سندھ کے مختلف اضلاع میں قبائلی تنازعات امن و امان کے لیے آج بھی ایک سنگین مسئلہ بنے ہوئے ہیں، جس پر قابو پانے اور ان تنازعات کے مکمل حل کے لیے حکومت بھی غیر سنجیدہ دکھائی دیتی ہے اور آج تک حکومتی سطح پر قبائلی تنازعات کو ختم کرانے میں کوئی خاطر خواہ اقدامات دکھائی نہیں دیے، قبائلی تنازعات کے حوالے سے سندھ کے دو ڈویژن سکھر اور لاڑکانہ متاثر ہیں، جہاں کشمور ، شکارپور ، جیکب آباد ، قمبر شہداد کوٹ، سکھر، گھوٹکی اور خیرپور اضلاع میں متعدد قبائل کے درمیان تنازعات جاری ہیں۔
خاص طور پر سندھ کے اضلاع کشمور شکارپور ، خیرپور اضلاع میں مسلح قبائلی لڑائیاں خطے میں امن وامان کی صورت حال کو ابتر کر رہی ہیں، جب کہ ایک اندازے کے مطابق سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں روپوش اور اشتہاریوں کی تعداد 20 ہزار سے بھی زائد ہوگی، جو قبائلی تنازعات کے باعث روپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
جن کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی بڑی تعداد کشمور سے گھوٹکی تک چار اضلاع میں کچے کے خطرناک علاقوں درانی مہر، گڑھی تیغو، شاہ بیلو اور رونتی سمیت سندھ کے دیگر کچے کے علاقوں اور جنگلات میں موجود ہے۔ چند روز قبل قبائلی تنازعے کی بھڑکتی ہوئی بڑی آگ پر کشمور پولیس نے بروقت قابو پاکر علاقے کو بڑے نقصان سے بچا لیا، پولیس نے بہادری کے ساتھ مسلح ملزمان سے لڑتے ہوئے ضلع کے کچے کے علاقوں کو بڑی خونریزی سے محفوظ رکھا اور درجنوں قیمتی جانیں بچا کر ایسی مثال قائم کی جو ماضی میں دیکھنے میں نہیں آتی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ صادق آباد میں شراور جھکرانی برادری کے دو گروپوں میں تکرار کی بنیاد ایک خاتون کے ساتھ پیش آئے واقعے کے باعث ہوئی اور تکرار کی یہ آگ پنجاب کے سرحدی ضلع رحیم یار خان سے سندھ کے جڑواں ضلع کشمور کے علاقے گیل پور میں پھیلنے لگی تھی کہ جسے کشمور پولیس کے بہادر افسران اور جوانوں نے بروقت کارروائی کے ذریعے روک کر حالات کو کنڑول کرلیا، ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ کے مطابق پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ ایک سو سے ڈیڑھ سو افراد جو جدید ہتھیاروں سے مسلح ہیں، جن میں متعدد انعام یافتہ ڈاکو بھی ہیں، وہ رونتی اور دیگر علاقوں سے دریا پار کرکے کشمور کے علاقے گیلپور میں آکر جکھرانی برادری کے گاوں پر حملہ آور ہوں گے۔
اس اطلاع پر ایس ایچ او گیلپور ایس ایچ او کشمور ایس ایچ او کرم پور سمیت دیگر تھانوں کے انچارج اور افسران پولیس کی بھاری نفری بکتر بند گاڑیوں اور دیگر سازو سامان کے ساتھ موقع پر پہنچ گئی اور پوزیشن سنبھالتے ہوئے مسلح افراد کے گیلپور جانے کے راستے کی دیوار بن گئے۔ اس دوران مسلح ملزمان اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا شدید تبادلہ ہوا اور دونوں جانب سے جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا، مقابلے کے دوران ایس ایچ او نبی بخش جکھرانی شدید زخمی ہوگئے اور متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے، جب کہ بکتر بند گاڑیوں پر بھی شدید فائرنگ کی گئی، جس سے گاڑیوں کو کافی نقصان پہنچا۔ چار سے پانچ گھنٹے پولیس افسران اور جوانوں نے مسلح ملزمان کے راستے کی دیوار بن کر فائرنگ کا بھرپور جواب دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مسلح ملزمان یہ پیغام دیتے رہے کہ ہمارا پولیس سے کوئی جھگڑا نہیں، ہمارا جھگڑا جھکرانی برداری کے افراد سے ہے۔
