• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی

ڈاکٹر قیصربنگالی اکنامسٹ/ سابق مشیرسندھ  اور بلوچستان حکومت
ڈاکٹر قیصربنگالی 
اکنامسٹ/ سابق مشیر
سندھ  اور بلوچستان حکومت

پاکستان پچھلے دو تین سال سے جتنے بھی قرض لے رہاہے وہ پچھلے قرض کی قسط ادا کرنے کےلیے لیتا ہے،قرض کا ایک ڈالر بھی ہمارے کسی منصوبے میں استعمال نہیں ہورہا، آج بینک تیل کھولنے کے لیے ایل سی نہیں کھول رہے، کل گندم کے لیے بھی نہیں کھولیں گےتو بڑی معذرت کے ساتھ خوراک کا ایک بڑا بحران نظر آرہا ہے مہنگائی تو آپ چھوڑ دیں۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی

زبیر موتی والاسابق صدر،کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری
زبیر موتی والا
سابق صدر،کراچی چیمبر
 آف کامرس اینڈ انڈسٹری

بینک کرپٹ نہیں ہوں گے ،سری لنکانہیں بنیں گے،ہم ایٹمی قوت ہیں اور لوگوں کو ہماری جغرافیائی صورت حال کا بھی معلوم ہے، اپنا پٹرول کا بجٹ کم کریں، گیس کا استعمال کم کریں، کیوں کہ آپ آرایل این جی درآمد کررہے ہیں جو تیس ڈالر کی ہے ، برآمدات بڑھائی اور درآمدات کم کی جائے، متبادل توانائی کے ذرائع کی سرپرستی کرنی پڑے گی، پاکستان کا ایکسپورٹ پوٹینشل 100بلین ڈالر کا ہے لیکن ہمارے پالیسی ساز حکومتیں ہمیں جان بوجھ کر غربت میں رکھنا چاہتے ہیں۔

زبیر موتی والا

عبدالقادرمیمنسربراہ /سابق صدرانکم ٹیکس بار ایسوی ایشن
عبدالقادرمیمن
سربراہ /سابق صدرانکم
ٹیکس بار ایسوی ایشن

دنیا میں کہیں بھی کوئی شخص خوشی سے ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہوتا، ڈیٹرنس پیدا کی جاتی ہیں، آپ کے پاس جو سب سے پہلا ڈیٹرنس آٹومیشن ہے، دوسرا حکومت کی کارروائی کہ اگر کسی شخص کو حکومت نے ٹیکس چوری پرپکڑ لیا ہے تو وہ کوئی بھی ہوپھر سزا لازمی ہے، جب تک ہم براہ راست ٹیکس نہیں لیں گے، ہم ان ڈائریکٹ ٹیکس سے غریب کو مارتے چلے جائیں گے۔ اب 63 فی صد ان ڈائریکٹ ٹیکس ہوگیا ہے۔

عبدالقادر میمن

ڈاکٹر ایوب مہراکنامسٹ/کنسلٹنٹایشین ڈولپمنٹ بینک
ڈاکٹر ایوب مہر
اکنامسٹ/کنسلٹنٹ
ایشین ڈولپمنٹ بینک

بنگلا دیش کا 25 فی صد بجٹ سب سڈیزپر خرچ ہوتا ہے، بھارت میں 20فی صد ہے، پاکستان میں آٹھ فی صد سے کم ہے، ہماری نئی مشکل آئی ایم ایف کی شرائط ہیں، ان کی شرائط میں زیادہ زور سب سڈی کم کرنے پر ہے، جس سے مہنگائی میں اضافہ اور معاشرے میں عدم مطابقت بڑھے گی، آئی ایم ایف کا زورنجکاری کرنے اورتن خواہوں کا بجٹ کم کرنے پر بھی ہوتا ہے، جس کا براہ راست تعلق عوام سے ہے

ڈاکٹر ایوب مہر

پاکستان کے عوام جون میں دو قسم کی گرمیوں کاسامنا کرتے ہیں ایک موسم کی دوسری بجٹ کی۔ اب یہ اتفاق ہے کہ اس برس دو اقسام کی گرمیوں میں شدت پائی جاتی ہے ۔موسم کی گرمی بھی پریشان کن ہے تو معاشی صورتحال بھی۔ پاکستان کی معیشت کے اعشاریے بہت خراب اور نازک صورت حال پیش کررہے ہیں ماہرین کا خیال ہے ٹیکنیکلی پاکستان ڈیفالٹ کرچکا ہے بس اعلان باقی ہے، روپیہ تیزی سے اپنی قدر کھو رہا ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپیہ دوسو روپے پر ہے ،زرمبادلہ کے ذخائر صفر پر ہیں دس ارب ڈالر کے ذخائر ضرور ہیں لیکن وہ حکومت کے استعمال میں نہیں آسکتے، بجٹ خسارہ ریکارڈ سطح پر ہے ،افراط زر بہت بلند ہے اور مزید اضافے کی طرف اس کا رحجان ہےکیوں کہ ڈالر کی کمی کے سبب پٹرول کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا ہےجس سے افراط زر میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کی خبریں ہیں لیکن ان کی شرائط بہت سخت ہیں۔

