میزبان: محمد اکرم خان ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
تصاویر : جنید احمد
شریک گفتگو: قاضی خضر (نائب صدر، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان)
نصرت لغاری (/چیئرپرسن، وومن سپورٹ نیٹ ورک)
ملکہ خان (پروگرام منیجر، عورت فاؤنڈیشن)
کلپنا دیوی (ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل، سندھ)
ہما بخاری( چیئرسن، نیوپورٹ انسٹی ٹیوٹ)
کئی خرابیوں کے باوجودکچھ اچھی روایت بھی قائم ہوئیں ہیں، اس مرتبہ براہ راست 12خواتین قومی اسمبلی کا الیکشن جیت کررکن اسمبلی منتخب ہوئیں ہیں۔ جس میں پی ٹی آئی کی پانچ، مسلم لیگ ن کی چار پیپلزپارٹی کی دو ایم کیوایم پاکستان سے ایک خاتون امیدوار ہیں، خواتین کوالیکشن جیت کر منتخب ہوکر آنے دیں جہاں مقابلے کا رحجان ہو،عورتوں کو ٹکٹ نہ دینے کا مطلب خواتین کے ایک بڑے ووٹ کو نظرانداز کرنا ہے، انہیں براہ راست الیکشن لڑوائیں وہ اس طرح زیادہ مضبوط ہوں گی۔کم ازکم پانچ فیصد کو دس فیصد کردیں تاکہ خواتین براہ راست الیکشن لڑیں۔
قاضی خضر
پاکستانی سیاست میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شمولیت مثبت رجحان ہے جس کی زیادہ جامع اور مساوی مستقبل کے لیے حوصلہ افزائی اور حمایت کی جانی چاہیے۔ انتخابات میں خواتین کی شرکت میں پہلی حائل رکاوٹ سماجی اور ثقافتی روایات ہیں جو خواتین کو سیاسی عمل میں حصہ لینے کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ پھر تعلیم اور معلومات تک رسائی کا فقدان ہےجو خواتین کے لیے انتخابی عمل کو سمجھنا اور باخبر فیصلے کرنا مشکل بناتا ہے۔ سیاسی دفاتر میں خواتین کو کم نمائندگی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے خواتین ووٹرز کے لیے امیدواروں سے شناخت کرنا اور ان سے تعلق رکھنا مشکل ہو جاتا ہے
نصرت لغاری
سندھ اسمبلی قانون سازی میں پاکستان کی ساری اسمبلیوں میں آگے ہے۔دوہزار اٹھارہ میں خواتین کو پہلی مرتبہ ٹکٹ دیئے گئے اور پھر واپس بھی لے لئے گئے،اس دفعہ ہم نے اس پر توجہ مرکوزکر رکھی تھی،ایم کیوایم نے نو فیصد، مسلم لیگ نے سات فیصد، باقی دیگر جماعتوں نے دو سے تین فیصد خواتین کو ٹکٹ جاری کئے،اس صورت حال پرالیکشن کمیشن کے خلاف ہائ کورٹ میں شکایت جمع کرائی ہے کیوں کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے
ملکہ خان
ہماری نوجوان نسل پرزیادہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ اپنے گھرانے کی خواتین پراعتماد کریں،خواتین زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ پارلیمنٹ بڑا فورم ہے ہم نے وہاں چھوٹی چیزوں سے آغاز کرنا ہے، اقلیتوں کی نشستیں مخصوص ہیں۔ پیپلز پارٹی نے جنرل سیٹوں سے بھی میرپورخاص اور تھر کے ان حلقوں سے ٹکٹ دیا جہاں ہماری اکثریت ہے۔ اب اچھی بات ہے کہ اسمبلی میں مخصوص اور جنرل خواتین کےلیے دونوں نشستیں ہیں، جنرل سیٹ میں چند علاقے ایسے ہیں جہاں سےخواتین کامیاب ہوسکتی ہیں
کلپنا دیوی
پاکستانی سماج بنیادی طور پر مردوں کا معاشرہ سمجھا جاتا ہے، گاوں شہر ہرجگہ مردوں کی اجارہ داری ہے اوریہی تصور عام ہے،عورت ہرجگہ کسی نہ کسی شکل میں مردوں کی محتاج ہے، وہ خاندان، سرداروں،جاگیرداروں اور کہیں اپنے مالکان کی محتاج ہے،اپنی مرضی کی زندگی جسے بااختیار خواتین کہا جائے اس حوالے سے بہت پیچھے ہے۔
