریوں سے کسنا چاہتے ہیں، اور اس پر مذاکرے، تقاریر اور بیانات جاری کرتے ہیں تو دوسری جانب اپنی نسل کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں بھی جھول رکھ رہے ہیں۔ معاشرے کو ہم کیا دینا چاہتے ہیں؟ یہ سوال ایک طرف، اسےکن خطوط پر استوار کر رہے ہیں ؟یہ دوسرا سوال اور آئندہ کے لیے ہمارا لائحہ کار کیا ہونا چاہئے ؟
ان سوالات کا آسان جواب تو یہی ہےکہ گھر سے ہی بچے کے اخلاق و عادات کو منظم کرنا، اسے عاجزی ،انکساری اور درگزر کرنے کی تلقین ، اور سب سے اہم، جھک جانے کی عادت اپنانے کی کوشش ، اس رویے کے اثرات و نتائج اتنے حیرت انگیز اور فوائد اتنے کثیر ہوسکتے ہیں کہ جن کا اندازہ شاید ممکن نہیں۔ ابتدا اگر ایک گھر سے کریں تو بچے کی گھٹی میں اپنے بہن ، بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ڈال دیا جائے، خیر خواہی کا جذبہ پروان چڑھانے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو برداشت کرنے کی کوشش کی تربیت کی جائے، دراصل ہم نے تربیت کو پس پشت ڈال کر سارا زور تعلیم کے حصول پر کردیا، جس کے نتائج بڑی شد و مد کے ساتھ سامنے آچکےہیں۔
آج بچے بڑی بڑی جامعات سے اونچی اونچی ڈگریاں تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن معمولی سی باتوں پر مزاج گرم کر لیتے ہیں۔ بے لچک رویے زندگیوں کو کتنا دشوار کر رہے ہیں، اس کا مظاہرہ دن، رات نظر آرہا ہے۔ ایک گھر کی پائیداری کی بنیاد میں لچکدار رویے اور ایثار و محبت کی اپنی حیثیت ہے۔ لڑکی جب نئے گھر میں قدم رکھتی ہے تو طرفین کی طرف سے کچھ نہ کچھ باتیں ایسی ہو جاتی ہیں، جنھیں دل میں رکھنے کی بجائے نظر انداز کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ جھک جانا، درگزر کردینا اور ٹال جانا ہی، گھر کے خوشگوار ماحول کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ لگانا آج دن بدن بگڑتے حالات میں مشکل نہیں۔
بچپن یا لڑکپن سے ہی لڑکی کواگر اپنے والدین اور بھائی ، بہنوں سے ایسے ہی برتاؤ کرنے کی عادت ہوگی تو سسرالی ماحول میں اسے مطابقت میں دشواری پیش نہیں آئے گی ، بلکہ اپنے مثبت اور مثالی رویہ سے وہ ایک مثال قائم کر سکیں گی۔ ایک ایسا گھر، جہاں مل جل کر جیا جاتا ہے ، مل جل کر رہا بسا جاتا ہے، جہاں مسائل ، خوشیاں سانجھی سمجھی جاتی ہیں۔ دکھ سکھ میں سب دوڑے آتے ہیں ، شادی بیاہ ،عید تہوار، جینے مرنے میں سب شامل ہوتے ہیں۔یہی گھر، خاندان کی پہچان ہے۔ بے لچک رویے تعلقات میں کشیدگی اور دوری کا سبب بنتے ہیں۔ اکڑ ، غرور،تکبر،یہ انسانی نفسیات کے وہ پہلو ہیں جن پر رابطوں کی پگڈنڈیاں قائم نہیں رہ سکتی۔