حکومت اپنی آمدنی میں قابل قدر اضافہ کرنے میں ناکام رہی ہےقرضوں میں بے تحاشااضافہ پیدا ہوا ہے اور بجٹ کا ایک بڑا حصہ اس کی ادائیگی میں چلا جائے گا۔ معیشت کو درپیش ان مشکلات سے حکومت کیسے نمٹے گی اور حکومت کو بڑے چیلنجز کیا کیا ہیں۔ اسے جاننے کے لیے بجٹ مشکلات کیا کیا ہیں کے موضوع پر اقرا یونی ورسٹی میں جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا، جس میں کراچی چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے سابق صدر زبیر موتی والا پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سربراہ اور سابق صدر عبدالقادر میمن معروف اکنامسٹ ڈاکٹر قیصر بنگالی اور ڈاکٹر ایوب مہر نے اظہار خیال کیا۔فورم کے آغاز سے قبل اقرا یونی ورسٹی کے ڈائریکٹر کوالٹی لرننگ اینڈ ابسرویشن اور ایسوسی ایٹ ڈین ڈاکٹر ایم ذکی راشدی نے مہمانوں کا تعارف کرایا۔

جنگ: ڈاکٹر ایوب مہر صاحب موجودہ نئی حکومت بجٹ پیش کرنے جارہی ہے،آپ کی رائے میں پاکستان کی معیشت ابھی کس حال میں ہے اور حکومت کو نئے بجٹ میں ابتدائی تین چیلنجز کیا ہیں ۔

ڈاکٹر ایوب مہر: میرے خیال میں اس بجٹ میں دونئے مسائل سامنے ہیں ایک بیرونی قرضہ اور فارن ایکسچیج کے ذخائر کا جس کا ذکر آپ نے بھی کیا۔تاریخی طور پر کچھ مشکلات ہم تین عشروں سے دیکھ رہے ہیں اور کچھ کا ہمیں پہلی مرتبہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میرے خیال میں جو ابتدائی تین نکات ہمارے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ اس میں پہلا بڑھتی مہنگائی ہے، کنزیومر پرائس انڈیکس کے مطابق جو میڈیا پر رپورٹ بھی ہوتا رہا ہے ،وہ دوہزار اٹھارہ میں 3 اعشاریہ 9 فیصد پر تھا۔

وہ ابھی 13اعشاریہ 4 پر پہنچا ہوا ہے۔ لیکن زیادہ پریشان کرنے والی بات ایس پی آئی کا ہمارا انڈیکس ہے جس کا تعلق حساس اعشاریہ پر ہے ۔جو عام آدمی کے زیراستعمال بارہ اشیا پر مشتمل ہے۔ اس کے مطابق وہ دوہزار اٹھارہ میں عام آدمی کے لیے جو مہنگائی زیرو اعشاریہ نو فیصد تھی وہ اب بڑھ کر 17فیصد ہوگئی ہے۔ یہ میرے نزدیک نہایت خطرناک صورتحال ہے۔ ہمارے یہاں بعض کے خیال میں مہنگائی پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔

اگر ہم ان کی یہ بات مان بھی لیں اور ایس پی آئی کا انڈیکس بھی نظرانداز کردیں تو کنزیومر پرائس انڈیکس جو آج کل ہمارے 13اعشاریہ چار پر ہے وہ ہمارے پڑوس بھارت میں سات اعشاریہ آٹھ فیصد اور بنگلہ دیش میں چھ اعشاریہ تین فیصد ہے۔ اس لیے میری رائے میں یہ زیادہ تشویشناک ہے۔ یہ بجٹ حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بنے گا۔مہنگائی کو قابو میں رکھنے کےلیے دیگرممالک جو حل نکال رہے ہیں اس کے لیے وہ پہلے اپنے صارف کو دیکھتے ہیں۔ 

ایس پی آئی انڈیکس کے مطابق مہنگائی کو قابو میں رکھنے کےلیے ایک فریق پروڈیوسر بھی ہے ،ہمارے یہاں جن کا تعلق ہمارے جنوبی پنجاب یا اپر سندھ سے ہے ۔ہم نے ماضی یا قریب وہاں ایسے واقعات دیکھے ہیں کہ انہوں نے مایوس ہوکر خود اپنی فصلوں گندم یا سبزیوں کو احتجاجا نذرآتش کردیا ہے۔ان مایوس کاشتکاروں کا مسئلہ قیمت کم ہونا نہیں بلکہ ان کی خواہش اپنی محنت کا مناسب صلہ یعنی انہیں مناسب قیمت ملے جس سے ان کو کچھ فائدہ ہو۔ دنیا میں اس کے لیے سبسڈی کا نظام قائم ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے حالات ابھی ایسے نہیں جو ہم اتنی سبسڈی فراہم کرسکیں۔

میرے پاس موجود عالمی بینک کے ریکارڈ کے مطابق بنگلہ دیش کا 25فیصد بجٹ سبسڈیزپر خرچ ہوتا ہے۔ بھارت میں 20فیصد کے قریب ہے۔ اور پاکستان میں آٹھ فیصد سے کم ہے۔ ہماری دوسری مشکل آئی ایم ایف کی شرائط ہیں۔ ان کی شرائط میں زیادہ زور سبسڈی کم کرنے پر ہوتاہے جس سے مہنگائی میں اضافہ اور معاشرے میں عدم مطابقت بڑھتی ہے۔

آئی ایم ایف کا زورنجکاری کرنے اور تنخواہوں کا بجٹ کم کرنے پر بھی ہوتا ہے، جس کا براہ راست تعلق عوام سے ہے۔ پاکستان اپنے کل بجٹ کا سات فیصدسے کم تنخواہوں پر خرچ کرتا ہے جبکہ بھارت نو فیصد اور بنگلہ دیش 25فیصد خرچ کرتا ہے۔ تنخواہوں اور سبسڈی میں کمی آئی ایم ایف کی نمایاں شرائط ہیں اس کا تعلق عام آدمی سے ہے لہذا وہ براہ راست متاثر ہوگا۔ ہمیں اسے دیکھنا ہوگا۔

