• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’بایو گیس‘ یہ ایک خزانہ ہے جس سے سالانہ اربوں ڈالرز کمائے جا سکتے ہیں

عمیر فاروق

بایو گیس دراصل جانوروں کے فضلے یا کوڑے کرکٹ سے توانائی کا حصول ہے۔ میتھین گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈروجن اور دوسری گیسوں کا مرکب ہے، جس کا اہم جزو میتھین ہے۔ اس گیس کی کوئی بو نہیں، اور دھواں پیدا کئے بغیر جلتی ہے۔ بائیو گیس پیدا کرنے کے لئے کسی بہت بڑی ٹیکنالوجی یا قیمتی خام مال کی ضرورت نہیں ہوتی۔

یہ نامیانی کچرے سے پیدا ہوتی ہے، جو عام طور پر ضائع کر دیا جاتا ہے۔ نامیاتی کچرے سے مراد ایسی فالتو اور غیر ضروری اشیاء ہیں جو جلدی گل سڑ جاتی ہیں۔ جانوروں کا گوبر، بچی کھچی غذا، غذائی کچرا اور ایسی ہی بے کار اور فالتو چیزیں جنہیں ہم روزانہ کچرے میں پھینک دیتے ہیں، قیمتی توانائی حاصل کرنےکے لئے استعمال کی جاسکتی ہیں۔ بایو گیس پلانٹ میں عام طور پر جانوروں کا گوبر، گلے سڑے پودے، گھاس، پتے، سبزی منڈی کی گلی سڑی اور ضائع شدہ سبزیاں اور پھل ،ضائع شدہ گوشت اور باقیات، ہوٹلوں میں بچ جانے والا کھانا، مرغی خانوں کی ضائع شدہ خوراک وغیرہ بطور خام مال استعمال کیا جاتا ہے۔ گھر کے ضائع ہونے والے سالن، دودھ، سبزی اور پھلوں کے چھلکوں وغیرہ کو استعمال کر کےبھی گیس تیار کی جاسکتی ہے۔

اس پر زیادہ لاگت نہیں آتی اور استعمال میں بھی کم خرچ ہوتی ہے۔ بائیو گیس پلانٹ لگانے کے لئے 16 اسکوائر فٹ جگہ اور 10 سے 12 دن درکار ہوتے ہیں، جب کہ ایک پلانٹ کی تکمیل پر تقریباً 80,000 سے ایک لاکھ روپے خرچ ہوتےہے۔ بایو گیس کا پروجیکٹ ان علاقوں میں شروع کیا جاتا ہے جہاں گیس کی قلت ہو۔چند سال قبل پنجاب میں ایک شخص نے بایو گیس کا تجربہ کرکے بجلی اور گیس پیدا کرنے کی کوشش کی تھی،جس میں وہ کامیاب بھی ہوا تھا۔

 ماہرین کے مطابق یہ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ایک پائیدار ایندھن ثابت ہو سکتی ہے

اس نے بایو گیس کے ذریعے ناصرف اپنے گھر کا چولہا جلایا، بلکہ اس کے ذریعے گیس سے چلنے والے جنریٹر سے بجلی بھی پیدا کی۔ اس کے لیے انہوں نے ایک مِنی بائیو گیس پلانٹ تیار کیا تھا۔جو ایک بڑا کارنامہ تھا۔بائیو گیس، نامیاتی مرکبات سے آکسیجن کی غیر موجودگی میں پیدا ہونے والی گیس ہے، جو استعمال میں معدنی گیس کی خصوصیات رکھتی ہے۔ یہ گیس کئی دہائیوں سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں زیرِ استعمال ہورہی ہے۔ وقت کے ساتھ باقی دنیا میں اس کی پیداوار کو فوقیت ملی اور اس کے طریقوں میں بھی جدت آئی۔

پاکستان میں بجلی کا زیادہ تر حصول ایسے بجلی گھروں سے کیا جا رہا ہے، جو تیل پر چلتے ہیں اور ملکی آمدن کا بڑا حصہ تیل کی درآمد پر خرچ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ منگلا اور تربیلا جیسے سستی بجلی کے ڈیم تو ہیں، لیکن اس بجلی کو دور دراز کے علاقوں میں گرڈ کے ذریعے پہنچانا اس طریقے کو منہگا کر دیتا ہے۔ اسی طرح بلوچستان اور سندھ میں موجود کوئلے کے وسیع ذخائر کو بجلی کی ممکنہ پیداوار کا اہم ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بجلی پیدا کرنے کے لیے کوئلہ جلانا ایک ماحول دوست رویہ ثابت نہیں ہو گا۔

ہینز فضلے کو کھاد میں بدلنے کے کام کا آغاز پہلے ہی کرچکے تھے اور بہت جلداس سے بجلی کی پیداوار بھی شروع کریں گے۔ چندسالوں میں فضلے سے بجلی بنانے کی صنعت چار گنا پھیل چکی ہوگی۔ لیکن امریکی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ تو ایک خزانہ ہے، جس سے سالانہ اربوں ڈالر کمائے جاسکتے ہیں۔ یو ایس جیولوجیکل سروے کے لئے کام کرنے والی کیتھلین سمتھ اور ان کی ٹیم نے اس سے پلاٹینم، چاندی اور سونا دریافت کیا ۔ سونے اور چاندی جیسی دھاتوں کے علاوہ موبائل فونز اور کمپیوٹرز کی صنعت میں استعمال ہونے والا تانبا اور ونیڈیم بھی فضلے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

کیتھلین سمتھ اور ان کی ٹیم کی یہ تحقیق امریکن کیمیکل سوسائٹی کی 249ویں سالانہ میٹنگ میں پیش کی گئی تھی اور اس نے دنیا بھر کے سائنسدانوں کی توجہ حاصل کی تھی۔ برطانیہ کی پہلی فضلے اور غذائی کچرے سے چلنے والی بایو بس بھی سڑکوں پر چلیں۔ ماہرین کے مطابق بایو بس پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ایک پائیدار ایندھن ثابت ہو سکتی ہے۔

اس سے چلنے والی بایو بس متعارف کروانے والی توانائی کی فرم جینیکو ویسیکس واٹر اینڈ سیوریج کا ایک ادارہ ہے، جو گزشتہ چند سالوں سے ایک ایسا نظام تشکیل دینے پر کام کر رہا ہے، جس کے ذریعے بچے کچے کھانوں کو صاف اور قابل استعمال توانائی میں تبدیل کیا جاسکے۔

اگرچہ بایو گیس کوئی نئی چیز نہیں ہے، اس کا استعمال دنیا بھر میں صدیوں پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے، بالخصوص برطانیہ میں بجلی آنے سے پہلے اس کو زیر زمین نکاسی کے پائپوں میں سے نکال کر توانائی کی ضرورت پورا کی جاتی تھی۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید