شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی ایک نظم کا مصرع ہے؎’’ معجزۂ فن کی ہے خُونِ جگر سے نمود‘‘ بجا ہے کہ اگر خون جگر میسّر نہ ہو، تو سارے خُوب صُورت نقوش ناتمام قرار پاتے ہیں۔ عام طور پرخون کا لفظ سُنتے ہی انسانی ذہن میں خوف اور پریشانی کے منفی تاثرات پیدا ہوتے ہیں، مگر جب خون کے عطیے کی بات ہو، تو ایثار و قربانی کے تصوّرات جنم لیتے ہیں اور انسانی عظمت و تکریم کے نئے باب کُھلتے ہیں کہ یہ وہ نیک عمل ہے،جس کے ذریعے انسانی جان بچائی جاسکتی ہے۔
انتقالِ خون کی اِس اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے عالمی سطح پر14جون رضاکارانہ طور پر خون دینے والوں کا یوم قرار دیا گیا ہے، تاکہ نہ صرف ان کی خدمات کا اعتراف کیا جائے، بلکہ انتقالِ خون کی اہمیت سے متعلق شعور بھی اُجاگر کیا جائے۔ عالمی ادارۂ صحت نے بین الاقوامی ریڈ کراس سوسائٹی اور انجمن ہلال احمر کے تعاون سے 2005ء میں یہ یوم منانے کا آغاز کیا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا 14جون ہی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ تو کارل لینڈسٹینرKarl Landsteinerایک مشہور طبیب اور ماہرِ حیاتیات تھے، جنہوں نے پہلی بار خون کے مختلف گروپس دریافت کیے اور ان سے متعلق تفصیل فراہم کی۔ اسی تحقیق پر اُنھیں1930ء میں نوبل پرائز بھی دیا گیا۔ چوں کہ ان کی تاریخِ پیدایش 14 جون 1868ء ہے، تو انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے عالمی ادارئہ صحت نے اس تاریخ کا انتخاب کیا۔ امسال ،اس دِن کے لیے جو تھیم منتخب کیا گیا ہے،وہ "Donating Blood Is An Act Of Solidarity. Join The Effort And Save Lives" یعنی ’’عطیۂ خون یک جہتی کا عمل :اس کوشش میں شامل ہوں اور جانیں بچائیں۔‘‘
خون وہ سیال مادّہ ہے، جو ایک مربوط نظام کے تحت شریانوں اور وریدوں میں گردش کرتاہے اور یہی گردش ہماری زندگی کی ضمانت ہے۔ خون مختلف اجزاء مثلاً پلازما، سُرخ خلیات(ریڈ بلڈ سیلز)، سفید خلیات(وائٹ بلد سیلز) اور پلیٹ لیٹس پر مشتمل ہوتا ہے،جن کے الگ الگ افعال ہیں۔ مثلاً:
٭پلازما:خون کا بنیادی جزو ہے،جس کے اندر پانی، لحمیات (پروٹین) اور دیگر غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔ خون کا55فی صد حصّہ پلازما پر مشتمل ہوتا ہے۔ سُرخ خلیات، سفید خلیات اور پلیٹ لیٹس وہ اجزاء ہیں، جو پلازما کے اندر معلق ہوتے ہیں اور خون کے 45فی صد حصّے کی تشکیل کرتے ہیں۔
٭سُرخ خلیات: ان کا کام پھیپھڑوں سے پورے جسم میں آکسیجن فراہم کرکے کاربن ڈائی آکسائڈ لے کر آنا ہے۔ خون کے اندر ان کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری رہتا ہے، جب کہ ان کی زندگی کا دورانیہ چار ماہ یا 120دِن پر مشتمل ہوتا ہے۔
٭سفید خلیات: جسم کے دفاعی نظام کا اہم ترین حصّہ سفید خلیات ہیں کہ یہ بیرونی حملہ آوروں اور مختلف بیماریوں کے خلاف جنگ لڑتے ہیں۔
٭پلیٹ لیٹس: یہ جسم سے خون کا اخراج روکنےاور بہنے کی صُورت میں اسےجمنے میں مددفراہم کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر خون کے ذمّے جو افعال ہیں، اُن میں آکسیجن کی فراہمی اور کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج، مختلف ہارمونز اور اہم غذائی اجزاء جسم کے مختلف حصّوں تک پہنچانا، جسم کا درجہ حرارت برقرار رکھنا، کسی بھی زخم کی صُورت میں خون کا اخراج روکنا اور اسے جمنے میں مدد فراہم کرنا، جسم کے فاضل مادّوں کو جگر اور گُردوں تک پہنچانا، بیرونی حملہ آوروں کے(مثلاً جراثیم اور وائرس)خلاف دفاعی جنگ لڑنا اور مختلف امراض سے جسم کو محفوظ رکھنا شامل ہیں۔