جنگ: ترقیاتی بجٹ کو بھی و ہ کم کرنے کا کہہ رہے ہیں۔

ایوب مہر: ترقیاتی بجٹ کی کمی تو ہم 1993 میں بننے والے عبوری وزیراعظم معین قریشی کے بعد سے دیکھ رہے ہیں، اگر ہم اس سے پہلے جائزہ لیں تو 1947 سے 1992 تک ہمارےبجٹ کاچھ سے سات فیصد ترقیات کے لیے مختص ہوتا تھا جو اب کم ہوکر دو فیصد سے بھی نیچے آگیا ہے۔ ہمارے بجٹ کا زیادہ خرچ سود کی ادائیگی پر ہورہا ہے، جو کل اخراجات کا 36فیصد بن رہا ہے۔ اس میں دوسرا پہلو جوسامنے ہے ، پچھلی حکومت نے2اعشاریہ4ٹریلین روپے کی deficit financing کی تھی۔ جو اس نے اپنے Domestic sources سے لیے ،میں بات کررہا ہوں نان بینکنگ Domestic اور ایکسٹرنل بورونگ کی۔یہ پاکستانی تاریخ کا بلند ترین قرضہ تھا۔

اس کی قیمت کی بات کریں تو ہمارے بجٹ کا 36فیصد صرف اس کی سود ادائیگی پر جاتا ہے۔ اس میں رقم کی واپس ادائیگی شامل نہیں ہے۔ 36فیصد صرف سود کیا دائیگی پر خرچ کی ہی وجہ سے آئی ایم ایف پھر ٹھیک کہہ رہا ہےکہ ہم سبسڈی کم کریں تنخواہوں کا بجٹ کم کریں۔ اور ہمیں کرنا پڑتا ہے۔ہمیں ابھی تک بلند سود ادائیگی کا کوئی حل نظر نہیں آرہا جبکہ ہم نے ریکارڈ بیرونی قرضے لیے ہیں۔

بیرونی قرضوں پر کچھ لوگ معاہدے کرتے ہیں۔ ہم اکثر یہ بحث اوردلیل بھی سن رہے ہوتے ہیں کہ امریکا کا تو 100فیصد جی ڈی پی سے زیاد ہے ترکی کا 85 فیصد جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔ اس میں ایک چیز بہت اہم ہے یہ جو ہم ڈیٹ ٹو جی ڈی پی تناسب نکال رہے ہوتے ہیں۔ اور جن ممالک کی ہم بات کررہے ہیں وہاں آوٹ اسٹینڈنگ ایکسٹرنل ڈیٹ کےزیادہ بڑے حصے کا تعلق پرائیوٹ سیکٹر سے ہے۔پرائیوٹ سیکٹر نے ہی بین الاقوامی مارکیٹ میں بانڈ جاری کیے ہیں وہ ہی اس کی ادائیگی کے ذمہ دار ہیں۔جبکہ پاکستان کے تمام ایکسٹرنل ڈیٹ پبلک سیکٹر سے تعلق رکھتا ہے۔

جنگ: آپ نے مہنگائی کی بات کی جو بہت بڑھ رہی ہے،ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط پر ڈالر کے لیے پٹرول کی قیمت بڑھائی ہے بجلی کی بڑھانے جارہے ہیں تو آپ کے خیال میں کیا ہم ان شرائط کو نظرانداز کرسکتے ہیں یا اس سے بچنے کا کوئی راستہ ہے۔ اور اگر بہ مجبوری یہ کیا تو اس کے اثرات کیا ہوں گے۔

ایوب مہر: اگر ایسا ہوگا تو یہ سخت فیصلہ ہوگا، میں غریب کےحوالے سے زیادہ فکرمند ہوں۔ لیکن اس سے نکلنے کا راستہ موجود ہے۔ پچھلی حکومت نے اپنے اعداد وشمار میں ایک چیز کو بہت نمایاں کیا تھا کہ ہم نے ٹیکس وصولی بڑھائی ہے جو 4 ٹریلین روپے تھے 8 ٹریلین تک لے جانے کاہدف تھا۔ ابھی ہم 6ٹریلین روپے ٹیکس پر پہنچ گئے ہیں ایف بی آر سے بار بار آتاہے کہ اسے 8 ٹریلین تک لے جانا ہے۔ اب ہم نے سخت شرائط سے بھی نکلنا ہے اور ٹیکس وصولی بھی بڑھانی ہے۔

مجھے یادآرہا ہے کہ پی ٹی آئی منشور کا حصہ تھا اوروفاقی وزیر اسد عمر صاحب نے بھی کہا تھا کہ جب ہم ٹیکس بڑھائیں گے تو ہم ان ڈائریکٹ کے بجائے ڈائریکٹ ٹیکس بڑھانے پر توجہ رکھیں گے لیکن ایسا ہوا نہیں۔ بلکہ ان ڈائریکٹ ٹیکس مزید بڑھ گئے ہیں کیوںکہ ان کی وصولی آسان ہے۔کیونکہ اس طرح ہم جی ایس ٹی وصول کرلیتے ہیں اور جی ایس ٹی کا مقصد قیمتوں میں مزید اضافہ۔

ایسے وقت میں جب جی ڈی پی گروتھ ریٹ کم ہو مہنگائی بلند ہو۔ لوگوں کی آمدنی کم ہوجائے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت ریکارڈٹیکس وصولی کوئی اچھی علامت ہے۔ اس وقت زیادہ ٹیکس وصولی کا مطلب جب آمدنی کم اور مہنگائی زیادہ ہے اس کا مطلب وہ ٹیکس وصولی بچت سے ہورہی ہے۔