پولیس درمیان میں رکاوٹ نہ بنے اور راستے سے ہٹ جائے، لیکن جواب میں پولیس سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور آخر کار فائرنگ کے کئی گھنٹے تبادلے کے بعد اس خونی تصادم کو روکنے میں کام یاب ہوگئی ۔ پولیس کے مطابق جتنی بڑی تعداد میں جدید ہتھیاروں سے مسلح ملزمان آئے تھے، اگر وہ اپنے مقصد میں کام یاب ہوجاتے تو اس خونی تصادم میں ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ تھا ۔ گزشتہ سال چاچڑ برادری کے 12 افراد قبائلی تنازعے میں مارے گئے تھے، لیکن یہ تصادم اس کے مقابلے میں بہت بڑا ہونا تھا، لیکن پولیس نے اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر جس طرح بہادری سے اسے ناکام بنایا۔
وہ کشمور پولیس اور ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ کا ایسا کارنامہ ہے، جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مقابلے کے دوران ایس ایچ او کرم پور نبی بخش جکھرانی جو شدید زخمی ہوئے تھے، انہیں فوری طور پر تعلقہ اسپتال پھر رحیم یار خان اور وہاں سے ائیر ایمبولینس کے ذریعے کراچی کے ایک نجی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ مسلح ملزمان اور پولیس کے درمیان اتنی شدید فائرنگ ہوئی کہ جس سے بکتر بند گاڑیوں میں چاروں طرف گولیوں کے نشانات دکھائی دے رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلح ملزمان اور ڈاکوؤں کے پاس جدید اور خطرناک ہتھیار تھے۔
واقعے کے بعد علاقے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے، تاکہ کسی بھی ممکنہ گڑبڑ پر بروقت قابو پایا جاسکے۔ ایس ایس پی کشمور اور آپریشنل کمانڈر امجد احمد شیخ، جنہوں نے ڈیڑھ سے دو سال کے عرصے میں کشمور ضلع کے کچے کے جنگلات میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں قابل تعریف کامیابیاں حاصل کیں اور نو گو ایریا ختم کرائے، کڑوروں روپے کی سرکاری اور مقامی افراد کی زمین ڈاکوؤں سے واگزار کرائی اور امن و امان کی صورت حال کو بحال رکھنے عوام دوست پولیسنگ کے لیے، وہ کام کیے جو کئی دہائیوں میں پولیس نہ کرسکی۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمور ایک ایسا ضلع ہے، جس کے روڈ کچے کے علاقے جنگلات اور دریائی سرحدیں پنجاب اور بلوچستان سے ملتی ہے۔
اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب اور بلوچستان کی سرحدی پٹی پر پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے علاقے کی نگرانی کررہے ہیں تاکہ ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کی نقل و حرکت کو روکا جائے اور ہمارے کچے کے جنگلات کے ڈاکو جرائم پیشہ عناصر دیگر صوبوں میں فرار نہ ہوں اور وہاں سے جرائم پیشہ عناصر سندھ میں داخل نہ ہوسکیں ،کیوں کہ کشمور ضلع اس حوالے سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے کچے کے علاقے گھنے جنگلات دریائی جزیرے ایسے ہیں جن میں متعدد علاقے بہت زیادہ خطرناک تصور کئے جاتے تھے۔
پولیس نے کچے کے ان جنگلات میں ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن جاری رکھا ہوا ہے اور پولیس اپنے فرائض احسن انداز میں ادا کرتی رہے گی، کچے کے جنگلات میں جہاں ماضی میں پولیس پہنچ نہیں پاتی تھی اور ڈاکوؤں نے علاقوں کو نو گو ایریا بنا کر سرکاری اور لوگوں کی ہزاروں ایکٹر اراضی پر قبضہ کررکھا تھا۔
پولیس نے کام یاب آپریشن کے بعد نو گو ایریا ختم کرائے اور بدنام زمانہ انعام یافتہ ڈاکووں کی پناہ گاہوں کو مسمار کرکے وہاں پولیس کی مستقل چوکیاں قائم کیں۔ پولیس کی آمد و رفت کے ساتھ علاقے کے لوگوں اور سرکار کی کڑوروں روپے کی اراضی واگزار کرائی۔ آج پولیس اپنے مورچوں میں موجود ہے اور ڈاکووں جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں پر مکمل نظر رکھے ہوئے ہے اور کندھ کوٹ گھوٹکی برج کا کام بھی تیزی سے جاری ہے ،جس کے قائم ہونے سے گھوٹکی کشمور کی عوام کے ساتھ ملک بھر کے لوگوں کو جو بالائی علاقوں سے کراچی کے درمیان سفر کرتے ہیں، انہیں بھی فائدہ ہوگا۔