عمومی طور پر ایک صحت مند فرد کے جسم میں پانچ سے چھے لیٹر خون موجود ہوتا ہے، جو جسمانی وزن کے تقریباً آٹھ فی صد کے برابر ہے۔ جسم میں خون کی شدید کمی کی صُورت میں مریض کواسی کے گروپ کا خون فراہم کیا جاتا ہے کہ غلط انتقال ِخون کے نتیجے میں ردِّعمل کا خدشہ ہوتا ہے،جو انتہائی مہلک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
واضح رہے، خون کے گروپس کو انگریزی حروف تہجی کی بنیاد پر پہچانا جاتا ہے۔ اس طرح چار گروپس ہمارے سامنے آتے ہیں، جنہیں اے، بی، اے بی اور او سے موسوم کیا گیا ہے، جب کہ رہسس سسٹم (Rhesus System) کی وجہ سے یہ چاروں گروپس مثبت اور منفی کی بنیادپر مزید تقسیم کیے جاتے ہیں۔
یوں مجموعی طور پر آٹھ گروپس تشکیل پاتے ہیں۔ واضح رہے، جن افرادکے خون کاگروپ مثبت ہوتا ہے، اُن کے سُرخ خلیات میں رہسس اینٹی جین (Rhesus Antigen) پائی جاتی ہے، جب کہ خون کے منفی گروپ کے حامل افراد میں نہیں پائی جاتی۔یاد رہے،رہسس اینٹی جین ایک قسم کی پروٹین ہے۔ دُنیا بَھر میں 93فی صد افراد مثبت بلڈ گروپس سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ منفی گروپس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد 7فی صد کےلگ بھگ ہے۔
اگربلڈ گروپس کی بنیاد پر دُنیا کی کُل آبادی کا تجزیہ کیا جائے، تو او پازیٹیو گروپ 42 فی صد،اےپازیٹیو31فی صد، بی پازیٹیو15فی صد،اے بی پازیٹیو 5 فی صد، او نیگیٹیو 3فی صد،اے نیگیٹیو2.5فی صد،بی نیگیٹیو1فی صد اوراے بی نیگیٹیو 0.5فی صد پایا جاتا ہے۔واضح رہے، دُنیا بَھر کے مختلف خطّوں اور نسلوں میں یہ تناسب مختلف ہو سکتا ہے۔
انتقالِ خون کے وقت خاص طور پر اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ مریض کو اِسی کے گروپ کا خون مہیا کیا جائے، مگر ہنگامی صُورتِ حال میں ماہر معالج کی زیرِنگرانی دوسرے گروپ کا خون بھی دیا جا سکتا ہے۔ البتہ انتقالِ خون کے کچھ قواعدکا لازماً خیال رکھا جاتا ہے۔
جیسا کہ منفی گروپ کے مریض کو کبھی مثبت گروپ کا خون نہیں دینا چاہیے، البتہ مثبت گروپ کے مریض منفی گروپ کا خون وصول کر سکتے ہیں۔ او گروپ کے حامل افراد ہر گروپ سے تعلق رکھنے والوں کو خون کا عطیہ دے سکتے ہیں، مگر خود انہیں او گروپ کے علاوہ کوئی اور خون نہیں دیا جا سکتا۔ اے بی گروپ سے تعلق رکھنے والے مریضوں کو کسی بھی گروپ کا خون دیا جا سکتا ہے، لیکن وہ خود سوائے اے بی گروپ کے کسی اور گروپ کے مریضوں کو خون کا عطیہ نہیں دے سکتے۔
اسی طرح اے گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد بی گروپ کو عطیہ دے سکتے، نہ ہی ان سے وصول کر سکتے ہیں۔ بی گروپ کے افراد اے گروپ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو خون کا عطیہ دے سکتے، نہ ہی ان سے وصول کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اوقات ایک ہی گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد میں بھی معمولی نوعیت کا ردِّعمل ظاہر ہو سکتا ہے، لہٰذا انتقالِ خون سے قبل لیبارٹری میں یہ تصدیق کرنا لازمی ہے کہ مریض کا خون عطیہ شدہ خون قبول کرنے پر آمادہ ہے۔ لیبارٹری کے تصدیقی عمل کو طبّی اصطلاح میں کراس میچ (Cross Match)کہا جاتا ہے۔
