• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جُرم کی ایف آئی آر کا اندراج جوئے شیر لانے سے کم نہیں

پولیس کے نظام میں سب سے پہلے قدم کے طور پر ایف آئی آر کا اندراج ہے، جب کہ اس ایف آئی آر کے درج ہونے کے بعد دوسرے مرحلے سے شروع ہوتے ہیں، لیکن ایف آئی آر کا اندراج اتنا بھی سہل نہیں ہے کہ اس کے بارے میں لوگوں کی یہ رائے بنی ہوئی ہے کہ اگر ایف آئی آر درج کرادی جائے، تو اس کے بعد مجرم کا سراغ اور اس سے ری کوری ہوسکے گی یا نہیں، یہ الگ بحث ہے، لیکن موجودہ پولیس نظام میں ایف آئی آر کا اندراج کرانا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے بینظیر آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے پولیس لائیژنگ کمیٹی کے کنوینئر ملک سعید احمد کا کہنا تھا کہ اگر کسی سفارش کے بعد ایف آئی آر درج کردی جاتی ہے، تو اس کے بعد ہوتا یہ ہے کہ اس ایف آئی آر کے اندراج کے بعد پولیس کی لاٹری کُھل جاتی ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے مجرم کو تلاش کرنے کے نام پر پولیس موبائل کے لیے تیل کے لیے پیسوں کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے جو کہ روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور اس کے بعد پھر پولیس اہل کاروں کے جو کے ملزم کی تلاش کے لیے جاتے ہیں، ان کا کھانا، چائے پانی کے علاوہ پان سگریٹ کے پیسے بھی فریادی سے اینٹھے جاتے ہیں، بعض اوقات یہ بھی ہوا ہے کہ جس شخص کی چوری ہوئی یا اس کے ساتھ کوئی اور واردات ہوئی ہے، تو وہ درمیان میں ہی جب کہ ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ، کانوں کو ہاتھ لگا کر اپنی چوری یا اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی سے دستبردار ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ ایف آئی آر عدم پیروی کے نتیجے میں داخل دفتر کر دی جاتی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کے ہر ایک شخص کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوتا اور اگر فریادی بااثر ہے، تو پھر اس کا الٹ ہوتا ہے اور پولیس اس بااثر کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے مجرم کا پتہ لگاتی ہے اور پھر اسے قانون کے کٹہرے میں لایا جاتا ہے ۔ ‘‘ ادھر دوسری جانب ایف آئی آر کے اندراج کی کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کے بعد ہوتا یہ ہے کہ اگر خوش قسمتی سے ملزم کو پکڑا جاتا ہے، تو دوسرا مرحلہ اس سے مال کی برآمدگی کا بھی ہوتا ہے اور یہ انتہائی اہم مرحلہ ہوتا ہے اور اس میں یہ بھی ہوا ہے کہ جتنے کا مال گیا تھا، اس کا ایک چوتھائی مال بھی برآمد نہیں ہوتا، اس سلسلہ میں نواب شاہ کی موبائل مارکیٹ میں ہول سیل کی دُکان کی چھت پھاڑ کر لاکھوں روپے مالیت کے موبائل چوری کر لیے گئے۔

تاہم یہ ملزمان تاحال قانون کی گرفت سے باہر ہیں، گوکہ اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا یہ کہنا ہے کے پولیس نے اس کیس کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا، لیکن موبائل شاپ کے مالک کا کہنا ہے کہ ان کا مسروقہ مال اب تک نہیں ملا اور وہ قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ، جب کہ ایک نوسر بازی کا واقعہ لیاقت مارکیٹ میں اس وقت پیش آیا، جب ایک چائے کمپنی کے ری کوری مین پر جو کہ پانچ لاکھ روپے کی رقم لے کر جا رہا تھا، اس پر دو بچوں نے پولیس کے مطابق پیچھے سے کیچپ کی چٹنی پھیکی اور وہ قریبی دکان سے پانی لے کر اپنے کپڑے دھو ہو رہا تھا کہ اس کے پاس رکھی تھیلی کو ان بچوں کے ساتھ موجود نوجوان لے کر فرار ہو گئے۔

اس کے علاوہ ضلع شہید بینظیر آباد میں موٹر سائیکل چوری کی وارداتین ہو رہی ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے یہ پولیس کی کارکردگی بھی اس سلسلے میں انتہائی شان دار نہ سہی، لیکن بہتر ضرور ہے۔ اس بارے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا ہے کہ ان کے پیریڈ میں جرائم اور مجرموں کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں کی گئیں ہیں۔

پُورے سندھ میں سب سے زیادہ منشیات کی برآمد گی اور منشیات فروشوں کی گرفتاری اس ضلع شہید بے نظیر آباد میں عمل میں آئی ہے۔ بڑے بڑے منشیات فروش جو کہ پُورے سندھ میں گٹکا مین پوری ‏z21 اور اس کے علاوہ چرس ہیروئن اور افیون کے بڑے اسمگروں شامل ہیں، کو گرفتار کیا گیا ہے، جب کہ بلوچستان سے خواتین کے ذریعے منشیات کی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کو بھی پکڑا گیا اور کئی خواتین اسمگروں کو منشیات سمیت چالان کیا گیا۔

تاہم ایسے اسپین امیر سعود بچی کے ان تمام دعوؤں کے باوجود نشہ اور زیڈ 21 مین پوری کی فروخت بھی جار ی ہے۔ اس کے علاوہ چرس افیون اور ہیروئن بھی کھلے عام نہ سہی ، چوری چپھپے فروخت ہو رہی ہے۔ سلسلے میں پولیس سربراہ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ معصوم اور بھولے بھالے لوگوں کو اس لعنت میں مبتلا کرنے والے عناصر کو قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دلاکر ،معاشرے کو ان سے پاک کریں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید