’’زندگی تو نام ہی تضادات میں توازن پیدا کرنے کا ہے، انسان چاہے تو اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کو دو مختلف خانوں میں رکھ سکتا ہے ،میں نے ایسا ہی کیا اور کام یاب رہی‘‘۔ یہ خیالات ہیں ، انکم ٹیکس انسپکٹر، نسیم نازش کے۔ بقول ان کے،’’مجھے بہ حیثیت انکم ٹیکس انسپکٹر کام کرنے میں کبھی کوئی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ گھر کا ماحول علمی اور ادبی تھا، سو مجھےبھی اردو ادب میں بچپن سے ہی گہری دل چسپی رہی ۔ ریڈیو پاکستان کے کئی پروگرامز کیں ۔
ادبی محفلوں میں بھی شر یک ہوتی، بزم ِطلبا کے لیے بھی مختلف اسکرپٹ لکھے۔ بچّوں کی کہانیاں بھی لکھیں۔ کم عمری میں شاعری کا آغاز کیا۔ اب اپنے کلام کو خود ہی تنقیدی نگاہ سے دیکھتی ہوں۔ کسی بھی شعبے میں اپنا مقام بنانا اتنا آسان نہیں ہے ،اس کے لیے خوب محنت کرنی پڑتی ہے۔
میرے دو شعری مجموعے ،’’محبت روشی ہے ‘‘اور ’’سورج نہیں نکلا ‘‘شائع ہوچکے ہیں۔ ایک خاتون اور اتنے کام کیسے کرلیتی ہیں ؟ انکم ٹیکس انسپکٹر بنانے کا سفر کیسے طے کیا؟ ادب اور انکم ٹیکس کی ذمہ داریوں میں کیسے توازن بر قرار رکھتی ہیں؟ بحیثیت خاتون کس طر ح کے چینلجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے گزشتہ دنوں اُن سے رابطہ کیا۔ اُن سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
س: اپنے خاندان اور تعلیمی پس منظر کے بارے میں تفصیل سے بتائیں؟
ج: میرا آبائی تعلق مشرقی پنجاب کے مشہور شہر حُسین پور ضلع گڑگائوں سے ہے۔ یہ شہر آج کل ہریانہ صوبے کا حصہ ہے۔ نواحِ دلّی کی آبادی ہونے کے سبب یہاں مقامی کلچر کے ساتھ ساتھ دلّی کی علمی اور ادبی فضا کا اثر بھی تھا۔ ہمارے خاندان میں فوجی ملازمت کا رجحان تھا، حالاںکہ ہمارا بنیادی ذریعۂ معاش کاشتکاری تھا۔ میرے والد ’’رائل بامبے آرمی‘‘ میں تھے، اُنھیں برطانوی حکومت کی طرف سے کئی اعزازات ملے۔ میں نے نواب شاہ سے گریجویشن کیا۔ اُس دور میں تعلیمی ادارے، شعر و ادب اور فنون لطیفہ کا مرکز ہوتے تھے۔
ہمارے کالج میں بھی ڈرامے، مشاعرے، بیت بازی اور تقریری مقابلے تواتر سے منعقد ہوتے تھے۔ اس ماحول میں مجھے اپنی ادبی صلاحیتوں کو اُبھرنے کا بہترین موقع ملا۔ 1975ء میں ہم لوگ نواب شاہ سے مستقل کراچی آگئے۔ کراچی میں اُن دنوں ریڈیو پاکستان ادب اور ثقافت کا بہت بڑا مرکز تھا۔ میرا کلام نواب شاہ سے ہی اُردو کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہونا شروع ہو گیا تھا، لہٰذا مجھے ریڈیو پاکستان میں اپنے آپ کو متعارف کرانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔
میں نے ریڈیو سے کئی ریگولر پروگرام کیے۔ جن میں ’’صبح نو‘‘ اور ’’نامور مسلم خواتین‘‘ جیسے مشہور پروگرام بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان کی ادبی محفلوں میں بھی شامل ہوئی تھی۔ بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں، اسی دوران جامعہ کراچی سے اُردو ادبیات میں ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔
انکم ٹیکس کمشنر شعیب احمد عباسی جو اعلیٰ ادبی ذوق رکھتے تھے، انھوں نے کراچی جم خانے کے کئی مشاعروں میں مجھے شمولیت کا موقع دیا۔ اُن دنوں حسن امام جعفری کے گھر پابندی سے ادبی محفلیں ہوتی تھیں جہاں شہر کے ممتاز شعرا بھی شرکت کرتے تھے۔ ان مشاعروں میں مجھے بھی شریک ہونے کے کئی مواقع ملے۔
س: ادب اور شاعری سے لگاؤ بچپن سے تھا؟ یا کسی سے متاثر ہو کر اس جانب راغب ہوئیں؟
ج: ہمارے گھر کا ادبی اور علمی ماحول تھا، میرے والد اُردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر گہری دسترس رکھتے تھے، وہ بہت صاحبِ مطالعہ شخص تھے، شعر بھی کہتے تھے۔ انھوں نے مجھے کم عمری میں فارسی کے کئی اشعار یاد کرائے تھے جو آج بھی مجھے ازبر ہیں۔ علامہ اقبال کے شعری مجموعوں بہت پسند ہیں ،ان سے بہت متاثر ہوئی۔ اقبال کے کلام کا ایک بڑا حصہ زبانی یاد ہو گیا، پھر گورنمنٹ گرلز کالج کی ادبی محفلوں نے بھی مجھے شاعرانہ اعتماد بخشا، ادا جعفری کی کتاب ’’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ نے بھی مجھے شعر گوئی کے حوالے سے ’’انسپائر‘‘ کیا۔
میری بہن کی اچانک وفات ہوئی تو اس دکھ نے میری شعری صلاحیت میں ایک طرح کی شدت پیدا کر دی۔ اس طرح کم سنی ہی میں مجھے شعر گوئی کی صلاحیت کے اظہار کے مواقع حاصل ہو گئے۔ ابتدا میں شاعر جناب مکرم لکھنؤی نے اصلاح کی، اُن کی رحلت کے بعد یہ سلسلہ رُک گیا۔ اب خود ہی اپنی شاعری کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتی ہوں، گرچہ میں کم لکھتی ہوں، کیوں کہ میں زبردستی لکھنے کی قائل نہیں ہوں، جب تک کوئی کیفیت طاری نہ ہو نہیں لکھتی۔ اب تک دو کتابیں شائع ہو ئی ہیں۔ ’’محبت روشنی ہے‘‘ اور ’’ابھی سورج نہیں نکلا‘‘ پہلی کتابی غزلوں پر مشتمل ہے، اور دوسری نظموں پرایک کتاب نجی بینک کے ادبی انعام کے لیے بھی نامزد ہوئی۔
آج کل میں اپنے ہائیکو کے مجموعے کی ترتیب میں مصروف ہوں۔ یہ بھی بتاؤں، کالج کے زمانے ہی سے مشاعروں میں شرکت کرتی تھی میرا ترنم بہت اچھا ہے۔ اس لیے مجھے ہمیشہ مشاعروں میں خوب داد ملتی ہے۔ اچھی شاعری کے ساتھ ساتھ اچھی آواز نے مجھے کامیابی اور مقبولیت سے نوازا ہے، پھر کراچی آنے کے بعد تو میں نے بہت بڑے بڑے مشاعرے پڑھے، ٹی وی کے مشاعروں میں پابندی سے مدعو کی جاتی تھی۔اُن دنوں مشاعروں میں بہت جلیل القدر شعرا شرکت کرتے تھے۔
س: کتابیں لکھنے کے علاوہ آپ نے ریڈیو پاکستان کے کئی پروگرامز کے لیے اسکرپٹ بھی لکھے،اس بارے میں کچھ بتائیں؟