یہ ایسا موضوع ہے جس پر مسلسل گفتگو رہنی چاہیے لیکن آج کے ہمارےجنگ فورم کاموضوع سیاست میں خواتین کی شمولیت اور اسے مزید کیسے بہتر بنائیں گے ہے، جس میں ہم جائزہ لیں گے کہ خواتین کی سیاست میں شمولیت کےحوالے سے ریاست میں کیاصورت حال ہے، ووٹر اور امیدوارکے متعلق جو قانون سازی ہوئیں اس میں دوہزار چوبیس تک ہم کہاں پہنچے ہیں، خواتین ووٹرز کو ووٹ دینے میں اپنے من پسند نمائندہ منتخب کرنے میں کیا مشکلات ہیں، جورکاوٹیں ہیں وہ کیسے دور کی جاسکتی ہیں،اس کے لئے کس طرح کی قانون سازی کی ضرورت ہے، ماضی میں وزیراعظم پاکستان اور تازہ ترین خاتون وزیراعلیٰ بھی منتخب ہوئیں ہیں۔
قانون سازی میں خواتین کا اپناکیا کردار ہے اور کیا ہونا چاہیے، براہ راست اور مخصوص نشستوں میں کیافرق ہے اور خواتین کو بااختیار کرنے میں جو سماجی رکاوٹیں ہیں وہ کیسے دور ہوسکتی ہیں کیوں کہ دوہزار اٹھارہ میں صوبہ کے پی کے میں چند حلقوں میں تمام پارٹیوں نے یہ دستخط کئے تھے کہ خاتون ووٹ نہیں ڈالیں گی اور اس پر عمل درآمد بھی ہوا تھا ۔ایک قانون کے تحت جو پارٹی اپنے امیدواروں کو ٹکٹ دے گی اس میں کم از کم پانچ فیصد خواتین بھی شامل ہوں گی۔کیا اس پر عمل درآمد ہوا۔
ایسے مختلف سوالوں کے جواب کےلیے آج ہمارے ساتھ شریک گفتگو ہیں, ملکہ خان (پروگرام منیجر، عورت فاؤنڈیشن) قاضی خضر (نائب صدر، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان)کلپنا دیوی (ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل، سندھ) اور نصرت لغاری (صدر، وومن ونگ، پاکستان پیپلزپارٹی، امریکا/چیئرپرسن، وومن سپورٹ نیٹ ورک، امریکا) آن لائن شامل ہیں۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز ہمابخاری سے کریں گے جو دراصل نیوپورٹ انسٹی ٹیوٹ کی چیئرپرسن ہیں اور آج کی میزبان بھی ہیں۔
جنگ: ہم کس طرح صنفی امیتاز سے نکل کر خواتین کو آگے لاسکتے ہیں؟
ہمابخاری: صنفی امتیاز سے نکل کر معاشرے کو دیکھنے کےلیے نہ صرف مردوں کے ذہنی تربیت کی ضرورت ہے بلکہ خواتین کےلیے بھی ذہن سازی کی بہت ضرورت ہے کہ وہ کس طرح مردوں کے خوف سے نکلیں۔ کل کلاس میں سوال پوچھاگیا کہ آپ سب میں زیادہ ذہین اور اسمارٹ کون ہیں لیکن ہم نے دیکھا کہ کلاس میں بہت ساری ذہین اور اسمارٹ خواتین موجود تھیں لیکن انہیں یہ کہنے میں مشکل ہورہی تھی کہ وہ یہ بول سکیں ہم ان میں سے ایک ہیں۔
ہمارے یہاں تعلیم کاتناسب بڑھ رہا ہے ہم ملازمتوں میں رسم و رواج کے حساب سے دیکھیں تو اب بہت حد تک فرقہ واریت اور برادری سسٹم سے نکل رہے ہیں، بحثیت سوسائٹی عورت کو خود مضبوط کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، جب ہم اپنے لیےآواز اٹھانا شروع کریں گے تو پھر وہ بات سنی بھی جائے گی، اور اس کو سمجھنے والےاس کے ساتھ بھی ہوں گے۔
جنگ: ملکی سیاست میں خواتین کہاں کھڑی ہیں اور ان کا کیا کردار ہے؟
ملکہ خان: بحثیت مجموعی ہم بالکل مایوس نہیں ہیں، ہماری تنظیم نے خواتین کو آگے بڑھانے انہیں قومی سیاست میں آگے لانے کے لیےبڑی جدوجہد کی ہے، عورت فاؤنڈیشن پہلی تنظیم تھی جس نے کہا کہ خواتین کو سیاست میں آنا چاہیے، اس کےلیے باقاعدہ کام کرتے ہوئے بھرپور مہم چلائی،ہم نےابتدا میں خواتین کو یہ آگاہی دی کہ جب آپ سیاست میں شامل ہوں گی، تواس کے بعد سے ہی ضلعی سطح سے لے اوپر تک اس کے فوائد مل سکتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے ہم نے پہلے ایک پروگرام کے تحت پاکستان کی سطح تک سیاست کےلیے گروپ کو تیار کیا، انہیں دنیا بھر سے لے کر قومی اور ضلعی سطح پر ہونے والی کوششوں کا بتایا اور پھر تینوں کو جوڑدیا، انہیں اس طرح معلوم ہوا کہ جب عورتیں خود سیاست میں آئیں گی توپھرہر اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، ہماری یہ مہم آٹھ سال جاری رہی اس دوران ہماری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی مہم جاری رکھی ہم نے اس میں بتایا کہ سیاست میں خواتین کو 33فیصد نمائندگی ملنی چاہیئے۔
