محمد ایوب قائم خانی ، ڈگری
پیارے بچو! بہت پرانے وقتوں کی بات ہے۔ ابنِ ساباط بغدادکا نامی گرامی چور تھا۔ وہ چوری اور ڈکیتی میں ایسا ماہر تھا کہ ہزاروں چوریاں کرنے کے باوجود قانون کی گرفت میں نہیں آتا تھا۔ آخر کب تک بچتا ایک دن اسے گرفتار کر ہی لیا گیا اور قانونِ وقت کے مطابق اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ بعد ازاںاسے جیل بھیج دیا گیا۔ بغداد کے لوگ اس کا ذکر ہاتھ کٹا شیطان کے نام سے کرتے تھے۔ وہ قید با مشقت کاٹ رہا تھا۔ دس سال قید کاٹنے کے بعد ایک دن وہ جیل سے فرار ہوگیا۔
جیل سے باہر آتے ہی اپنے پیشے یعنی چوری کو ازسرِ نو شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ ایک ہاتھ کٹ جانے اور قید وبند کی صعوبتیں اُٹھانے کے باوجود اس کے مزاج پر ذرہ برابر اثر نہیں ہوا تھا۔ ایک رات وہ اپنی مہم پر نکلا۔ پھرتے پھراتے ایک بڑے سے گھر میں داخل ہوا۔ گھر کے احاطہ کے چاروں طرف کمرے تھے وہ ایک بڑے کمرے میں گیا، جہاں کھجور کے پتوں کی چٹائی بچھی ہوئی تھی، جائے نماز ایک تکیہ اور چند ٹوپیاں رکھی ہوئیں تھیں اور دوسری طرف پشمینہ کے چند تھان ،شالیں اور کپڑوں کے تھان لاوارثی کی حالت میں پڑے تھے۔
بغداد کے چور نے چادر بچھا کر اس کے اوپر تھان رکھے اور ایک گٹھڑی بنائی اور اس کو باندھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن ایک ہاتھ نہ ہونے کی وجہ سے اس سے گرہ نہیں لگ رہی تھی وہ ہانپتا ہوا بیٹھ گیا عین اسی وقت ایک ضعیف شخص کمرے میں داخل ہوا۔
ساباط کو گٹھڑی بناتا دیکھ کر کہا ، ’’بھائی یہ کام تم کسی کی مدد کے بغیر نہیں کر سکتے۔ میں تمھاری مدد کرتا ہوں ساباط نےاسے اپنے ساتھ ملا کر کپڑوں کی دو گٹھڑیاں بنائیں۔ بڑی گٹھڑی ضعیف شخص نے اپنے سر پر رکھ لی اور چھوٹی اور کم وزن گٹھڑی ساباط کو دے کر کہا کہ ’’تمھارا ہاتھ نہیں ہے اس لیے تم کم وزن اُٹھاؤ اور جہاں کہو گے میں اسے پہنچا دوں گا۔‘‘
ساباط اپنے ٹھکانے کی طرف چل پڑا۔ راستے میں ایک جگہ چڑھائی کی وجہ سے ضعیف شخص کو بڑی دقت پیش آئی ،ٹھوکر لگی اور گٹھڑی سمیت نیچے گر گیا۔ ساباط نے غصے میں گالیاں بکیں اور اس کی کمر پر ایک زوردار لات رسید کی ، ضعیف شخص جوں توں کھڑا ہوا اور کمزوری کی وجہ سے گرنے کی معافی مانگنے لگا۔
ابن ساباط نے طاقت کے زعم میں دوبارہ بڑی گٹھڑی عمر رسیدہ شخص کے سر پر رکھ کر سفر شروع کیا، چلتے چلتے وہ ایک کھنڈر میں جا پہنچے جو بغداد کے چورکی پناہ گاہ تھی، پھر ابن ساباط نے بزرگ سے کہا کہ دیکھو پہلے چوری کرنے میں پہنچا تھا اور تم بعد میں آئے تھے لہٰذا یہ تمام چوری کا مال میرا ہوا اور تمہیں مجھ جیسا سردار پورے بغداد میں نہیں مل سکتا لہٰذا آج سے تم میرے شاگرد ہو۔
بزرگ شخص نے ادب و احترام سے عرض کیا،’’بھائی یہ تمام مال تمہیں مبارک ہو۔ افسوس میں تمہاری کوئی خدمت نہیں کر سکا بلکہ اپنی کمزوری کی وجہ سے تمہارے لئے پریشانی کا باعث بنا، جس کے لئے معافی مانگتا ہوں اور رخصتی کی اجازت چاہتا ہوں۔ ‘‘خداحافظ کہہ کروہ شہر کی جانب چل پڑا۔
دوسری طرف ابن ساباط کے دل و دماغ اور ضمیر کو اپنے ساتھی کے حسن سلوک نےجھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور ضمیر کی خلش نے اسے بے چین کر دیا تھا۔ صبح ہوتے ہی بغداد کا چور اس رات کے ساتھی اجنبی چور کی تلاش میں نکلا ،تاکہ اپنے گزشتہ رات کے سلوک کی معافی مانگ سکے یہی سوچتا ہوا وہ رات والی عمارت کے باہر جا پہنچا۔
جہاں رات کو اس نے چوری کی تھی، مگر وہاں چوری کے بعد کوئی افراتفری نظر نہ آئی۔ بلکہ لوگ جوق در جوق اس گھر میں احترام سے جاتے نظر آئے۔ بغداد کے چور نے ایک شخص سے پوچھا کہ،’’ یہ کس کا مکان ہے۔‘‘ اس نے کہاکہ،’’ لگتا ہے تم بغداد میں نئے ہو۔ یہ بابرکت مکان ہمارے شیخ حضرت جنید بغدادی کا آستانہ علم ہے۔‘‘ ابن ساباط نے نام تو سن رکھا تھا مگر دیدار کی سعادت سے اب تک محروم تھا۔ سوچا کہ آج اتفاقاً اس نیک و بزرگ ہستی کا دیدار ہی کر لوں۔ اندر جاکر کمر ے میں جھانکا تو دیکھا وہی رات والا عمررسیدہ ساتھی مصلے پر بیٹھا درس دے رہا ہے۔ اور باادب لوگوں سے کمرا بھرا پڑ ا ہے۔
اتنے میں اذان ہوئی، سب نمازکے لیے مسجد جانے لگے۔بغداد کا مشہور اور ظالم چور ابن ساباط بے ساختہ روتے ہوئے آپ کے قدموں میں گر پڑا اور گزشتہ رات کی بداخلاقیوں پر معافی کا طلب گار ہوا۔ شیخ جنید بغدادی نےاسے زمین سے اُٹھا کر اپنے گلےسے لگا لیا۔ اور مسکراتے ہوئے فرمایا۔’’ در توبہ ابھی بھی کھلا ہے‘‘۔ابن ساباط کی دنیا ایک لمحے میں بدل چکی تھی۔
وہ شیخ کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گیا اور وہ ہاتھ کٹا شیطان و سابو بغداد کا شاطر چور شیخ جنید بغدادی کے زیر سایہ عبادت، ریاضت میں وہ نام لیا کہ اب اسے بغداد کے لوگ بغداد کے چور کے بجائے شیخ احمد ابن ساباط کے نام سے نہایت عزت و احترام سے جانتے تھے۔ اسی ابن ساباط کو ایک مرد خدا جنید بغدادی کے حسن و اخلاق و کردار نے چند لمحوں میں بھی خاصان خدا کی صف میں داخل کر دیا اور بغداد کے چور کو چند لمحوں میں سیدھی راہ پر لانے کی کرامت کا چرچا زبان زدعام ہو گیا۔