جنگ : ہمارے پاس عوام کو پٹرول بجلی پر سبسڈی دینے کا کوئی راستہ ہے، جس سے آئی ایم ایف بھی اس پر راضی رہے۔

ایوب مہر: راستہ موجود ہے، حکومتیں بات کرتی رہی ہیں۔ فوری طور پر ہمیں ان سے ری شیڈولنگ کی بات کرنی ہوگی۔ لانگ ٹرم میں ہمیں اپنے کئی اخراجات ایسے ہیں جنہیں ہم کم کرسکتے ہیں۔ اس کے متعلق ڈاکٹر قیصر بنگالی صاحب زیادہ بہتر بتاسکیں گے۔

جنگ : ڈاکٹر قیصر بنگالی صاحب ابھی یہ بہت زیادہ گفتگو ہورہی کہ کہ پاکستان ڈیفالٹ کی طرف جارہا ہے سری لنکا کی مثال سامنے ہے۔ اس خدشے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں کیا یہ درست ہیں یا غلط۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی: سب سے پہلے میں جنگ فورم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے کئی سال سے یہ سلسلہ شروع کررکھا ہے پورا صفحہ شائع ہوتا ہے جس میں بہت سنجیدہ گفتگو ہوتی ہے جس سے بہت اچھی معلومات ملتی ہے۔ دوسرا اس یونیورسٹی میں پہلی مرتبہ آنا ہوا بہت اچھا لگ رہا ہے یوں تو میری پوری زندگی پڑھانے میں گزری ہے۔ لیکن جب بھی میں طالب علموں کو ایسے بیٹھے دیکھتا ہوں تو بہت خوشی ہوتی ہے۔

اس کے ساتھ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اچھی باتیں کروں آپ کو امید دلائوں۔کیوں کہ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد اگلے کئی برس آپ کے پاس ہیں۔ لیکن آج کے جو حالات ہیں اس تناظر میں ایسا نہیں کرسکتا۔ میں کہوں حالات ٹھیک ہیں اور ٹھیک ہوجائیں گے میرا یہ کہنا جھوٹ بولنے کے برابر ہے۔ اگر آپ طلبا اخبار پڑھتے ہیں یا باقاعدہ سنتے ہیں تو تازہ ترین خبر ہے کہ جب ہم کوئی بھی چیز درآمد کرتے ہیں تو اس کے لیے بینک کے ذریعے لیٹر آف کریڈٹ کھولتے ہیں جو ایل سی کہلاتی ہے۔یہ دستاویز کی ٹیکنیکل ٹرم ہے۔

تیل کی درآمد کے لیے بینک ہماری ایل سی کھولنے سے انکار کررہے ہیں ۔یہ بینک کرپٹ کی واضح علامت ہے، بینک کرپٹ کی وارننگ ہم کچھ لوگ پچھلے دو تین سال دے رہے ہیں۔ بلکہ دو سال سے پاکستان ٹیکنیکلی بینک کرپٹ ہوچکا ہے۔ بینک کرپٹ کا مطلب میں قرضہ لوں اور واپس نہ کرسکوں ہے۔ پاکستان پچھلے دو تین سال سے جتنے بھی قرض لے رہاہے وہ پچھلے قرض کی قسط ادا کرنے کےلیے لیتا ہے۔ قرض کا ایک ڈالر بھی ہمارے کسی منصوبے میں استعمال نہیں ہورہا ۔

آج جو چاروں طرف یا گھروں میں جو بحث جاری ہے کہ پہلے والے غلط تھے یا آج والے یہ اب بے کار بحث ہے۔ اس ملک کی معیشت برباد کرنے میں اس خرابی میں سب نے اپنا حصہ ڈالا ہے خاص طور پر پچھلے بیس سال کی حکومتوں نے۔ بات ملک کی ہے اسے بچانے کی ہے۔ ہم بینک کرپٹ ہوچکے ہیں۔ جو بحران ہم دیکھ رہے ہیں چند سال چند مہینے کی بات نہیں بلکہ چند ہفتوں کی بات کررہا ہوں۔سب سے پہلی بات اگر تیل نہیں آیا تو بہت ساری چیزیں بند ہوجائیں گی۔

ہمارے ڈیفنس میں جو بڑے بڑے گھر ہیں جن کے احاطے میں طرح طرح ماڈل کی گاڑیاں کھڑی ہیں کھڑی رہ جائیں گی۔ اور پھر سب گھروں کے آگے گدھا گاڑی کھڑی ہوگی۔ کیوںکہ جب پٹرول نہیں تو گاڑیاں کیسے چلیں گی۔ عام آدمی کے لیے جو بڑا خطرہ دیکھ رہا ہوں وہ خوراک کی شدید قلت آنے والی ہے۔اور یہ میں چند ہفتوں کی بات کررہا ہوں۔ پاکستان ذرعی ملک ہے اور جو دریائے سندھ کی تہذیب ہےاور ہم انڈس ویلی سویلائز یشن ہیں۔

ہماری پانچ ہزار سال پرانی ثقافت ہےاور پچھلے پانچ ہزار سال سے ایشیا میں بریڈ باسکٹ سمجھی جاتی ہے۔ آج ہم اپنے آپ کو خوراک نہیں دے پارہے۔ہم اپنا گند م نہیں پورا کرپار ہے ۔آج ہمیں دو سے چار ملین گندم درآمد کرنا پڑ رہا ہے۔کہتے ہیں دال روٹی غریب کی خوراک ہے 95فیصد دال ہم درآمد کرتے ہیں، خوردنی تیل سارا درآمد کرتے ہیں۔

