’’فاطمہ ،تمہیں اپنی امّی یاد نہیں آتیں؟‘‘، ویسے تو میں یہ سوال کئی بار اپنی دوست سے پو چھ چکی تھی، لیکن گزشتہ ما ہ’’ مدرز ڈے‘‘ کے موقعے پر میں نے یہ سوال دوبارہ پو چھا کہ شاید اس بار کوئی اور جواب مل جائے۔ ’’نہیں جنہیں اپنے ہوش میں دیکھا نہیں، تو وہ بھلا کیسے یاد ہوں گی…‘‘ فاطمہ نے جواب دیا۔ تو تم اپنے دل کی بات، اپنی کوئی فرمائش کس سے کرتی ہو ؟ ہر بات بابا سے شیئر کرتی ہوں، مجھےکوئی مسئلہ لاحق ہو ،کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں بابا سے کہتی ہوں، مجھے نہیں یاد کہ ،انہوں نے کبھی میری کسی بات یا خواہش کو پورا کرنے سے انکار کیا ہو ،حالاں کہ وہ غصے کے بہت تیز اوررعب دار شخصیت کے مالک ہیں۔
رشتے دار ،خاندان والےسب ان سے بہت ڈرتے ہیں۔ لیکن ان کا اور میرا رشتہ باپ، بیٹی کا کم دوست کا زیادہ ہے۔ میں ان کی بے حد لاڈلی ہوں۔ ان کی موجود گی میں مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں کسی گھنے شجر کی چھائوں میں ہوں۔ بابا نے کسی بھی لمحے مجھے ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ انہوں نے باپ کی شفقت کے ساتھ ،ممتا کا سایہ بھی دیا۔ گھر اور میری تمام تر ذمہ داری بہ خوبی نبھا تے ہیں۔ بابا ہی نے مجھےکھانا پکا نا، کپڑے دھونا، صفائی کرنا، سلیقہ شعاری سب کچھ بتلایا، سکھایا ہے۔ لوگوں کہ لاکھ کہنے کے باوجود انہوں نے دوسری شادی نہیں کی۔
ساری زندگی تن تنہا میری پرورش میں گزار دی۔ اگر میں یہ کہوں کہ ’’،میرے بابا کم نہیں میری ماں سے تو یہ غلط نہیں ہوگا‘‘ ۔ فاطمہ اپنے بابا کے بارے میں بتاتی رہی اور ہم ایک ٹک اُسے دیکھتے رہے۔ فادرزدے پر مجھے فاطمہ کی بہت سی باتیں یاد آرہی تھیں۔ ایسے بہت سے باپ ہوں گے، جنہوں نے تنِ تنہا بچّوں کی تعلیم وتربیت اور اُن کی ضروریات پر بھر پور تو جہ دی ہوگی۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں جون کا تیسرا اتوار ’’فادرزڈے ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، ہم نے سوچا کہ آج اس موقعے پر آپ کی ملاقات ایک ایسے باپ سے کرواتے ہیں جو گزشتہ ڈھائی سال سے تنِ تنہا اپنے بچّوں کی پرورش کررہے ہیں ۔ڈراما ڈائریکٹر فاروق رند۔
اپنی شریک حیات کو یاد کرتے ہوئے کچھ یوں گویا ہوئے کہ،زندگی بہت ہسنی خوشی گزار رہی تھی ،زندگی کے تمام تر معاملات اچھے سے چل رہے تھے کہ اچانک میری بیوی کی طبیعت کچھ خراب رہنے لگی۔ ڈاکٹر کو دکھایا ،انہوں نے کچھ ٹیسٹ تجویز کیے، وہ فوری کروائے تو اس کو جگر کےسرطان کی تشخیص ہوئی۔ کچھ عر صے اس بیماری سے جنگ لڑنے کے بعد وہ جنوری 2020 ء کو زندگی کی بازی ہا ر گئی۔ اور …خوشیوں، محبّتوں کے رنگوں سے سجی زندگی، اُداسیوں، خالی پن کے تاریک بادلوں میں گِھر گئی۔
ہم سفر چلا جائے ،تو زندگی مشکل ہو جاتی ہے ،کیوں کہ بچے جتنا قریب اپنی ماں سے ہوتے ہیں، اتنا باپ سے نہیں ہوتے، پھر بھی میں نے بھر پور کوشش کی کہ میں بچّوں کو ماں کی کمی کا احساس نہ ہونے دوں ،جہاں تک ممکن ہو سکے ان کے ساتھ وقت گزاروں، شاید میں اس میں کا فی حد تک کام یا ب بھی رہا، پر یہ حقیقت ہے کہ ماں کی جگہ باپ نہیں لے سکتا، لاکھ کوشش کے باوجود میں اُس جیسا نہیں بن سکا۔ بچّوں کی اکیلے پرورش کرنا اتنا آسان نہیں ہے، پھر یہ کہ بیوی کی حیاتی تک بچّوں کی تر بیت میں میرا عمل دخل اتنا زیادہ نہیں تھا۔ میں کام کے دوران آج بھی حیران ہوتا ہوں کہ وہ گھر کے تمام کام اور بچّوں کی دیکھ بھال کس طر ح بآسانی کر لیتی تھی۔
ایک عورت جس طر ح گھر کا نظام چلاتی ہے، ویسا مرد کے لیے چلانا آسان نہیں ہوتا۔ میرے ماشااللہ، چار بچّے (تین بیٹیاں اور ایک بیٹا )ہیں۔ بیماری کا علم ہونے کے بعد دونوں بڑی بیٹیوں کی شادی کم عمری میں ہی ان کی ماں کی زندگی میں کردی تھی۔ بیوی کےانتقال کے وقت ہوا تو سب سے چھوٹی بیٹی کی عمر دس سال تھی مجھے اس کی زیادہ فکر تھی کہ وہ کیسے اپنی ماں کے بغیر رہے گی لیکن اس نے بہت ہمت کا مظاہرہ کیا اور اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی سنبھالا۔
اپنی بات مکمل کرکے فاروق رند خاموش ہوگئے تو ہم نے اُن سے پوچھا ،بچّوں کی تر بیت میں مسائل کا سامناکرنا پڑا؟ ہمارے سوال پر وہ چند ثانیے خاموش رہے، پھر کہاسچ کہوں تو کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کر ناپڑا ،ا س کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی ماں نے بچپن سے ہی چاروں بچّوں کو بہت مضبوط بنایا تھا اور ہر پریشانی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیا تھا۔ وہ ان کے ہر کام پر نظر رکھتی تھی۔
اچھے، برے، صحیح، غلط کی پہچان کرائی۔ مجھے نہیں یا د کہ ،بیوی کی زندگی میں، میں نے کبھی بچّوں کو کسی بات پر نصحیت کی ہو ، وہ ہی ان کو ہر حوالے سے سمجھاتی تھی۔ دوسری بات یہ کہ، میرے گھر والوں نے میرا اور بچّوں کا بہت ساتھ دیا ،اس مشکل وقت میں وہ ہر لمحہ ہمارے ساتھ کھڑے رہے۔
بچّوں کو کسی بھی موڑ پر ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ۔یہاں میں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ ’’اس کٹھن وقت میں صرف میں نے بچّوں کو نہیں سنبھالا بلکہ انہوں نے بھی مجھے بہت حوصلہ دیا،ہمت دلائی ‘‘۔ ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ ہمیشہ سے میرا بچوں کے ساتھ ایک دوستانہ رشتہ ہے، مجھے نہیں یاد کہ، میں نے کبھی ان پر سختی یا روک ٹوک کی ہو۔ ہمیشہ ہر بات بہت پیار ومحبت سے سمجھائی ،اسی لیے بچوں کو سنبھالنے میں مجھے زیادہ مشکلا ت پیش نہیں آئیں، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ،بیوی کی زندگی میں بچّوں کی تر بیت میں میرا عمل دخل نہیں تھا، مگر اب ان کے ہر معاملے میں غور وفکر کرتا ہوں۔
میری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کرو ،جس سے میرے بچے کوئی غلط بات سیکھیں ،کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ، بچے اپنے اردگرد جو کچھ ہوتا دیکھتے ہیں وہ جلدی سیکھ لیتے ہیں۔ گھر کا نظام چلانے میں میری بڑی دونوں بیٹیوں نے میرا بھر پور ساتھ دیا۔ اسی لیے مجھے باپ کے ساتھ ماں بننے کا سفر طے کرنے میں مشکل نہیں ہوئی۔ اب میرے بچے فخر سے کہتے ہیں کہ ،’’ہمارے بابا کم نہیں ہمارے ماں سے‘‘۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ، مرد، خواتین کی طر ح ملٹی ٹاسکنگ نہیں ہوتے، باہر کے کام کے ساتھ گھر سنبھالنا واقعی ایک مشکل کام ہے، اور یہ کام خواتین بہ خوبی انجام دیتی ہیں۔ اب میں کوشش کرتا ہوں کہ، گھر کے معاملات اور اپنے کام مینج کر لوں۔