مشرف حکومت میں ہمارے مطالبے کو تسلیم کیا گیا،اور یونین سطح سے خواتین کا کوٹہ مختص کردیاگیاجس کے نتیجے میں36600 خواتین براہ راست یونین سطح سے پہلی مرتبہ منتخب ہوکرآئیں جو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھالیکن 2016میں یہ سلسلہ ختم کردیا گیا ہے اورنئے نظام کے تحت براہ راست سے دوبارہ مخصوص سیٹوں پر لے گئے تھے۔ دوہزار اٹھارہ میں ہم نے سیاسی جماعتوں سے پانچ فیصد کے حساب سے خواتین کوالیکشن لڑنے کےلیے ٹکٹ دینے کا مطالبہ کیااورساتھ یہ بھی کہا کہ ٹکٹ اپنے مضبوط حلقہ انتخاب سے دیں تو اس موقع پر کئی خواتین کو ٹکٹ بھی ملے تھے۔
جنگ: سیاسی جماعتیں شاید اس وجہ سے ٹکٹ دیتے ہوئے ہچکچاتی ہیں کہ شاید خواتین بھرپور الیکشن مہم نہ چلاسکیں؟
ملکہ خان: سیاسی جماعتوں کا یہ عجیب خوف ہے اگر خواتین کسی مرد کے لیے پارٹی کی الیکشن مہم چلانے کاحصہ بن کر انہیں کامیاب کراسکتی ہیں لیکن اگر وہ امیدوار بنتی ہیں توپرجوش مہم نہیں چلاسکتی اور مخالف سے ہارسکتی ہیں یہ نامناسب سوچ ہے ۔
جنگ: صوبائی خود مختاری ہونے کے بعد سیاسی طور پر کس صوبے میں خواتین کے حوالے سے صورت حال زیادہ بہتر ہے؟
ملکہ خان: اگرچاروں صوبوں کا موازنہ کریں تو سندھ سب سے بہتر ہے،ہمارا چاروں صوبوں سے رابطہ رہتا ہے۔ اگر اس کے مقابلے میں کے پی کے کی کسی خاتون پارلیمنٹرین سے ہم بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں توان سے رابطہ کرنا ہی مشکل ہوتا ہے جب کہ سندھ کی منتخب پارلیمٹرین براہ راست رابطہ کرتی ہیں ان سے ملاقات کی بات کی جائے تو کبھی بھی وہ حیل وحجت نہیں دکھاتی تعاون کرتی ہیں۔ سندھ اسمبلی قانون سازی کے حوالے سے پاکستان کی ساری اسمبلیوں میں آگے ہے۔
جنگ: پاکستانی سیاست میں خواتین کی شمولیت کا کیا ہدف ہے ابھی ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کہاں جانا چاہیے؟
کلپنا دیوی: رویے اورسوچ بدل رہی ہیں لیکن عرصہ دراز سے ہماراعورت کے حوالے جو مائنڈ سیٹ سے بناہواہے جیسا کہ میرا تعلق لاڑکانہ سے ہے جب میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کاآغاز کیا تو لوگ مجھے دیکھنے آتے تھے کہ خاتون وکیل ہیں چلیں ان سے مل کر آتے ہیں، اس زمانے میں یہ تصور ہی نہیں تھا کہ کوئی خاتون وکیل ہو سکتی ہے۔ ان حالات کے بعد خواتین کا سیاست میں موجودہ کردار اسے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا سمجھنا چاہیے۔ ہماری نوجوان نسل پر زیادہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر کی خواتین پراعتماد کریں، خواتین زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ میں اپنی مثال دوں کہ جب میں نے وکالت شروع کی تو میرے دماغ میں اپنے پورے خاندان کے مردوں کی عزت کاسوال رہتا تھا، یہ بہت بڑا دباو ہوتا ہے۔
میں یہ بات اپنے مرد نوجوانوں کو خاص طور پر کہوں گی کہ وہ اپنی گھرانے کی خواتین پر اعتماد کریں وہ ایسا کریں گےتو عور ت زیادہ محتاط ہوکر کام کرتی ہے۔ پارلیمنٹ بڑا فورم ہے ہم نے وہاں چھوٹی چیزوں سے آغاز کرنا ہے، اقلیتوں کی مخصوص سیٹ ہوتی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے جنرل سیٹوں سے میرپورخاص اور تھر کےان حلقوں سے ٹکٹ دیا جہاں ہماری اکثریت ہے۔
میں ایک مرتبہ لاڑکانہ سے پی ایم ایل کیو کے ٹکٹ پر کھڑی ہوئی تھی میں نے الیکشن مہم پیدل چلائی تھی اور نثار کھوڑو کے مقابلے میں پانچ ہزار ووٹ لئے تھے۔ الیکشن لڑنے کےلیے مالی وسائل کی بہت ضرورت ہوتی ہےجو میرے پاس نہیں تھا۔ لیکن ہمت تھی اور میں نے اسی کے بل بوتے پرپانچ ہزار ووٹ لئے تھے۔