آٹا دال خوردنی تیل اور پیاز یہ چار چیزیں انتہائی ضروری ہیں ان کے بغیر کھانا تیار نہیں ہوسکتا۔ ان چار میں تین چیزیں مارکیٹ سے غائب ہوجائیں گی کیوں کہ یہ درآمدی شے ہے۔ آج بینک تیل کھولنے کے لیے ایل سی نہیں کھول رہے کل گندم کے لیے بھی نہیں کھولیں گے۔ تو بڑی معذرت کے ساتھ خوراک کا ایک بڑا بحران نظر آرہا ہے مہنگائی تو آپ چھوڑ دیں۔ آپ تین گنا قیمت دینے کو تیار ہیں لیکن وہ مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں۔

جنگ: ہم بنیادی طور پر زرعی ملک ہیں تین سال پہلے تک ہم گندم چینی اور کپاس برآمد کررہے تھے تو ایسا کیا ہوا جو اب ہم تینوں چیزیں درآمد کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی: آپ نے یہ اچھا سوال پوچھا ہے۔خاص طور پر پچھلے چالیس سال سے ہماری جومعاشی پالیسی بنائی گئی اس نے معیشت کے پیداواری سیکٹر صنعت اور زراعت کو نظر انداز کیا ہے اور پچھلے بیس سال میں دانستہ طور پر کم زور بھی کیا ہے۔ یہ میں بڑی ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ یہ سب دانستہ طور پر کیا گیا ہے۔ پاکستان کو ایک کیسینو اکانومی بنادیا گیا ہے ۔کیسینو اکانومی کا مطلب لوگوں کاسٹے بازی سے پیسےبنانا۔ایک طبقہ ہے جو گھر بیٹھے پیسے کما رہا ہے۔

چار فون رکھ کر کاروبار کررہا ہے، اسٹاک مارکیٹ سے پیسے بن رہے پلاٹ کی خریدوفروخت سے پیسے بن رہے ہیں۔ تو اس طر ح ہم نے اپنی معیشت کو تباہ کیا ہے۔70کی دہائی میں ہمارے ترقیاتی اخراجات کا ریٹ آف گروتھ21فیصد سالانہ تھا مہنگائی نکال کر ۔80 کی دہائی میں وہ گر کر دواعشاریہ سات پر تھا۔ اب توترقیاتی بجٹ صرف نام کا رہ گیا ہے۔ اور اس وقت تمام منصوبوں کی فنڈنگ روک دی گئی ہے۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ جیسے آپ نے یہ بلڈنگ تو بنالی لیکن اس کے استعمال کے بعد اس کی دیکھ بھال ٹوٹ پھوٹ کی مرمت جو ضروری ہوتی ہے اب اسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ تو سوچیں اگلے دوبرس میں اس کا کیا حال ہوگا۔ملک کا ابھی یہی حال ہے۔

جنگ: سر موجودہ بجٹ کا سب سے بڑا چیلنج کیا ہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی: بجٹ کے چیلنج ساتھ میں آئی ایم ایف کی بات کرلوں، آئی ایم ایف کی دو شرائط ہوتی ہیں پہلا بجٹ خسارہ قابو میں ہو اور دوسرا تجارتی خسارہ قابو میں رہے۔ جب ہم اس پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو آئی ایم ایف شرائط لگاتی ہے۔ تو قصور ہمارا ہے۔ ہمارے ہر سو روپے آمدنی میں دوسو روپے سے زیادہ کے اخراجات ہیں یعنی ڈبل اخراجات ہیں۔ایک ڈالر کی برآمد پر ہماری درآمد دوسو بیس ڈالر ہے۔ کسی نے تو یہ خسارہ دینا ہے ہم اب تک قرضے لے کر گزارا کررہے ہے۔

اخراجات قابو کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہورہی۔ درآمد کم کرنے اور برآمد ات بڑھانے کی حکمت عملی نظر نہیں آرہی۔ صنعت کو ہم نے نظرانداز کردیا ہے، میں سلام پیش کرتا ہوں زبیر موتی والا صاحب کو کیوں کہ میرے چار پانچ عزیز اپنی صنعت بند کرچکے ہیں اور وہ اب اسٹاک مارکیٹ یا پلاٹ کی خریدو فروخت میں مصروف ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں پہلے یہ خیال کیوں نہیں آیا۔ہم تو پہلے سے زیادہ فائدے میں ہیں۔

درآمد کو اگرآپ دیکھیں پچھلے بیس سال سے ہم نے اپنے پاور پروڈکشن کو مکمل طور پر درآمدی بنا کررکھ دیا ہے اپنا خام مال یاکوئلہ استعمال نہیں کررہے۔ گیس درآمد کرکے بجلی بنائیں گے۔ نواز شریف کی پچھلی حکومت میں کوئلے کے تین پاور پلانٹ لگائے گئے، تینوں ہی درآمدی کوئلے پر، آپ کے پاس دو سو سال کا کوئلہ پڑا ہے وہ نہیں استعمال کریں گے۔ پاکستان میں ایک لابی ہے جو درآمدی لابی ہے۔