میرا تعلق میڈیا سے ہے اسی لیے اکثر رات کو دیر سے گھر آتا تھا یا دوستوں کے ساتھ کہیں چلا جاتا تھا لیکن بیوی کی وفات کے بعد میں نے اپنی یہ عادت بدل لی ہے، اب رات گئے پروگرامز کرنایا دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنےجانا بالکل ترک کردیا ہے، یا یوں کہہ لے کہ میں نے اپنی آزادی کو مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔
اب میں اپنا کام ختم کرکے سیدھا گھر آتا ہو ،تاکہ بچّوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکوں۔ پوری کوشش کرتا ہوں کہ ان کو مجھ سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہ ہو۔ کبھی کسی پروجیکٹ کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا پڑتا ہے تو فکر مند رہتا ہوں کہ بچے میرے بغیر کیسے رہیں گے۔ اسی لیے جب کہیں جاتا ہوں تو مسلسل فون پر رابطہ میں رہتا ہوں۔
بچّوںکی تربیت کرنا چیلنجنگ ہے؟ میرے خیال میں اگر بچے سمجھدار ہوں تو پھر یہ کام اتنا زیادہ چیلنجنگ نہیں ہوتا ، البتہ اکیلے تربیت کرنے میں اپنے مزاج ، اندازِ تربیت اور رویوں میں تبدیلی ضرور لانی پڑتی ہے ،اپنی ترجیحات بدلنی پڑتی ہیں۔ سب سے پہلے بچّوں کی ضروریات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔مجھے ایسا لگتا ہے جب آپ کے کاندھوں پر ذمہ داری آتی ہے تو اس کو نبھانے کی ہمت و حوصلہ بھی خود بہ خود آجاتا ہے اور ساری چیزیں آہستہ آہستہ مینج ہونے لگتی ہیں۔
بیوی کے جاننے کے بعد میں نے سوچ لیا تھا کہ اب بچّوں کی تربیت دوست بن کر کروں گا۔ آج میں کسی حد تک مطمئن تو ہوں کہ ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داریاں بہ خوبی نبھا رہا ہوں، لیکن بچوں کی زندگی میں جو ایک ماں کی کمی ہوتی ہے وہ پوری کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ لاکھ کوشش کے باوجود باپ ماں کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اس کمی کو بیان کرنے کے لیے شاید الفاظ بھی کم پڑ جاتے ہیں ۔
بچّوں پر کن باتوں پر سختی کرتے ہیں ؟اس بارے میں ان کاکہنا تھا کہ، تعلیم کے معاملے میں ہمیشہ سے سخت رہا ہوں اور اب اور زیادہ سختی کرتا ہوں۔پہلے ان کو باہر کا کھا نا کھانے اور کولڈرنک پینے کی اجازت بالکل نہیں دی تھی ،اب بھی اس بات پر سختی کرتا ہوں لیکن پہلے کے مقابلے میں تھوڑی کم کردی ہے۔ البتہ بیٹے پر باہر گھومنے پھیرنے پر سختی کرتا ہوں ۔ اگر آپ بچّوں سے پوچھیں کہ میں نے آخری دفعہ ان کو کب ڈانٹنا تھا تو ان کو یا دبھی نہیں ہو گا۔
پہلے بھی بچّوں کی خواہشات پوری کرتا تھا اور اب بھی ہر جائز خواہش پوری کرتا ہوں ،کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ ان کو کسی بھی لمحے یا بات پر ماں کی کمی محسوس نہ ہو نے دوں، ان کو یہ نہ لگے کہ ان کی ماں نہیں ہے تو ان کے لیے کوئی بھی کا م کرنا مشکل ہے۔ اکثر لوگ مجھے سے یہ سوال کرتے ہیں کہ، ’’آپ کے بچّوں کی ماں نہیں ہے ‘‘ ان کو زندگی کے دیگر معاملات میں مشکل نہیں ہوتی۔ میں ان کو ہمیشہ یہی جواب دیتا ہوں کہ خوش قسمت ہیں میرے بچے جن کو باپ کی شفقت، محبت اور پیار تو میسر ہے او ر سب سے اہم بات یہ کہ میں اپنے بچّوں کا بیسڈ فرئیڈ بھی ہوں ۔ بچے مجھے سے اپنی ہر بات شیئر کرتے ہیں۔