ج: میں نے ریڈیو پاکستان کو کراچی کی ادبی اور تہذیبی زندگی کے ایک بڑے مظہر کے طور پر دیکھا ہے۔ اُن دنوں بڑی بڑی علمی و ادبی شخصیات ریڈیو سے وابستہ تھیں۔ میں بزمِ طلبا کے لیے بھی مختلف اسکرپٹ لکھتی تھی۔ لیکن ’’صبح نو‘‘ کا اسکرپٹ روزانہ کی بنیاد پر کئی سال لکھا، اس کے علاوہ ’’نامور مسلم خواتین‘‘ کا اسکرپٹ بھی بہت عرصے تک لکھا۔ میری بچّوں کی کہانیاں بھی بہت مقبول ہوئیں۔ افسوس ان میں سے کوئی ایک تحریر بھی اب میرے پاس نہیں ہے۔
س: آپ کو پاکستان کی پہلی انکم ٹیکس انسپکٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اپنے اس سفر کے بارے میں بتائیں؟
ج: ’’انکم ٹیکس‘‘ پاکستان کا بہت اہم محکمہ ہے۔ اس محکمے میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ٹیکس قوانین سے اچھی طرح واقف ہوں، انگریزی پر دسترس حاصل ہو، اکائونٹنگ (Accounting) سے واقفیت رکھتے ہوں ، اس کے ساتھ ساتھ آپ کے دل میں قومی مفاد کو ترجیح دینے کا جذبہ بھی ہو۔جب میں انسپکٹر بنی تو، شروع میں مجھے فیلڈ ورک نہیں ملا، میرے مزاج کو دیکھتے ہوئے مجھے محکمے کے انگریزی ماہانہ رسالے ’’ٹیکس آبزرور‘‘ کی ذمے داری سونپ دی گئی۔
میں نے بہت عرصہ Tax observer کی ذمہ داریاں نبھائیں، پھر مجھے بیوٹی پارلرز اور بوتیکس کے سروے کا کام دیا گیا، جسے میں نے پوری ذمے داری، محنت اور دیانت سے انجام دیا۔ جو آج بھی ریکارڈ پر ہے۔ مجھے خاتون انکم ٹیکس انسپکٹر کی حیثیت سے کام کرنے میں کبھی کوئی دشواری نہیں ہوئی، یہاں کا ماحول بہت اچھا ہے۔ افسر ہوں یا ساتھی سب مجھ سے تعاون کرتے تھے۔ میرے لیے یہ تجربہ بہت خوشگوار رہا۔
س : پہلی خاتون انسپکٹر کا عہدہ حاصل کرنے میں کتنی مشکلیں پیش آئیں؟
ج: چوںکہ اس عہدے کا تعلق سروس کمیشن کے امتحان سے ہے۔ لہٰذا اہلیت کی بنیاد پر اور دوسری ضروری شرائط پوری کر کے اس عہدے کا حصول ممکن ہے۔ اُس دور میں اس عہدے کا امتحان محکمہ جاتی ہوتا تھا، لیکن اس کے معیارات بہت سخت تھے۔ میں نے قانون اور انگریزی کی تیاری کے بعد یہ امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرلیا، عہدے کے حصول میں تو اتنی مشکل پیش نہیں آئی، مگر انسپکٹرزکو سخت ٹریننگ کورسس سے گزرنا پڑتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں ٹریننگ کی مشقت بھی کام کے دوران بہت مفید ثابت ہوئی۔
س: ادب اور انکم ٹیکس دونوں ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں، کیسے توازن برقرار رکھتی ہیں؟
ج: زندگی تو نام ہی تضادات میں توازن پیدا کرنے کا ہے۔ انسان چاہے تو اپنی ذاتی زندگی اور دفتری زندگی کو دو مختلف خانوں میں تقسیم رکھ سکتا ہے۔ میں نے ایسا ہی کیا، اور کامیاب رہی۔ یہاں ایک بات بتانا بہت ضروری ہے کہ انکم ٹیکس ایف بی آر(FBR) کے ایک ایسے محکمے کی پہچان بھی رکھتا ہے، جس نے سب سے زیادہ ادیب و شاعر پیدا کیے ہیں، اس سے پتا چلتا ہے کہ انکم ٹیکس شاعری سے مختلف ضرور ہے لیکن متصادم نہیں۔