جنگ : عبدالقادر صاحب ایف بی آر کی کارکردگی کہیں یا ٹیکس جنریشن یہ ہمارا بڑا مسئلہ ہے چار برس بعد ہم 39 سے 60پر جارہے ہیں لیکن جی ڈی پی سے اس کا تناسب کم ہوا ہے، اس کی کیا وجہ ہے۔ دوسرا یہ جو سلیب کم کرنے کی بات ہورہی ہے اس سے کیا فرق پڑے گا۔ آپ ایف بی آر کے مشیر بھی ہیں تو آپ کیا تجویز دے کر آرہے ہیں۔

عبدالقادرمیمن : مکمل جی ڈی پی کی ہماری جو کمپوزیشن ہے وہ کچھ ایسے ہے ۔ہماری جب بھی آمدنی بڑھے گی ہماری ٹیکس تو جی ڈی پی نیچے جائے گی ۔کیونکہ ہماری 69 جو کمپوزیشن ہے وہ مینوفیکچرنگ ہے قریبا19فیصد ذراعت پر ہے،42 فیصد کادیگر شعبوں کی خدمات سے تعلق ہے۔ ریٹیل سیکٹر اب بہت بڑھ گیا ہے وہ ساڑھے 19فیصد کے قریب ہے۔ اب اگرذراعت کا جائزہ لیں تو وہ انیس فیصد ہے تو اس کی ٹیکس میں شراکت اعشاریہ صفر چھ فیصد ہے ۔اسی طرح ریٹیل سیکٹر کو دیکھیں تو وہ 3اعشاریہ7فیصد ہے۔ہمارا جو مینوفیکچرنگ سیکٹر69فیصدٹیکس دے رہا ہے۔

تو ہو یہ رہا ہے کہ جیسے ہمارا ریٹیل سیکٹر ہے جس کا جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس میں حصہ ہے اسے اوپر نہیں لائیں گے مینوفیکچرنگ کا شعبہ نیچے نہیں آسکتا،زراعت میں تو ہم کچھ کرنہیں سکتے کیوں کہ وہ صوبے وصول کرتے ہیں اور صوبوں میں وہ وصول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں اور یہ مجھ سے زیادہ ڈاکٹر قیصر بنگالی بہتر بتاسکتے ہیں۔

تیسرا ہمارا ٹرانسپورٹ کا سیکٹر اس سے تو ہم کبھی بھی نہیں کر سکیں گے، تو ہمارا جو مینوفیکچرنگ سیکٹر ہے وہ کچھ سالوں سے مینوفیکچرنگ سے تبدیل ہوکر ٹریڈنگ سیکٹر میں تبدیل ہورہا ہے۔ تو ہماری جو صنعت تھی وہ بند ہوکر ٹریڈنگ میں چلی گئیں ہیں۔ تو اس طرح سے ہماری جو بھی کمپوزیشن ہے اور ان کی جی ڈی پی جو کمپوزیشن ہے اور وہ ٹیکس اس طرح نہیں دیں گے، تو آمدنی جتنی بھی بڑھ جائے ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی کم ہوگا۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں صوبوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔

جنگ :حکومت کی جانب سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہم ٹیکس نہیں دیتے تو اس میں کیا حقیقت ہے اور ہمارے پاس ٹیکس بڑھانے کی مزید کتنی گنجائش ہے۔

عبدالقادرمیمن : دنیا میں کہیں بھی کوئی شخص خوشی سے ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہوتا، ڈیٹرنس پیدا کی جاتی ہیں، آپ کے پاس جو سب سے پہلا ڈیٹرنس آٹومیشن ہے۔ وہ آٹو میشن اتنی اچھی ہو کہ ادھر آپ کے پاس ڈیٹا آئے، آپ کو سن کر خوش ہوگی دنیا کے کئی ممالک میں سوئیڈن سوئٹزر لینڈ وغیر ہ میں ٹیکس ریٹرن خود بناکر دیتے ہیں، عوام نے صرف اس کی تصدیق کرنی ہوتی ہے اور اگر آپ ان کی دی ہوئی تاریخ تک تصدیق نہیں کرتے تو ان کا بنایا ہوا ٹیکس ریٹرن حتمی درست سمجھا جاتا ہے۔

ظاہر ہے اس کی وجہ ان کا بنایا ہوا نظا م ہے۔ دوسرا حکومت کی کارروائی کہ اگر کسی شخص کو حکومت نے ٹیکس چوری پرپکڑ لیا وہ کوئی بھی ہو پھر سزا لازمی ہے، تو یہ ہے ڈیٹرنس۔ پہلے ٹیکس ریفارمز کا جب آغاز ہوا تھا تو عالمی بینک نے67فیصد پیسے صرف آٹو میشن کے لیے دیئے تھے۔ کیونکہ دنیا میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب ڈیٹا بینک ہوگا تو آپ سارے کام بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں۔ میں سجھتا ہوں کہ ہم دو خرابیوں کو دور کرلیں تو ہم 8ٹریلین روپے بہت جلدی ٹیکس جمع کرسکتے ہیں۔

لیکن جب تک ہم اکنامی گروتھ کے لیے اقدامات نہیں کریں گے ہماری صلاحیت Potantial نکل کر نہیں آسکتا۔ اس وقت پاکستان میں ٹیکس کے گیارہ سلیب ہیں،جب کہ دنیا چھ سلیب پر چلی گئی ہے۔ ترکی میں 5سلیب ہیں، ویت نام میں 7،چین میں 7 مصر میں 7 سلیب ہیں۔ جب تک ہم براہ راست ٹیکس نہیں لیں گے ہم ان ڈائریکٹ ٹیکس سے غریب کو مارتے چلے جائیں گے۔ اس میں 63 فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکس ہوگیا ہے۔