اب اچھی بات یہ ہے کہ اسمبلی میں مخصوص سیٹ اور جنرل خواتین کے لیے دونوں ہیں، جنرل سیٹ میں چند علاقے ہیں جہاں سے جیت ہوسکتی ہے لیکن دوسرے شہروں سے کامیاب نہیں ہوسکتے، پہلے تو اقلیتی امیدوار کو اقلیتی برادری ہی ووٹ دے سکتی تھی،ضیادورمیں یہ ہی طریقہ رائج تھا ۔ہماراووٹ اور بیلٹ پیپر بھی علیحدہ ہوتا تھا،ہم نےاس کے خلاف بھی تحریک چلائی تھی جس کا آغاز لاڑکانہ سے ہوا تھاجس کے بعد ہم مین اسٹریم میں آگئے۔
جنگ: دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ہماری خواتین سیاسی میدان میں کہاں کھڑی ہیں اورانہیں کہاں ہونا چاہیے۔
قاضی خضر: جب ہم آج کی جدید دنیا کا ذکر کرتے ہیں، پھر اس کے بعد اپنے ملک کا جائزہ لیتے ہیں ہماری پہلی دستورساز اسمبلی میں 69اراکین تھے اس میں صرف دو خواتین تھیں، اس کے بعد 1954 میں جواسمبلی بنی اس میں کوئی خاتون نہیں تھیں۔ پھر 1988 کا جائزہ لیں تو صرف 16خواتین تھیں جو 20سیٹوں پر کھڑی تھیں اور مخصوص نشستیں صرف 20 تھیں،1990 میں 16امیدوار تھیں 1993 میں صرف 14خواتین امیدوار تھیں1997 میں 35، دوہزار دو میں خواتین امیدواروں کی تعد اد57 تھیں جو پچاس سیٹوں سے الیکشن لڑرہی تھیں۔
اس مرتبہ دوہزار چوبیس میں صرف قومی اسمبلی نشستوں کا جائزہ لیں توقومی اسمبلی کے الیکشن لڑنے کے لیے312امیدوار تھیں، الیکشن لڑنے والے کل امیدوار5121 تھے۔ اس حساب سے اس مرتبہ بھی خواتین کی شرکت 5فیصد بھی پورا نہیں ہوتا ہے یہ چاراعشاریہ نوفیصد بنتا ہے۔
تحریک انصاف کوکیو ں کہ اس الیکشن میں بحثیت جماعت نہیں سمجھا گیا ہے ان کی طرف سے 21خواتین الیکشن لڑرہی تھیں۔ کئی خرابیوں کے باوجود کچھ اچھی روایت بھی قائم ہوئیں،اس مرتبہ براہ راست 12خواتین الیکشن جیت کر پارلیمینٹرین منتخب ہوئیں ہیں۔ جس میں پی ٹی آئی کی پانچ،مسلم لیگ ن کی چارپیپلزپارٹی کی دو ایم کیوایم پاکستان سے ایک خاتون امیدوار ہیں، ایک اور مثبت بات یہ کہ کامیاب ہونے والی خواتین میں سے کسی نے لاکھ اور کسی نے ڈیڑھ لاکھ ووٹ لیے۔
سب سے دلچسپ مقابلہ این اے 69حافظ آباد کا تھا یہاں سے انیقہ مہدی بھٹی 2لاکھ آٹھ ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں ان کے مقابلے میں سائرہ افضل تارڈ نے ایک لاکھ چوراسی ہزار ووٹ لیے۔ سندھ سے پیپلزپارٹی کی دو خواتین نفیسہ شاہ اور شازیہ مری دونوں نے ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ کے قریب ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ ہمارے یہاں عورتوں کو نمائندگی دینے میں یعنی ٹکٹ کی صورت میں بہت کنجوسی کی جاتی ہے۔
یہ معاملہ صرف سیاسی جماعتوں کا نہیں پورے سماج کا معاملہ ہے ہم پچاس فیصد جو مرد ہیں ہم نے نہ تو عورت کو معاشی آزادی دی نہ اسے فیصلہ سازی میں کسی کردار کی سہولت دی، خواتین اپنی پسند سے کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کرسکتی،اپنے کیئریر کےمتعلق سوچ نہیں سکتی تو ان حالات میں سیاسی سطح سے الیکشن لڑنے کیسے آسکتی ہے،الیکشن لڑنے کے لیے کروڑوں روپوں کی ضرورت پڑتی ہے جب عورت کی اپنی معیشت پر ہی دسترس نہیں ہے تو پھر وہ کیا لڑے گی۔
لیکن مثبت مثالیں بھی ہیں الیکشن 1990 تھا حلقہ این اے166لاڑکانہ تھری سے بے نظیر بھٹو نے الیکشن لڑا انہوں نے دولاکھ انیس ہزار رجسٹرڈووٹوں میں سےپڑنے والے 95ہزارنوسوانیس ووٹ میں سے94ہزارچارسو باسٹھ ووٹ لئے تھے یعنی98اعشاریہ چارآٹھ فیصدووٹ لئے تھے ان کےسارے مخالفین کو ڈیڑھ فیصد بھی ووٹ نہیں ملا تھا،یہ آوٹ اسٹینڈنگ نتیجہ تھا۔