٭انتقال خون کا تاریخی پس منظر: 1667ء میں پہلی بار انسان کو خون فراہم کیا گیا۔ یہ کام ایک فرانسیسی ڈاکٹر جان باپٹسٹ نے سَرانجام دیا۔ اپنے پہلے تجربے میں فرانسیسی طبیب نے ایک بھیڑ کے بچّے کا خون انسانی جسم میں داخل کیاتھا۔ بعد ازاں، انسانی خون مریضوں کو فراہم کیا جانے لگا۔ ابتدائی تجربات میں خون کی منتقلی سے کئی مریضوں کی جان بچائی گئی، لیکن چوں کہ اُس دَور میں خون کے مختلف گروپس کاعلم نہیں تھا، تو کوئی دوسرا گروپ لگائے جانے کے نتیجے میں مریضوں کو ری ایکشن کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
٭بلڈ بینکس کا قیام:خون کا ذخیرہ کرنے والا پہلا بینک کینیڈا کے ڈاکٹر ہنری نارمن بیتھون نے قائم کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران بینک کے ذخیرے سے زخمیوں کو خون فراہم کیا گیا، جب کہ رضاکارانہ طور پر خون کے عطیات کو ذخیرہ کرنے کے لیے 1922ء میں برطانیہ میں پہلا بلڈ بینک قائم ہوا، جب کہ اسپتال میں داخل مریضوں کو خون کی فراہمی کے لیے سوویت یونین نے 1930ء میں پہلی بار بلڈ بینک متعارف کروایا۔ 1937ء میںڈاکٹر برنارڈ فلانٹس نے باقاعدہ طور پر بلڈ بینک کی اصطلاح استعمال کی اور امریکا کے شہر شکاگو میں بلڈ بینک کا قیام عمل میں آیا۔
٭انتقالِ خون کی ضرورت کب پیش آتی ہے؟ کسی بھی فرد کو خون اُس وقت دیا جاتا ہے، جب جسم میں کسی مرض یا حادثے کی وجہ سے خون کی شدید کمی واقع ہو جائے اور اس کمی کو محض ادویہ کے ذریعے پورا کرنا ممکن نہ ہو۔ بعض ایسے عوارض ہیں، جن میں خون پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے اورتاعُمر خون لگوانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمیو فیلیا، تھیلیسیمیا، اینمیا، سکل سیل کا مرض، عارضۂ جگر، گُردوں کے نظام کی خرابی اور سرطان وغیرہ۔ اسی طرح میجر سرجری، امراضِ نسواں اور زچگی کے موقع پر بھی انتقالِ خون کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
٭عطیۂ خون کے ضمنی اثرات:بعض کیسز میں انتقالِ خون کے نتیجے میں بعض طبّی مسائل بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔ مثلاً چکر،حسّاسیت یا الرجی، خارش، بخار، متلی اورقے وغیرہ۔ اس کے علاوہ فراہم شدہ خون کے سُرخ خلیات، مریض کے سُرخ خلیات کو تباہ کر سکتے ہیں، توضرورت سے زائد خون کی فراہمی کی صُورت میں مریض کے جسم میں خون اور اس کے مختلف اجزاء، خاص طور پر فولاد کی زیادتی ہوسکتی ہے۔ اگر خون صاف ستھرا/محفوظ نہ ہو، تو ایڈز، ہیپاٹائٹس، آتشک(syphilis) اور دیگر امراض کی منتقلی کا امکان ہوتا ہے۔
٭کیا ہر فرد خون کا خون کا عطیہ دے سکتا ہے؟ ہر انسان کے جسم میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ ایک تن درست فرد جس کی عُمر 18سے 60سال کے درمیان اور وزن110 پونڈ سے زیادہ ہو،وہ ہر تین ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے۔ خون کا عطیہ دینے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا، بلکہ بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ مثلاً خون میں چکنائی کی مقدار پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے اور قوّتِ مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تین مہینے کے اندر نیا خون بن کر جسم کے ذخیرے میں شامل ہو جاتا ہے۔ ذیابطیس اور بُلند فشارِخون کے مریض بھی خون کا عطیہ دے سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کا مرض کنٹرول میں ہو۔