جنگ: کیا آپ نشاندہی کرسکتے ہیں ڈائریکٹ ٹیکس میں کون کون سا سیکٹر باہر ہے۔

عبدالقادر میمن: معیشت کی سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ امیر ترین زیادہ سے زیادہ ٹیکس دے اور غریب کم سے کم۔

جنگ: زبیر موتی والاصاحب اپنا موقف ہمیشہ کھل کر دینے کے عادی ہیں صنعت کار حکومتوں سے نالاں تو بہت رہتے ہیں لیکن ان سے کچھ کہتے نہیں زبیر صاحب وہ صنعت کار ہیں جو ہر دور میں بے باکی سے اپنی بات رکھ دیتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے وہ اس محفل میں موجود ہیں وہ کل ہی اسلام آباد سے آئے ہیں ان سے یہ بھی پوچھتے ہیں وہاں کیا ہو رہا ہے۔

زبیر موتی والا: اسلام آباد میں تو افراتفری کی سی صورت حال ہے، وزیر خزانہ سب سے زیادہ پریشان ہے۔ پیسہ کہاں سے آئے گا اوردینا کہاں سے ہے۔اب تو سی پیک کی ادائیگی کا بھی وقت آگیا ہے وزیراعظم نے اس کے لیے کچھ وعدے بھی کیے ہیں دیکھیں یہ کیسے پورے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود میں اس ملک سے کئی برسوں سے پرامید ہوں،ان شااللہ ہم بینک کرپٹ نہیں ہوں گے ہم سری لنکانہیں بنیں گے۔

ہم ایٹمی قوت ہیں اور لوگوں کو ہماری جغرافیائی صورت حال کا بھی معلوم ہے۔ ہم ذرعی ملک ہیں، ہماری ذرعی پیداوار ضرور کم ہوئی ہے لیکن ہماری آبادی زیادہ بڑھ گئی ہے، کپاس کی کاشت میں کمی گنے کی وجہ سے ہوئی۔ہمارے بہت سے مسائل میں سے بجٹ میں سب سے بڑا مسئلہ ادائیگی میں توازن کا نہ ہونا ہے۔ ہمیں جتنا دینا ہے اتنا ملنا نہیں ہے۔

لیکن کیا یہ اگلے چند سال میں یہ مسئلے حل ہوجائیں گے۔تو میں کچھ اعداد شمار آپ کے سامنے رکھتا ہوں، دو ہزار انیس میں ہماری برآمد50اعشاریہ ایک بلین تھی ،دوہزار اکیس میں 56 بلین ہوگیا اور اس سال78سے 80بلین پر ختم ہوگا۔ اس طرح تو کوئی دکان بھی نہیں چل سکتی کہ آپ نے78روپے دینے اور آپ کی آمدنی 60روپے ہو تو سوال یہ ہے ہم کریں کیا۔

اس بجٹ کے حوالے سے میں دو تین باتیں کروں گا، پٹرول کی قیمت بڑھ رہی ہے، اپنا پٹرول کا بجٹ کم کریں، دوسرا گیس کا استعمال کم کریں کیوں کہ آپ آرایل این جی درآمد کررہے ہیں جو تیس ڈالر کی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے آپ کو سولرپر جانا پڑے گا آپ سولر پر ہرقسم کی سبسڈائز کریں اس کو پروموٹ کرنا چاہیے۔ اس پوری صورتحال سے نکلنے کےلیے شارٹ ٹرم حل کنزرویشن آف انرجی اور جو بھی آپ کی مینوفیکچرنگ قیمت ہے اس کا انٹرسٹ ریٹ کم کرنا۔

اس پوری صورت حال سے نکلنے کا راستہ کیا ہے صرف یہی ہے کہ اپنی برآمدات بڑھائی جائے اور درآمدات کم کی جائے۔ متبادل توانائی کے ذرائع کی آپ کو سرپرستی کرنی پڑے گی۔ ونڈ ،سولر اورتیسرا کول۔ یہ جو ہمارا تھرکول ہے یہ دوسو سال کے لیے بہت ہے یہ تین ہزار میگاواٹ پاور پیدا کرسکتا ہے۔اگر ہم صرف تھرکے کوئلے کو دیکھیں تو ہم ریجنل پاور حب ہیں۔ 

میں نے اپنے دورمیں  650میگاواٹ کو دو پلانٹ لگائے ،جب ہم نے اس کا آغاز کیا تو پاکستان بھر سے اس کی مخالفت شروع ہوگئی تھی۔کہتے تھے تھر کو کول بے کار ہے میں نے چیف منسٹر سے کہا مجھے کچھ پیسے دیں میں اسے جرمنی اور چین بھیجتا ہوں۔ پھر ہمیں وہاں سے بتایا گیا کہ آپ کے ملک میں آئل درآمد کرنے والی لابی اسے کرنے نہیں دے گی، سب نے انکا رکیا۔

تمام تر مخالفت کے باوجود ہم کامیاب ہوئے۔ میں سمجھتا ہوں ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں، پاکستان کا ایکسپورٹ پوٹینشل 100بلین ڈالر کا ہے لیکن ہمارے پالیسی ساز حکومتیں ہمیں جان بوجھ کر غربت میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اب ہرصورت میں سخت فیصلے لینے پڑیں گے جو بھلے سے کسی کو پسند نہ آئے۔