دوسری طرف جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ1988 کے الیکشن میں میں مردوں کے مقابلے عورتوں کے 31 لاکھ ووٹ کم رجسٹر ڈ تھے،1990 میں یہ فرق بڑھ کر 36لاکھ ہوگیا تھا، 1993 میں 47لاکھ کا فرق تھا،97 میں بھی فرق مزید آگے بڑھا، 2002 میں 55لاکھ کم ووٹ رجسٹرڈ تھے،2008 میں 97لاکھ کم تھا اور آج یہ فرق ایک کروڑ سے تجاوز کرچکا ہے یعنی مرد کے مقابلے میں اتنی خواتین ووٹرز لسٹ میں رجسٹر ڈ نہیں ہیں۔
معاملہ یہیں پر نہیں رکا کہ ایک کروڑ خواتین ووٹرز رجسٹرڈ نہیں ہیں سوال یہ ہے کہ اگریہ رجسٹرڈ نہیں ہیں تو ہیں کہاں۔ بدقسمتی سےہماری حکومتیں ڈیٹا پر توجہ ہی نہیں دیتیں، کسی بھی گھر کا جوبجٹ بنتا ہے تو والدین کو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری فیملی اراکین کتنے ہیں ان کی ضرورتیں کیا ہیں اس کے بعد بجٹ بناتے ہیں ،کیا مذاق ہے کہ ہماری سرکار کےپاس مکمل ڈیٹا ہی نہیں ہے اور وہ بجٹ بناتے ہیں۔
اس الیکشن میں بارہ کروڑ پچاسی لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں،جس میں69ملین مرد اور59ملین خواتین ہیں اس میں ایک کروڑ کا فرق آگیا ہے۔ تو جو ایک کروڑ کا فرق آرہا ہے اس سے مراد وہ خواتین کہیں رجسٹرڈ نہیں ہیں وہ نادرا کے پاس بھی رجسٹر ڈ نہیں ہیں۔ کیوں کہ ان کے پاس شناختی کارڈ تک نہیں ہیں، اگر وہ رجسٹرڈہوتیں تو عورتوں کے17فیصدووٹ زیادہ ہوسکتے تھے، شناختی کارڈ نہ بناکر ان کو ووٹ ڈالنے کے آئینی حق سے محروم رکھا جارہا ہے، دوسرا وہ تعلیم سے محروم ہورہی ہیں انہیں اس بنیاد پروراثت کے حق سے نکا ل دیا جائے گا،یعنی ایک کروڑ خواتین کو تو ہر ترقی کے ہردوڑ سے باہر نکال رکھا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے لے ہر سماجی سہولت سے اسے محروم رکھا جارہا ہے۔کراچی میں دو حلقےایسے ہیں جس کی آبادی دس لاکھ کے قریب ہے لیکن رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 16فیصد ہے،جب کہ پورے کراچی میں کم از کم پچاس فیصد رجسٹرڈووٹرز ہیں۔
جنگ: اس الیکشن میں کتنے ووٹ مردوں کے اور کتنےخواتین نے ڈالے ہیں؟
قاضی خضر: اس مرتبہ چھ کروڑسات لاکھ چودہ ہزارکے قریب ووٹ ڈالے گئے ہیں، جو تقریباً 47فیصد ہوتا ہے۔اس مرتبہ خواتین کاٹرن آوٹ بہت بہتر تھا،جو 41فیصد کے قریب ہے، خواتین ووٹرز کا ٹرن آوٹ سب سے بہترصوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے ایک قومی اسمبلی کا حلقے کا تھا جہاں70اعشاریہ چار فیصد ووٹ پڑا،خواتین کا اس مرتبہ کا41فیصد ٹرن آوٹ دوہزار اٹھارہ کے مقابلے میں تھوڑا سا کم تھاپچھلی دفعہ 46فیصد تھا۔
اس مرتبہ اچھی بات یہ رہی ہے کہ عورتوں کا دس فیصد سے کم ٹرن ملک میں کہیں نہ تھا جب کہ دوہزار اٹھارہ میں دو تین حلقوں میں ایسا ہوا تھا۔۔ہم خواتین کو ان سیٹوں سے منتخب ہوکر آنے دیں جہاں مقابلے کا رحجان ہو، عورتوں کو ٹکٹ نہ دینے کا مطلب ہم خواتین کے ایک بہت بڑے ووٹ کو نظرانداز کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود خواتین ووٹ ڈالتی ہیں، اگر خاتون امیدواربنے گی تووہ گھروں میں جاکر اپنی خواتین ووٹرز سے رابطہ کرسکتی ہے، جب وہ ان سے گھروں میں ملے گی تو ووٹ کا بھی پوچھیں گی نہ ہونے پر وہ اسے رجسٹرد کروائیں گی، لامحالہ پھر ان خواتین کے شناختی کارڈ بھی بنوائے گی، اس سے اندازہ لگالیں کہ خواتین کی شرکت سے ملک کتنی تیزی سے ترقی کرسکتا ہے، پہلے قومی اسمبلی کی سطح پر خواتین کی بیس مخصوص نشستیں تھیں وہ بڑھ کر 60 کردی گئی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے انہیں براہ راست الیکشن لڑوائیں اس طرح وہ زیادہ مضبوط ہوں گی۔
