وفاقی صوبائی حکومتیں ہوں یا سندھ پولیس کے سربراہان، ہر دور میں یہ اعلانات کیے جاتے رہے ہیں کہ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا، پولیس کی اپ گریڈیشن کی جائے گی، سندھ کے پسماندہ مشکل ترین کچے کے علاقوں اور جنگلات میں کام کرنے وا لی پولیس کو جدید ہتھیار ، فور بائے فور گاڑیاں ، نئے تھانے شہری علاقوں میں ماڈل پولیس اسٹیشن بنائے جائیں گے۔ پولیس کی نفری میں اضافہ کیا جائے گا، لیکن عملی طور پر ان اعلانات پر کوئی خاطر خواہ عمل درآمد یا پیش رفت تاحال دکھائی نہیں دیتی۔
پولیس نے ان نامساعد حالات کے ہوتے ہوئے بھی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو اس احسن انداز میں ادا کیا ہے کہ جیسے وہ کوئی جدید طرز کی ٹیکنالوجی سے لیس ہو، جس کے پاس جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لیے تمام تر وسائل اور سہولیات موجود ہوں۔ سندھ کے مشکل ترین اضلاع کشمور اور شکارپور میں پولیس نے ایک سے ڈیڑھ سال میں وہ تاریخی کام یابیاں حاصل کیں، جو پولیس ان اضلاع میں کئی دہائیوں میں حاصل نہیں کرسکی تھی، دونوں اضلاع میں درجنوں ڈاکو جن میں 10 سے 12 ڈاکو بدنام زمانہ اور انعام یافتہ تھے، وہ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
اگر بات کی جائے شکارپور ضلع کی، تو یہ انتہائی مشکل ضلع ہے، جہاں کچے کے تین خطرناک علاقے گڑھی تیغو، شاہ بیلو اور مدیجی سمیت بعض دیگر علاقے شامل ہیں۔ اس اہم ضلع میں جہاں کچے کے علاقوں اور جنگلات میں ڈاکو راج قائم ہو پولیس سے زیادہ جدید ہتھیار ڈاکوؤں کے پاس موجود ہوں اور پولیس کے پاس صرف تین اے پی سی گاڑیاں نہ جدید اسلحہ نہ گاڑیاں نہ نفری نہ وسائل کچھ بھی تو نہیں اور قابل غور و قابل حیرت بات یہ ہے کہ دوسال تک آئی جی سندھ رہنے والے مشتاق احمد مہر نے اپنے ہی ضلع شکارپور جو ان کا آبائی علاقہ ہے، اس پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی اور حکومت تو پولیس کے حوالے سے ویسے ہی اعلانات تک محدود دکھائی دیتی ہے۔
ان مسائل مشکلات اور نامسائد حالات میں پولیس کمانڈر ایس ایس پی شکارپور تنویر حسین تنیو نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ایک وقت میں کئی محاذوں پر ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر اور منشیات فروشوں کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ناقابل یقین لائق تحسین کامیابیاں حاصل کیں۔ گزشتہ دنوں شکارپور پولیس نے بڑی اور بروقت کام یابی حاصل کرتے ہوئے اغوا کیے گئے تین پولیس اہل کاروں کو چند گھنٹوں میں آپریشن کے بعد بہ حفاظت بازیاب کرالیا۔ ڈاکوؤں نے کچے کے علاقے کوٹ شاہو میں پولیس چوکی سے چار پولیس اہل کاروں کو اغوا کیا تھا، ایک پولیس اہل کار کو راستے میں چھوڑ کر تین پولیس اہلکاروں کو کچے کے علاقے میں لے گئے تھے۔
اطلاع ملتے ہی ایس ایس پی تنویر حسین تنیو پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ کچے کے علاقے میں پہنچ گئے، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ڈاکوؤں کا گھیراو کیا اور مقابلے کے بعد تین مغوی پولیس اہل کاروں کو بہ حفاظت بازیاب کرالیا گیا۔ شکارپور پولیس کی گزشتہ 4 ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو پولیس نے ڈاکوؤں کے ساتھ ساتھ منشیات فروشوں کے خلاف بھرپور کریک ڈاون کئے اور مختلف علاقوں میں کاروائیاں کرتے ہوئے 437 کلو چرس برآمد کی ہے۔ ایس ایس پی شکارپور تنویر حسین تنیو کی سربراہی میں جاری آپریشن نے پولیس نے رواں 4 سے 5 ماہ کے دوران بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔
ضلع بھر میں امن و امان کی فضاء کو برقرار رکھنے اور ڈاکوؤں کا قلع قمع کرنے کے لیے پولیس نے اپنے پیشہ ورانہ فرائض ذمے داری سے انجام دیے، ضلع بھر میں ڈاکوؤں اور پولیس کے درمیان 63 پولیس مقابلے ہوئے ان مقابلوں میں 6 ڈاکو مارے گئے۔ 204 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار سمیت دیگر جرائم کی وارداتوں میں ملوث 9 گروہوں کا خاتمہ کیا گیا۔ ضلع میں جاری اشتہاری اور روپوش ملزمان کے خلاف آپریشن میں 563 اشتہاری اور 239 روپوش ملزمان کو گرفتار کیا گیا، گرفتار کیے گئے ملزمان کے قبضے سے 2 کلاشنکوف، 37 شارٹ گن، ایک ریوالور، 44 پستول برآمد ہوئے۔ تمام علاقوں میں منشیات فروشوں اور سماجی برائیوں سمیت اسمگل شدہ ممنوعہ اشیاء فروخت کرنے والوں کے خلاف بھی بھرپور کریک ڈاون کیا گیا اور مختلف کارروائی کی گئیں۔
ان کارروائیوں میں پولیس نے 2 ہزار 880 لیٹر ایرانی تیل، 470 گرام گٹکا، 437 کلو گرام چرس، شراب کی 13بوتلیں اور 4 کلو 500 گرام بھنگ برآمد کی گئی، جب کہ لاکھوں روپے مالیت کا مسروقہ سامان برآمد کیا گیا، جس میں چھوٹی بڑی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں شامل ہیں۔ یہ مسروقہ سامان ان کے مالکان کے حوالے کیا گیا، مسائل اور مشکلات میں گھری پولیس کی بہتر کارکردگی کو دیکھتے ہوئے حکومتی سطح پر پولیس جیسے اہم ترین شعبے کو اپ گریڈ، پولیس تھانوں کی حالت زار کی بہتری ، جدید اسلحہ، گاڑیوں کی فراہمی اور آپریشنل ضروریات کو پورا کرنا حکومت وقت کی ذمے داری ہے، کیوں کہ سندھ کی مجموعی صور ت حال کی بات کی جائے، تو جرائم اور اغوا برائے تاوان کی سنگین وارداتیں ایک بار پھر تیزی سے سر اٹھا رہی ہیں اس لیے اس کی بروقت روک تھام اور سرکوبی کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