طلحہ اسفندیار: آپ متبادل توانائی حصول کی طرف نہیں جاتے مہنگا پٹرول خریدتے ہیں جبکہ آپ روس سے معاہدہ بھی ختم کردیتے ہیں کیوں۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی: روس سے ہمارا کوئی معاہدہ نہیں تھا۔ہماری معیشت بہت کمزور ہوگئی ہے اس میں مزید ٹیکس کی گنجائش نہیں ہےاور جب تک ہم غیر ترقیاتی اخراجات کم نہیں کریں گے، غیر ترقیاتی اخراجات میں سب سے بڑا حصہ دفاع کا ہے اب وقت آگیا ہے ہم اس پر بات کریں اور مطالبہ کریں کہ دفاعی اخراجات کم کیے جائیں۔ورنہ اس کے علاوہ یہ معیشت کبھی مستحکم نہیں ہوسکتی۔

ڈاکٹر اسد علی: تمام مقررین نے یہ بتایا ہے کہ ہم بہت مشکل میں ہیں۔ جس کی وجہ آئی ایم ایف کی شرائط ہے کیا ہم ان کی شرائط نظر انداز کرسکتے ہیں اگر نہیں تو ایسی صورت میں کوئی حل ہے۔

زبیر موتی والا: بینکنگ میں ایک اصطلاح ہوتی ہے ability to payآئی ایم ایف یہ ہی دیکھ رہا ہے، وہ یہ دیکھ رہا ہم کہاں سے کمائیں گے ظاہر ہے ہم پٹرول سے کمائیں گے گیس سے کمائیں گے تو آئی ایم ایف اسی لیے ان کی قیمت بڑھانے کا مطالبہ کررہا ہے۔ ٹیکس بڑھانے کی بات کررہا ہےا ٓٹو میشن کرو یہ سب چیزیں ability to pay کرنے کے لیے ہے۔

فائزہ: ہماری برآمدات کم ہے جبکہ ہم اپنی معدنی دولت کو استعمال نہیں کررہےبلکہ اسے درآمد کررہے ہیں ۔ سرکاری پالیسی ساز ایسا کیوں کررہے ہیں۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی: یہ ہماری بدقسمتی ہے چند لابیز ہیں جو یہ پالیسیاں بناتی ہیں یہ پالیسی قومی مفاد کے لیے نہیں ان کے اپنے مفاد میں ہوتی ہے۔آئل امپورٹ لابی نے ہمیں اپنا کوئلہ استعمال نہیں کرنے دیا ۔1988 سے کوششیں کی جارہی ہے تھرکول سے توانائی پیدا کرنےکی حکومتیں گرادی گئیں۔ لیکن آئل لابی نے یہ کرنے نہیں دیا۔ 25 فیصد درآمد ہمارا تیل ہے۔ یہ ہم ایک تہائی کم کرسکتے ہیں ۔پھر اگر ہم این ایل سی کے بجائے ریلوے کے ذریعے مال برداری کریں،ریل سڑک کے مقابلے میں تین گنا سے زیادہ بہتر ہے۔ہم نے این ایل سی کو پروان چڑھانے کےلیے ریلوے کو تباہ کردیا۔

زاہد فاروق: اس کمزور معیشت کے بجٹ میں کیا صحت تعلیم اور کراچی شہر کے ٹرانسپورٹ کے لیے کچھ امید رکھیں۔

عبدالقادرمیمن: یہ تمام سوالات صوبائی سطح کے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کو ان پر توجہ دینی چاہیے۔

الیاس: پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں رہتا جب نئی حکومت آتی وہ پالیسی تبدیل کردیتی ہے۔ ریفارمز میں تسلسل ہی نہیں رہتا۔پھر کیا کریں۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی: اٹلی ،بیلجئم ،آسٹریلیایہاں کوئی بھی حکومت اپنی میعاد پوری نہیں کرپاتی لیکن یہ تمام ملک معاشی ترقی میں آگے بڑھ رہے ہیں۔اس کی وجہ ریاست کا ایک ایجنڈا ہے معاشی ترقی کا۔1947 سے 1977 تک پاکستان ایک ترقی پذیر ملک تھا،اس دوران سیاسی فوجی ہر حکومت آئی اس وقت پاکستانی ریاست کا ایجنڈا تھا معاشی ترقی حاصل کرنا۔پاکستان نے ان برسوں میں بہت ترقی کی ۔لیکن 1977 کے بعدسے ریاست کا معاشی ترقی کرنے کا مقصد ہی ختم ہوگیا ۔

ریاض اینڈی: اس پوری گفتگو میں آپ پاکستانی معیشت کی بڑی کمزور تصویر پیش کررہے ہیں۔ لیکن معذرت کے ساتھ میں بہت پرامید ہوں۔ آخر ہم مثبت گفتگو کیوں نہیں کرپا رہے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی: ہم ابتدا سے ہی اس سے نکلنے کی بات کررہے ہیں۔

جنگ :جنگ فورم زیادہ تر تعلیمی اداروں میں ہی ہوتا ہے جس کا مقصد آپ طلبا میں آگاہی کرنا ہے۔ آپ سنیں اور کچھ سیکھیں، بدقسمتی یہ ہے کہ جیسے ہم قرآن پڑھتے ہیں ویسے ہی نصاب پڑھتے ہیں ہم غور نہیں کرتے اسے سمجھتے نہیں، قرآن کو بھی سمجھ کر پڑھنا چاہیے اور نصاب کوبھی سمجھ کر پڑھنا چاہیے۔ اس ملک کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے آپ نئے ووٹر ہو آپ اس دور میں جی رہے جس میں تحقیق اب مشکل نہیں۔ آپ لوگ نصاب سے ہٹ کر کتاب پڑھو وہ زندگی میں آپ کو آگے لے کر جائے گا ،بہت شکریہ