سبق آموز مختصر واقعات ان نوجوانوں کے لیے جو اپنے باپ کی قدر نہیں کرتے
بیٹے نے دو جوڑے کپڑوں کے دیے اور ایک ڈبل روٹی !!
پھر گھر سے نکال دیا !!
میں نے ڈبل روٹی ایک آوارہ کتے کے سامنے ڈالی اور ایدھی ہوم چلا آیا !!
تین دن تک سوچتا رہا کہ کیا بیٹے کو میری یاد آئے گی...؟
کیا مجھے واپس لینے آئے گا..؟
کیا وہ مجھے گھر میں رکھنے کے لئے بہو کو قائل کر پائے گا..؟
چوتھے دن دل کی تسلی کے لئے باہر جھانکا تو دیکھا کہ، آنکھوں میں تشکر کے جذبات لیے، زبان نکالے، وہ آوارہ کتا دُم ہلا رہا تھا جسے میں نے ڈبل روٹی کھانے کو دی تھی!!
……٭٭……
ایک بوڑھے آدمی کو اس کی اولاد ہر روز یہ طعنہ دیتی کہ آپ نے ہمارے لئے کیا بنایا ہے۔
بابا جی یہ سن کر خاموش ہو جاتے۔
اگلی صبح پھر اسی بحث کو لے کر بچے اپنے بوڑھے باپ کا جینا حرام کرتے اور بیچارہ بوڑھا صبر کے ساتھ اپنی اولاد کے اس طعنے کو سہتا بھی اور سنتا بھی لیکن خاموش رہتا۔
جب موت کا وقت قریب آیا اور بوڑھا بستر مرگ پر لیٹ گیا تو جاتے جاتے اپنے بچوں کو ایک کاغذ دے گیا جس پر لکھا تھا
" اس گھر کے نیچے میری عمر بھر کی جمع پونجی ہے۔ بھاری خزانہ ہے ۔ کھود کر نکال لینا "۔
یہ پڑھنا تھا کہ بچوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نا رہا۔ بڑے احترام سے باپ کی میت کو دفنایا اور اگلے ہی دن گھر کی کھدائی شروع کر دی، ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ۔ تب جاکر انہیں ایک چھوٹا سا صندوق ملا۔
اسے کھولا تو اس میں ایک پرچی پڑی تھی جس پر لکھا تھا ،" اگر تم سب اتنے ہی مرد ہو تو اسی گھر کو دوبارہ بناؤ، جسے میں نے اپنا خون پسینہ بہا کر تعمیر کیا تھا۔ تمہیں اپنے سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ میں نے تمہارے لیے بنایا ہی کیا ہے ؟" ۔
بچے رہی سہی چھت بھی گنوا بیٹھے۔
……٭٭……
میرا کسی بات پر اپنے والد صاحب سے ایسا اختلاف ہوگیا کہ میری آواز اونچی ہوگئی, میرے ہاتھ میں کچھ درسی کاغذات تھے جو میں نے غصے سے میز پر پٹخے اور دہڑام سے دروازہ بند کرتے ہوئے اپنے کمرے میں آگیا۔
*بستر پر گرکر ہونے والی بحث پر ایسا دماغ الجھاکہ نیند ہی اڑگئی۔ صبح یونیورسٹی گیا تو بھی ذہن کل کے واقعے میں اٹکا رہا۔ ندامت وخجالت کے مارے دوپہر تک صبر جواب دے گیا۔ جیب سے موبائل نکالا اور اباجی کو یوں میسج کیا کہ، میں نے کہاوت سن رکھی ہے کہ،’’ پاؤں کا تلوا پاؤں کے اوپری حصے سے زیادہ نرم ہوتا ہے‘‘گھر آرہا ہوں قدم بوسی کرنے دیجئےگا، تاکہ کہاوت کی تصدیق ہوسکے‘‘۔
*میں جب گھر پہنچا تو اباجی صحن میں کھڑے میرا انتظار کررہے تھے۔ اپنی نمناک آنکھوں سے مجھے گلے لگایا اور کہا، قدم بوسی کی تو میں تم کو اجازت نہیں دیتا ، تاہم کہاوت بالکل سچی ہے کیونکہ جب تم چھوٹے تھے تو میں خود تمہارے قدم چوما کرتا تھا تو مجھے پاؤں کے تلوے اوپر والے حصے سے زیادہ نرم لگتےتھے یہ سن کر رونے کی باری اب میری تھی۔ جن کے والدین حیات ہیں ان سے میری گذارش ہے کہ اپنے والدین کی قدر کیجئے۔ ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