کم ازکم پانچ فیصد کو دس فیصد کردیں تاکہ خواتین براہ راست الیکشن لڑیں اور پھر تعداد کو دھیرے دھیرے بڑھایا جائے۔ لیکن شاید ہم خواتین کو زیادہ طاقتور نہیں کرنا چاہتے۔ادارہ ہیومن رائٹس کمیشن سمجھتا ہےعورتوں کی سیاست میں شرکت انتہائی ضروری ہے یہی وہ راستہ ہے جس سے خواتین کو بااختیار کرسکتے ہیں، عورتوں کے لیے کم ازکم پانچ فیصد کی شرط کو ختم ہونا چاہیے۔
جنگ: اگر کسی سیاسی جماعت نے کم ازکم پانچ فیصد ٹکٹ خواتین کو جاری نہیں کئے تو اس کی سزاکیا ہے؟
قاضی خضر: کچھ نہیں ہے کیوں کہ کم ازکم پانچ فیصد ٹکٹ دینے کا معاملہ ایک مشورہ لگتا ہے کوئی پابندی نہیں ہے لہذا اس پرلازمی عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
ملکہ خان: دوہزار اٹھارہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو ٹکٹ دیئے گئے اورپھر ان سے واپس بھی لے لئے گئے، ہم نے اس دفعہ اس پر توجہ مرکوز رکھی تھی،ایم کیوایم نےنو فیصد خواتین کو ٹکٹ دئے، مسلم لیگ نے سات فیصد ،باقی دیگر جماعتوں نے دو سے تین فیصد ٹکٹ دئے، ہم نےاس صورت حال پرالیکشن کمیشن کے خلاف ہائ کورٹ میں شکایت جمع کرائی ہے کیوں کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے، جب سیاسی جماعتیں قانون پرعمل نہیں کررہی تو وہ کیسے الیکشن لڑرہی ہیں، اس شکایت کی کارروائی الیکشن کے بعد کی تاریخ پر رکھی گئی ہے،2017کے ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہے جس میں یہ کیا جائے کہ عورتوں کے حلقے الگ ہوں، جس میں سیاسی جماعتوں کی خواتین الیکشن لڑیں مرد حصہ نہ لیں۔
کلپنا دیوی: جب ہم ایک طرف مردوں کے ساتھ عورتوں کی برابری کی بات کرتے ہیں تو یہ مناسب کیسے رہے گا،یہ ممکن بھی نہیں۔
جنگ: مجموعی طور پرمعاشرے میں خواتین کے حالات ویسے ہی حوصلہ شکن ہیں ہم اسے کیسے بہتر کریں کہ خواتین کی تربیت ہوا ن میں شعور پیدا ہووہ سیاست میں پراعتماد ہوکر حصہ لے سکیں اور کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکیں؟
کلپنادیوی: پڑھنا الگ بات ہے اور سمجھنا الگ مرحلہ،یہ تربیت گھروں سے شروع ہوں گی،ہم بحثیت خواتین سیاست میں یا کہیں بھی سرگرم ہیں تو یہ گھر سے سپورٹ ملنے کے سبب ہے،یہ ہی سب کو کرنا ہے، عورتوں میں اچھا یا برا سمجھنے کی حس زیادہ ہوتی ہے۔
جنگ: پاکستانی سیاست میں خواتین کی شمولیت کی صورت حال کو آپ کیسے دیکھتی ہیں؟
نصرت لغاری: میں پاکستانی سیاست میں خواتین کی شمولیت کو ملک کی جمہوری ترقی کے ایک اہم اور بڑھتے ہوئے پہلو کے طور پر دیکھتی ہوں۔ ثقافتی اور سماجی رکاوٹوں کا سامنا کرنے کے باوجود، خواتین نے سیاست میں نمایاں پیش رفت کی ہے، حکومت، پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی کی تنظیموں میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔
ان کی شرکت سیاسی گفتگو کو تقویت بخشتی ہے اور صنفی حساس پالیسیوں کو آگے بڑھاتی ہےاگرچہ چیلنجز بدستور برقرار ہیں، پاکستانی سیاست میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شمولیت ایک مثبت رجحان ہے جس کی زیادہ جامع اورمساوی مستقبل کے لیے حوصلہ افزائی اور حمایت کی جانی چاہیے۔
جنگ: انتخابات میں خواتین کی شرکت میں کیا رکاوٹیں ہیں؟
نصرت لغاری: انتخابات میں خواتین کی شرکت میں پہلی حائل رکاوٹ سماجی اور ثقافتی اصول ہیں جو خواتین کو سیاسی عمل میں حصہ لینے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ پھر تعلیم اور معلومات تک رسائی کا فقدان ہےجو خواتین کے لیے انتخابی عمل کو سمجھنا اور باخبر فیصلے کرنا مشکل بناتا ہے۔ محدود معاشی وسائل ہیں جو خواتین کو عہدے کے لیے انتخاب لڑنے یا مہم میں حصہ لینے سے روکتے ہیں۔ پھر صنفی بنیاد پر تشدد اور دھمکیاں جو خواتین کو ووٹ دینے یا عہدے کے لیے انتخاب لڑنے سے اُن کی حوصلہ شکنی کر سکتی ہیں۔
