کراچی ( ٹی وی رپورٹ) سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ صوبے کے سرکاری نجی اداروں کے لیے پہلی تا باہوریں تک نصاب کی کتاب چھاپ کر فراہم کرنا سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی ذمہ داری ہے مگر ہر سال دو ارب بیس کروڑ سے زائد کا بجٹ رکھنے والا یہ ذمہ داری پوری نہیں کرپاتا ،دکانداروں کا کہنا ہے کہ سرکاری اسکولوں کو مفت ملنے والی کتابیں مارکیٹ میں لائی جاتی ہیں اور مارکیٹ میں دھڑلے سے بکتی ہیں۔دوسری جانب والدین بچوں کا کورس پورا کرنے کے لیے صبح شام اردو بازار اور بک شاپس کے چکر لگانے پر مجبور ہیں لیکن پھر بھی کتابیں نہیں مل پاتیں۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے حکام کے مطابق سرکای اسکولوں میں پہلی تا بارہویں جماعت کے 44 لاکھ طلبا کے لیے دو کروڑ 80 لاکھ کتابیں چھاپی جاتی ہیں جبکہ پبلشر کا کہنا ہے کہ نجی اسکولوں کے لیے اُن کی ڈیمانڈ کے مطابق تقریباً پچاس کروڑ روپے مالیت کی کتابیں شائع کی جاتی ہیں ۔نجی اسکولو اور کالجز میں کتنے طلباء و طالبات پڑھتے ہیں اور انہیں کتنی کتابیں چاہیے ہوتی ہیں اس حوالے سے کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ پاکستان پبلشر اور بک سیلر ز ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں کی اشاعت کے لیے کاغذ موجود نہیں ہے ایک سال کے دوران فی کلو کاغذ کی قیمت سو روپے سے بڑھ کر ڈھائی سو روپے ہوگئی ہے اس کے باوجود پبلشر کو مطلوبہ مقدار میں کاغذ نہیں مل پارہا۔ جیو نیوز پراسکولوں میں درسی کتاب کے بحران پراسپیشل ٹرانسمیشن نشر کی گئی جس میں میزبان نے یہ تمہید کو باندھ کر سوال رکھا کہ درسی کتب اب تک کیوں نہیں چھپ سکی ہیں اور اس کی کیا وجوہات ہیں جس پر عزیز خالد،ام فروا،فواد ضیاء خالد پرویز، ریاض الحسنین، شازیہ تبسم نے اظہارخیال کیا۔ ٹیکسٹ بک پبلشرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عزیز خالد نے کہا کہ ہم جو کتابیں چھاپتے ہیں اس کا ایک پیسنگ فارمولا ہوتا ہے اس پیسنگ فارمولے میں پبلشر اور ٹیکسٹ بک بورڈ کے منافع کے علاوہ باقی خام مال کی لاگت ہوتی ہے جس میں سب سے بنیادی میٹریل کاغذ ہوتا ہے اور کاغذ کی قیمت کا حتمی تعین ضروری ہے۔