• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکرم نیاز

سندر بن کے جنگل میں ایک کتے کے چھوٹے سے بچے کو اڑنے کی بہت خواہش تھی ، اس کے لیے اس نے پرندوں سے دوستی کر رکھی تھی ،مگر اسے اڑنا پھر بھی نہیں آیا۔ وہ اکثر سوچتا تھا کہ آہ ہ ہ ۔۔ کاش کہ میں بھی ان پرندوں کی طرح اُڑ سکتا، سارا دن ان خوبصورت ملائم بادلوں سے کھیلتا پھرتا ۔پپی کا آسمان میں اڑنے کی اتنی شدید تمنا تھی کہ وہ اپنا سارا وقت پرندوں کے ساتھ گزارنا پسند کرتا تھا۔

’’چمپی! مجھے پھر سے بتاؤ کہ تم زمین سے کس طرح اڑان بھرتی ہو؟ مجھے یقین ہے کہ میں بھی ایسا کر سکوں گا‘‘۔ اُس نے ایک ننھی چڑیا سے کہا۔

’’ٹھیک ہے۔ یہ دیکھو میں اپنے پر اس طرح کھولتی ہوں ، پھر انہیں پھڑپڑاتی ہوں اور پھر ۔۔۔پھرررر ۔۔۔۔پپی ، اسی طرح تم بھی کوشش کرو ۔۔

’’ٹھیک ہے، یہ لو میں شروع ہوا ۔۔ ایک ۔۔ دو ۔۔ تین ۔۔دھڑاک ۔۔ وہ نیچے گر گیا۔

’’ہاہا ہا۔۔۔تم نہیں اڑ سکتے پپی! کیونکہ تمہارے پر نہیں ہیں‘‘

’’انتظار کرو اور دیکھو! تم چوں چوں کرنے والے پرندو ۔۔ میں تم سب سے اچھا اڑ کے بتاؤں گا‘‘۔

پپی بہت دلبرداشتہ ہو کر گھر لوٹا۔’’ماں! پیروں کے بجائے میرے پر کیوں نہیں ہیں؟ میں پرندے کی طرح کیوں پیدا نہیں ہوا؟‘‘

اس کے ماں باپ نے اسے دلاسا دینے کی بھرپور کوشش کی۔’’بیٹے! ایسے بہت سے کام ہیں جو پرندے نہیں کر سکتے، مگر تم کر سکتے ہو۔ جیسے بھاگ دوڑ ، اچھل کود وغیرہ ۔۔۔‘‘پپی کی ماں نے کہا۔

’’لیکن میں اڑ نہیں سکتا ماں ، میں کبھی نہیں اڑ سکتا ۔۔ اوں اوں‘‘۔وہ رونے لگا۔

دوسرے دن جب پپی اپنے دوست پرندوں سے ملنے گیا ۔ہائیں ۔۔ یہ کیا؟ میرے دوستوں کے گھر کے نیچے ایک بلی سو رہی ہے؟ یہ آئی کہاں سے؟شاید اسی بلی کی وجہ سے میرے سارے دوست پرندے کہیں اور اڑ گئے ہیں ۔۔ اوہ ہو ۔۔ پھر اب کون مجھے اڑنا سکھائے گا؟ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسی وقت ،ای ای ۔۔ شش شش ۔۔ پپی۔چمپی کی آواز آئی۔

’’اوہ ۔۔ چھوٹی چمپی ! تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘

’’پپی! میں تو ان جھاڑیوں میں پھنس کر رہ گئی ہوں۔ برائے مہربانی یہاں سے نکلنے میری مدد کرو ورنہ وہ بلی جاگ جائے گئ ۔۔ اوں اوں

’’رونا مت پیاری دوست۔ میں ابھی کچھ نہ کچھ کرتا ہوں۔‘‘

پپی نے اپنی ساری قوت جمع کی اور بھونکنا شروع کیا ۔۔بھوں بھوں بھوں ۔۔ غررررر

بلی آواز سن کر جاگ اٹھی اور پپی نے اپنے چہرے پر غصیلے تاثرات لاتے ہوئے کہا،غررررر ۔۔ میں تمہارے ساتھ لڑوں گا اور تمہیں مار کر کھا جاؤں گا۔‘‘

باپ رے! یہ بہت غصے میں لگتا ہے ، مجھے یہاں سے فوراً رفو چکر ہو جانا چاہیےمیااااؤں ۔

بلی نے دوڑ لگائی اور پپی اس کے پیچھے بھاگاغررر ۔۔ بھوں بھوں

میاؤں ۔۔۔ بچااااؤ!

پپی نے بلی کو ڈرا کر وہاں سے بھگا دیااور چمپی سے کہا، اب تم آزاد ہو، اپنی ماں کے پاس جا سکتی ہو ، اور تمام پرندے بھی اپنے گھر کو بحفاظت واپس لوٹ سکتے ہو۔‘‘

’’بہت شکریہ پپی‘‘۔چمپی نے کہا۔

دوسرے دن جب پپی دوبارہ اپنے دوستوں سے ملنے پہنچا ۔

’’یہ لو آ گیا پپی، ہمارا بہادرہیرو ،ہم سب پپی سے پیار کرتے ہیں‘‘۔ پرندوں نے مل کر نعرے لگائے۔

’’اوہ ہو ! یہ سب کیا ہے آخر؟‘‘پپی نے حیران ہوکر کہا۔

تم نے میری چمپی کو اس منحوس بلی سے بچایا اور اس بات کا بھی بہت شکریہ کہ تم نے ہمارے آشیانے والا درخت ہمیں واپس دلایا۔

ہم سب مل کر بھی وہ کام نہیں کر سکتے تھے جو تم نے اکیلے کر دکھایا۔‘‘چمپی کی ماں نے کہا۔

پپی کی خوشی کی کوئی حد نہیں تھی، ماں اور بابا سچ کہتے تھے۔ کیا ہوا جو میں اڑ نہیں سکتا، مگر دوسرے بہت اچھے کام تو کر سکتا ہوں۔اللہ تعالٰی نے ہر ایک کو الگ الگ خصوصیات دے کر پیدا کیا ہے۔ بابا نے سچ کہا تھا جس کا کام اسی کو ساجھے۔