انہیں اپنے سے اتنا قریب دیکھ کر دل میں خیال آتا ہے اور خوش ہوتا ہوں کہ، ’’میں انہیں ماں اور باپ دونوں کا پیار دینے میں کافی حد تک کامیاب ہوں ‘‘۔ فاروق رند کے قریب ان کی چھوٹی بیٹی ،امینہ فاروق بیٹھی تھی ہم نے گفتگو کا رُخ اُس کی طرف موڑتے ہوئے پوچھا ،امی کی وفات کے بعد بابا کے اندازِتر بیت یا رویّے میں کو ئی تبدیلی آئی؟ امینہ فاروق نے کہاکہ ، کوئی تبدیلی محسوس نہیں کی۔ وہ ہمارے ساتھ دوستوں کی طر ح رہتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ وقت ہمارے ساتھ گزارتے ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھے لمحے ماما کی کمی محسوس نہ ہونے دیں۔
بابا شروع سے ہی ٹھنڈے مزاج کے ہیں۔ ایک بات میں ضرور بتانا چاہوں گی ماماکے جانے کے بعد بابا بھی بہت اکیلے ہو گئے ہیں، دوستوں میں بھی نہیں جاتے،بس ہر وقت اپنے کمرے میں بیٹھے رہتے ہے ۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ جب بھی فارغ ہوں تو بابا سے باتیں کروں ،ان کے ساتھ وقت گزاروں۔ بابا کی ناراضی کے حوالے سے امینہ نے بتا یا کہ، وہ بلا وجہ اسکول کی چھوٹی کرنے پر بہت زیادہ ناراض ہوتے ہیں، بابا تعلیم کے معاملے میں کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کر تے۔ اس کے علاو ہ پہلے جن چیزوں کی اجازت نہیں دیتے تھے، اب ان میں بھی کا فی حد تک نرمی آگئی ہے ،جیسا کہ پہلے باہر سے کھانے کی کوئی بھی چیزمنگوانے کی اجازت بالکل بھی نہیں تھی لیکن اب کبھی کبھا ر ایسا کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں، باہر بھی لے جاتےہیں۔
ماما کی زندگی میں بابا نے ہم تینوں بہنوں کو کبھی بھی ہلکا سا بھی میک اپ کرنے کی اجازت نہیں دی، اگر کبھی تہورا یا کسی تقریب میں تھوڑا بہت کر بھی لیتے تھے تو بہت غصہ ہوتے تھے ،مگر اب صورت ِحال بالکل ہی بدل گئی ہے۔ اب میں میک اپ خریدنے کا کہتی ہوں یا کرتی ہوں تو کچھ نہیں کہتے، کبھی تو مجھے بہت حیرت بھی ہوتی ہے کہ بابا میں یہ تبدیلی کیسے آگئی۔ اگر کبھی کوئی غلطی کردوں تو بہت پیار سے سمجھاتے ہیں۔ بابا کام کے ساتھ گھر کی ساری ذمّےداری جس احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں، وہ قابلِ تحسین ہے۔ مجھے اپنے باباکا بات کرنے اور سمجھانے کا اندازبہت اچھا لگتا ہے ۔ میں ان کی ہر ایک عادت کو اپنانے کی کوشش کرتی ہوں۔
میری خواہش ہے کہ میں بڑی ہو کر اپنے بابا کی طر ح بنوں۔ ایک بات ضرور کہنا چاہوں گہ کہ، ہم بہن بھائی ماں کے سائے سے کم عمری میں محروم ضرور ہو گئے، لیکن ان کے حصے کا سارا پیار بابا نے ہم پر نچھاور کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اب تک ہمیں کسی بھی موڑ پر’’ماما ‘‘ کی کمی کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔ فادرز ڈے ڈے کے موقعے پر، میں اپنے بابا سے کہوں گی کہ، آپ نے ہمارے لیے جو کچھ کیا ہے وہ واقعے قابل تعریف ہے، ہم چاہ کر بھی اس کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ آپ صرف اچھے باپ نہیں بلکہ ایک بہترین ماں بھی ہیں اور دوست بھی۔ اللہ آپ کو ہمیشہ سلا مت رکھے (آمین)۔