آپ بہ حیثیت آفیسر ان لینڈ ریونیو بھی خدمات انجام دیتی رہی ہیں،اور اب اس شعبے سے ریٹائرڈہو چکی ہیں، اس حوالے سے بتائیں؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دیکھ کر بہت افسوس اور دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیکس کلچر نہیں ہے۔
23کروڑ کی آبادی میں صرف 0.57فی صد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ ہماری قومی آمدنی میں تاجر خصوصاً ریٹیلرز کا حصہ جتنا ہونا چاہیے اُتنا نہیں ہے۔ انکم ٹیکس کی وصولی کا بڑا حصہ لارج ٹیکس پیئرز، سیلیریڈ افراد، اور ڈائریکٹ ٹیکس کٹوتی یعنی at source طریقۂ کار پر منحصر ہے۔ پاکستان قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ اگر سب لوگ ایمان داری سے اپنا ٹیکس ادا کریں تو شاید ہم بہت جلد غیر ملکی قرضوں سے نجات حاصل کرلیں۔
س: انکم ٹیکس آفس میں ایک خاتون کا کام کرنا کس حد تک چیلنجنگ ہے، کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
ج: مجھے ذاتی طور پر کبھی ایسی کوئی شکایت نہیں ہوئی کہ خاتون ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ یہ تعلیم یافتہ لوگوں کا محکمہ ہے۔ یہاں کا ماحول کبھی عورتوں کے لیے ناسازگار نہیں رہا۔سب بہت مہذب ہیں اور اخلاقی اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔ اب اچھےبرے لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ فیصلہ اقلیت پر نہیں اکثریت پر کیا جاتا ہے۔
خاتون کا تعلق کسی بھی ادارے سے ہویا وہ کسی بھی عہدے پر فائز ہو اُسے مردوں کے اس معاشرے میں ہر لمحہ یہ چیلنج در پیش رہتا ہے کہ وہ مردوں کے درمیان اپنامقام بنائے، اس کے لیے عورتوں کو مردوں سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہ وہ چیلنج ہے، جس کاسامنا ہمیشہ عورتوں کو کرنا پڑتا ہے۔
س: جس طرح اور شعبوں میں مرد و خواتین میں تفریق کی جاتی ہے، انکم ٹیکس میں بھی اس طرح کے مسائل در پیش ہیں؟
ج: ہماری سوسائٹی میں عورت کے ساتھ امتیازی سلوک یقینا ًہوتا ہے۔ کئی دوسرے محکمے اس امتیازی سلوک کے آئینہ دار ہیں۔ لیکن انکم ٹیکس میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اس کا ایک نمایاں سبب تو یہ ہے کہ اس محکمے میں خواتین بڑی تعداد میں ملازم ہیں، ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل کمشنر ، کمشنر اور چیف کمشنر بھی خواتین ہیں۔ یہاں عورتیں بہت اختیارات رکھتی ہیں۔ یہ اُن کی عزت ہے، احترام ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ FBR کی چیئرپرسن بھی ایک خاتون رہی ہیں۔ جہاں عورتوں کو اتنا بلند مقام حاصل ہو، وہاں مرد و عورت کی تفریق کا شکار کبھی کوئی عورت نہیں ہو سکتی۔ میں تو پاکستان کی پڑھی لکھی اور باصلاحیت لڑکیوں سے یہی کہوں گی کہ وہ اس محکمے کو جوائن کریں، کیوں کہ ترقی کے مواقع کے ساتھ عورتوں کو بے انتہا عزت حاصل ہے۔