ایسی تعلق داریاں جلد ڈھ جاتی ہیں۔یہ دلدلی رستے اپنے اندر ہزار ہاتھ کھینچنے کے لیے لاتے ہیں، جن میں آپ ڈوبتے جاتے ہیں۔ اور پھر باہر نکلنے کے لیے کوئی راستہ نہیں باقی رہتا۔ اپنے اندر اعلیٰ ظرفی کے جراثیم پیدا کریں۔ ابتدا میں اگرچہ یہ مشکل ہوتا ہے کہ ناپسندیدہ عمل وفکر کو جبراً ہی سہی برداشت کرنا ، اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہ کرنا ، لیکن پھر یہ آہستہ آہستہ عادت میں بدل جاتی ہے۔ جب عادت، مزاج میں ڈھل جائے تو آپ اس ظرف کے عادی بنتے چلے جاتے ہیں۔ یہ اعلی ظرفی آپ کو بہت جلد نمایاں مقام دیتی ہے، ایسا امتیاز جس سے ہر کوئی خیر کی توقع رکھتا ہے۔
دوسروں کی اپنے سے اونچا مقام پانے پر ستائش ، تعریف، اس کی حوصلہ افزائی ، خود پیچھے رہ کر اگلے کو راستہ دینا، یا خود پردے کے پیچھے رہ کر، اسٹیج اس کے حوالے کر دینا، دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا،اپنی شخصیت کو گمنام رکھ کر کسی کے لیے کامیابیوں کے در وا کرنا، اس کی کامرانیوں کے لیے دعائیں، اس کے سامنے ہی، سب سےاس کی صلاحیتوں کی تعریف، یہ تمام عوامل بڑے حوصلے کا تقاضا رکھتے ہیں، کیوں کہ اعلیٰ ظرفی اپنے اندر ہزار معنی سموئے ہوئے ہے ۔ سمندر جتنا وسیع ظرف رکھنا چنیدہ لوگوں کا ہی خاصہ ہے ، یہ وصف ہر کسی کو نصیب تو نہیں ہوتا ، لیکن مسلسل محنت و لگن سے پیدا کیا جاسکتا ہے۔
کشادہ دلی اور بلند حوصلگی ، صرف نسل نو،فرد واحد ،نئی بیاہی بچی، خاندان اور سماجی ضرورت ہی نہیں کہ اس سے معاشرتی سدھار اور اور باہمی تعلقات میں بہتری لا کر دل و دماغ کی کشیدگی دور ہوتی ہے ، بلکہ یہ اقوام کی تقدیر و ترقی میں نمایاں کردار و مقام بھی حاصل کرسکتی ہے۔ مختلف اداروں، جن میں تعلیمی ادارے، دفاتر، بازار، صحت عامہ، تجارتی و ریاستی اداروں میں کون سی ایسی جگہ ہے جہاں اس وصف کی ضرورت نہ ہو، تنگ نظری و تنگ دلی جہاں کام کو متاثر کرتی ہے، رویوں میں کھنچاو پیدا کرتی ہے وہیں دوستی کو دشمنی میں بدلتے اور شیریں زبانی کو تلخ نوائی کا جامہ پہنا تے دیر نہیں لگتی ۔ معاشرے، انسانوں سے ہیں ،اور افراد کے بیچ ان کی پہچان و شناخت ان کی، قابلیت ، صورت ، عہدہ سے زیادہ اس کے رویوں میں پوشیدہ ہے۔
بلند اخلاقی اپنی جگہ لیکن نرم روی اور لچکداری میں جو حسن ہے۔ اس کی تعریف سوہی کر سکتے ہیں جو اس کو اپنے ساتھیوں سے برتتے ہیں۔ دل شکر گزاری کے جذبے سے بھر جاتے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ ہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں سے اگر کوئی خیر کا جذبہ دیکھتے ہیں تو فطری طور پر وہی جذبہ خاموشی سے آپ کے اندر بھی پروان چڑھنے لگتا ہے اور آپ اسی خیر کو بانٹنے میں معاون ہو جاتے ہیں۔
مثالیں تو بے شمار ہیں لیکن روزمرہ کی زندگی میں ہم نے دیکھا کہ جس ڈالی پر جتنابرگ و بارآتا ہے، وہ اتنا ہی عاجزی سے جھکی ہوتی ہے۔ بس کوشش کریں کے اپنے اندر جھک جانے کی عادت ڈالیں، اپنے کہنے کو ہی کامل نہ سمجھیں بلکہ سننے ، دیکھنے اور قبول کرنے پر بھی اپنے آپ کو آمادہ کریں۔ یاد رکھیں جھکتے انسان ہی ہیں، اکڑتے تومردے ہیں۔