امتیازی قوانین اور طرز عمل جو خواتین کے ووٹ ڈالنے یا عوامی عہدہ رکھنے کے حقوق کو محدود کرتے ہیں۔ دقیانوسی سوچ اور تعصب جو خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کے مواقع کو اُن کے لیے محدود کرتے ہے۔ سیاسی جماعتوں کی حمایت کا فقدان اور امیدواروں کے انتخاب کے عمل میں نمائندگی کی کمی ذمہ داریوں اور گھریلو کاموں کی دیکھ بھال جو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے خواتین کے وقت اور توانائی کو محدود کر تی ہیں۔
جنگ: خواتین ووٹرز کو اپنی نمائندہ شخصیات کے انتخاب میں کن مسائل سے کا سامنا ہے؟
نصرت لغاری: خواتین ووٹرز کو اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے وقت مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ نمائندگی کا فقدان سیاسی دفاتر میں خواتین کو کم نمائندگی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے خواتین ووٹرز کے لیے امیدواروں سے شناخت کرنا اور ان سے تعلق رکھنا مشکل ہو جاتا ہے،صنفی تعصب, خواتین ووٹرز کو متعصبانہ مہم کے پیغامات، میڈیا کوریج، یا ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صنفی دقیانوسی تصورات کو تقویت دیتے ہیں یا پھر خواتین کے مسائل کو مسترد کرتے ہیں۔3. معلومات تک محدود رسائی, سماجی، اقتصادی یا ثقافتی رکاوٹوں کی وجہ سے خواتین ووٹرز کو امیدواروں کی پالیسیوں، ٹریک ریکارڈ، یا قابلیت کے بارے میں معلومات تک کم رسائی حاصل ہو تی ہے۔
دقیانوسی تصورات اور سرپرستی, خواتین ووٹرز کو دقیانوسی تصورات کا شکار کرتے ہیں جیسا کہ جنس کی بنیاد پر ووٹ دینے کی توقع کی جاتی ہے یا انہیں زیادہ قدامت پسند یا لبرل تصور کر لیا جاتا ہے۔ ڈرانا اور ہراساں کرنا,خواتین ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنوں پر یا انتخابی مہم کے پروگراموں کے دوران ہراساں یا پھر دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑ تا ہےجس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
خاندانی تعاون کا فقدان,خواتین ووٹرز اپنے ووٹ کے حق کے استعمال کے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال اور خاندانی ذمہ داریوں میں توازن پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کر تی ہیں۔ سماجی اقتصادی رکاوٹیں,پسماندہ کمیونٹیز کی خواتین ووٹرز کو اضافی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے زبان کی رکاوٹیں، نقل و حمل کی کمی، یا پولنگ کی ناکافی سہولیات۔ان چیلنجوں سے نمٹنا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ خواتین ووٹرز آزادانہ طور پر اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں اور اپنے نمائندوں کے بارے میں باخبر فیصلے لیں۔
جنگ: سیاست میں خواتین کی شمولیت میں مشکلات کیسے دور ہو سکتی ہیں اور کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟
نصرت لغاری: سیاست میں خواتین کی شرکت کو بہتر بنانے اور مشکلات کو دور کرنے کیلیئے میں نے کچھ نکات کو نمایاں ذکر کیاہے جیسا کہ کوٹہ اور صنفی توازن رکھنے والے امیدواروں کی فہرستیں تیار کرنا، خواتین سیاست دانوں کے لیے تربیت اور رہنمائی کے پروگرام ترتیب دینا، سیاست میں خواتین کے خلاف تشدد اور ہراساں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا، سیاست دانوں اور ووٹروں کے لیے خاندان کے موافق پالیسیوں کو فروغ دینا اور بچوں کی دیکھ بھال میں معاونت کرنا، خواتین کی سیاسی مہمات کے لیے فنڈز اور وسائل میں اضافہ کرنا، میڈیا اور سیاسی گفتگو میں صنفی دقیانوسی تصورات اور تعصبات کو چیلنج کرنا، صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے انتخابی قوانین اور پالیسیوں کو مضبوط بنانا، مردوں کو خواتین کی سیاسی شرکت کی وکالت کرنے کی ترغیب دینا، پیشرفت کو ٹریک کرنے اور بہتری کے لیے شعبوں کی نشاندہی کرنے کے لیے تحقیق اور ڈیٹا اکٹھا کرنے میں معاونت کرنا ہو گی۔ ان اقدامات پر عمل درآمد کرکےہم ایک زیادہ جامع اور مساوی سیاسی ماحول تشکیل دے سکتے ہیں جو خواتین کو شرکت اور قیادت کرنے کا اختیار دے۔