اس موقع پر یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ کون سے افراد خون کا عطیہ نہیں دے سکتے؟تو سرطان کے مریض،خاص طور پر جن کی کیمو تھراپی ہو رہی ہو،ہیپاٹائٹس بی، سی، ایڈز ، اینیمیا، دِل اور پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا افراد یا جو اعصابی، جنسی مرض کا شکار ہوں، منشیات کے عادی افراد، خصوصاً جو انجیکشن کے ذریعے نشہ آور ادویہ استعمال کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، خون کے مختلف امراض مثلاً ہمیوفیلیا اور تھیلیسیمیا میں مبتلا افراد، جو گزشتہ دو دِن سے بخار اور نزلہ زکام کا شکار ہوں اور اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کر رہے ہوں۔ تاہم، یہ مریض صحت یاب ہونے کے 14دِن بعد خون کا عطیہ دے سکتے ہیں۔
عطیے کے وقت خون میں پلازما، سُرخ و سفید خلیات اور پلیٹ لیٹس موجود ہوتے ہیں،جسےطبّی اصطلاح میں مکمل خون(Whole blood)کہا جاتا ہے۔کچھ عرصہ قبل مریضوں کو صرف مکمل خون فراہم کیا جاتا تھا، مگر اب مکمل خون صرف اُن ہی مریضوں کو لگایاجاتا ہے، جن کا ہنگامی طور پر بڑی مقدار میں خون ضایع ہو چُکا ہو۔ علاوہ ازیں، مریض کو خون کا وہی جزو لگایا جاتا، جس کی اُسے ضرورت ہو۔ مثلاً خون کے سُرخ خلیات (Packed Red Cells)، پلیٹ لیٹس، تازہ منجمد پلازما (Fresh Frozen Plasma) اورخون کے وہ اجزاء یا فیکٹرز جو خون کو بہنے سے روکتے ہیں اور جمنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
یوں ایک بوتل خون کے ذریعے کئی مریضوں کو بچایا جاسکتا ہے۔ مریض کو خون منتقل کرنے سے قبل عطیہ کردہ خون کی جانچ کرکے اس بات کا اطمینان کیا جاتا ہے کہ آیا خون محفوظ بھی ہے یا کہیں اس میں کسی قسم کے جراثیم اور وائرسز تو موجود نہیں۔ پاکستان میں عموماً پانچ مختلف بیماریوں، خاص طور پر ہیپاٹائٹس بی، سی، ایڈز، ملیریا اور آتشک کے حوالے سے خون کی جانچ کی جاتی ہے۔ آخری مرحلے میں ایک لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے یہ تسلی بھی کی جاتی ہے کہ آیا مریض کا خون دوسرے فرد کا خون وصول کرنے پر آمادہ ہے اور کسی قسم کے ردِّعمل کا کوئی خدشہ تو نہیں۔
پاکستان میں خون کا عطیہ دینے والوں کی تعداد خاصی کم ہے کہ درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے رضاکار خوف، پریشانی اور مختلف اوہام کا شکار رہتے ہیں، لہٰذا عطیۂ خون کے رجحان کو فروغ دینا ازحد ضروری ہے۔ اس ضمن میں طبی کارکنان پر یہ ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ عوام النّاس کو عطیۂ خون کی اہمیت سے آگاہ کریں اور ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ کریں۔ بعض افراد شرعی نقطۂ نظر سے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف علماء کا یہی مشترکہ موقف سامنے آیا ہے کہ خون کا عطیہ دینے میں کوئی شرعی قباحت نہیں، بلکہ یہ عین کارِ ثواب ہے۔
خون کا عطیہ دینے سے کئی انسانی زندگیاں ضایع ہونے سے بچائی جاسکتی ہیں اور یہی شریعت میں مقصود ہے، البتہ خون کا عطیہ دینے کا کام رضاکارانہ طور پر ہونا چاہیے، کیوں کہ خون کی خرید و فروخت کا شریعت میں کوئی جواز نہیں۔ یاد رکھیے! خون کا عطیہ ایک ایسی نیکی ہے، جو لوٹ کر ہماری طرف آتی ہے، لہٰذا ہمیں آگے آنا ہوگا اور سارے شکوک و شبہات سے نجات حاصل کر کے بڑھ چڑھ کر خون کے عطیات دیں کہ ہماری جانب سے ہونے والی تاخیر کسی کو موت کی دہلیز پر پہنچا سکتی ہے۔ (مضمون نگار، ِ نفسیاتیِ امراض کے ماہر ہیں۔رفاہ انٹرنیشنل اسپتال، اسلام آباد میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) پنجاب کے جنرل سیکرٹری ہیں)