جنگ: پارلیمانی قانون سازی خصوصاً بااختیار خواتین کے حوالے سے عورتوں کا کردار کتنا اہم اور مضبوط ہے؟
نصرت لغاری: پارلیمانی قانون سازی میں خواتین کا کردار انتہائی اہم ہے خاص طور پر جب بات بااختیار خواتین کی ہو۔ خواتین متنوع نقطہ نظر، تجربات اور ترجیحات کو میز پر لاتی ہیں جو مزید جامع اور مساوی قوانین اور پالیسیوں کا باعث بنتی ہیں۔ پارلیمنٹ میں بااختیار خواتین کافی کچھ کرسکتی ہیں جیسے کہ چیمپیئن خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات، پسماندہ کمیونٹیز کے لیے وکیل، خواتین اور خاندانوں کو فائدہ پہنچانے والی قانون سازی متعارف کروانا اور اس کی حمایت کرنا۔ ساتھی قانون سازوں کو ان کے اعمال اور الفاظ کے لیے جوابدہ بنانا، خواتین لیڈروں کی آنے والی نسلوں کی حوصلہ افزائی اور راہ ہموار کرنا۔خواتین کی موجودگی اور شرکت زیادہ موثر اور نمائندہ طرز حکمرانی کا باعث بن سکتی ہے، جو بالآخر پورے معاشرے کو فائدہ پہنچائیں گی۔
حاضرین کے سوالات
یوسف: خواتین کا این آئی سی بنوانا یا ووٹررجسٹریشن کروانا حکومت پریہ ذمہ داری ڈلوانے کے بجائے سماجی ادارے کی خواتین خود یہ کام کرسکتی ہیں؟
جنگ: اب تو شناختی کارڈ بنتے ہی خود بخود ووٹرز رجسٹرڈ ہوجاتے ہیں۔
زاہد فاروق: موجودہ الیکشن کے نتائج کی روشنی میں ہم کس طرح زیادہ سے زیادہ نوجوانوں بالخصوص لڑکیوں کو سیاسی پراسیس کا حصہ بناسکتے ہیں،دوسراالیکشن اخراجات مرد وعورت دونوں کےلیے بہت زیادہ ہے ایک عام آدمی الیکشن لڑہی نہیں سکتا۔
قاضی خضر: جن خواتین کا کہیں ریکارڈ نہیں ہے یہ وہ خواتین ہیں جن کا برتھ رجسٹریشن بھی نہیں ہے۔ آج بھی او لیول سطح پر کراچی میں کچھ اسکول ہیں جہاں پر ہیڈگرل اس طرح کے الیکشن ہوتے ہیں ،سرکاری ہویا پرائیوٹ اسکول لیول پر الیکشن کروائے جائیں پھر بتدریج کالج یونی ورسٹی تک لے جایا جائے، سندھ میں یونی ورسٹی ایکٹ پاس ہوچکا ہے وہ دیگر صوبوں میں بھی ہونا چاہیے اور الیکشن بھی ہونے چاہیے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد 33فیصد ہونی چاہیے۔
جنگ: کس صوبے میں اور کس سیاسی پارٹی میں خواتین کا سیاست کرنا اور اس میں آگے جانا آسان ہے اور مذہبی جماعتیں حوصلہ افزائی کرتی ہیں یا اعتراض؟
کلپنا دیوی: میرے خیال میں سندھ زیادہ بہتر ہے، یہاں خواتین اچھے اسٹیٹس پر بھی کام کررہی ہیں نہ صرف عام لوگ بلکہ اقلیتوں کے حوالے سے بھی بہت بہتر ہے،میں شاید قیام پاکستان کے بعد پہلی خاتون ہوں جس نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کام کیا ہے، اور یہ پیپلزپارٹی میں ہے۔ہم ن لیگ فنکشنل لیگ میں بھی دیکھتے ہیں، مذہبی جماعتوں کواپنی خواتین کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے نہیں دیکھا۔
ملکہ خان: سندھ میں تمام سیاسی جماعتیں خواتین کو جگہ دیتی ہیں اور مرد ممبران صوبائی اسمبلی بھی خواتین کی بات سنتے ہیں۔ پچھلے اسمبلی میں دس سے زیادہ کمیٹیوں کی چیئرپرسن خواتین تھیں سندھ اسمبلی ملک کی دیگر اسمبلیوں کے مقابلے میں سب سے اچھی ہے جہاں عورتوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