تحریر…شرجیل انعام میمن وزیر اطلاعات اور ٹرانسپورٹ، حکومت سندھ صدر مملکت آصف علی زرداری کی آج 70 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر انہیں مبارک باد اور خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی شخصیت اور ان کی سیاست کا اس طرح ادراک کیا جائے، جس طرح حقیقت میں وہ ہیں۔ آصف علی زرداری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے سویلین صدر ہیں، جو دو مرتبہ جمہوری طریقے سے اس منصب جلیلہ کے لیے منتخب ہوئے ہیں اور وہ آج بھی اس عہدے پر براجمان ہیں۔ اس اعزاز کی وجہ سے دنیا ان کی سیاسی صلاحیتوں کی معترف ہو چکی ہے کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں ایسا ہونا غیر معمولی واقعہ ہے۔ دنیا آج اس امر کو بھی کھلے دل سے تسلیم کر رہی ہے کہ پاکستان میں 2008 ء سے اب تک یعنی 17 سالوں سے جمہوری نظام کا جو تسلسل ہے، اس کا سہرا بھی صدر آصف علی زرداری کے سر جاتا ہے۔ اس طرح پاکستان میں جمہوری نظام کے جاری و ساری رہنے کی ایک نئی تاریخ رقم ہو گئی ہے۔ یہ کارنامہ آصف علی زرداری کا ہی ہے، جنہوں نے خالصتا جمہوری انداز سے انتخابات کے ذریعے انتقال اقتدار کے دشوارعمل کو ممکن بنا کر جمہوریت کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کیا۔ انتہائی نامساعد حالات اور غیر جمہوری قوتوں کی تمام سازشوں کو مکمل طور پر نا کام بناتے ہوئے اُنہوں نے اپنی مفاہمتی پالیسیوں کی بدولت اپنی پانچ سالہ جمہوری مدت کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر وطن عزیز کی 66 سالہ تاریخ میں ایک سنہری باب رقم کیا ہے۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان کی تعمیل، قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خواب کی تعبیر اور شہید جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو کے مشن کی تکمیل کے ذریعے انہوں نے پاکستان کو عملا عوامی حقوق کی علمبردارحقیقی جمہوری ریاست بنا کر ایک قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔ ان کا فلسفہ یہ ہے کہ جمہوری عمل جاری رہنے سے عوام دوست قوتوں کو مزید پیش قدمی کرنے کی گنجائش پیدا ہوتی رہے گی اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ جمہوری عمل سے مطابقت پذیری کرتی رہے گی۔ اسٹیبلشمنٹ کے ادارے بھی اپنے ادارے ہیں۔ مکمل جمہوریت کے لیے بھی ان اداروں کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ جمہوریت کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کے بعد آصف علی زرداری نے وہ کام کئے، جن کا قبل ازیں تصور کرنا بھی محال تھا۔ ان کے دور میں جو بڑے کام ہوئے، ان کی فہرست بہت طویل ہے البتہ یہاں ان میں سے کچھ کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔ ان کے پہلے دورصدارت میں 1973کے آئین کی مکمل بحالی ہوئی جس میں پارلیمانی اور آئینی اصلاحات خاص طور پر 20.19.18ویں آئینی ترامیم شامل ہیں، ان کے ذریعہ صوبوں کو خود مختاری دی گئی۔ جمہوری حکومت کو ختم کرنے کے بدنام زمانہ آرٹیکل 58 (2)B کا خاتمہ ہوا۔ عدلیہ کی آزادی، میڈیا کی آزادی، آزاد الیکشن کمیشن کا قیام اور غیر جانبدار نگران حکومت کا قیام بھی ان ہی ترامیم کی وجہ سے ممکن ہوا۔توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی دباؤ مسترد کر کے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کا معاہدہ ہوا، گوادر پورٹ عوامی جمہوریہ چین کے حوالے کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔ فارن ایکسچینج ریز روز 2008 ء کے 6 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2013 میں 16 بلین ڈالر ہو گئے۔صدر آصف علی زرداری کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر باقاعدہ کام کا آغاز کیا اور پاکستان کو ترقی کی ایک نئی جہت ڈال دیا۔ 2008ء میں 18ملین ڈالر کی ایکسپورٹ کو بڑھا کر 2012 میں 29بلین ڈالر لے جایا گیا۔اسی طرح جو اسٹاک مارکیٹ 2008 ء میں 5220 پوائنٹس پر تھی، وہ 2013 ء میں 18185 پوائنٹس پر پہنچ گئی۔ شرح سود 2008 ء میں 17فیصد تھی، جسے کم کرکے 2013 ء میں 9فیصد پر لایا گیا۔ آصف علی زرداری کی ہدایت پر پیپلز پارٹی کی حکومت نے کاشتکاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ کیا اور پاکستان پہلی مرتبہ ناصرف گندم میں خودکفیل ہوا بلکہ گندم برآمد بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ چاول اور کپاس کی امدادی قیمتوں میں اضافہ سے ریکارڈ پیداوار حاصل ہوئی۔ کاشتکاروں کو بے نظیر ٹریکٹر اسکیم کے تحت سستے ٹریکٹر مہیا کئے گئے اور زرعی ٹیوب ویلز کے لیے بجلی کے فلیٹ ریٹ مقرر کئے گئے۔ ان اقدامات کی وجہ سے دیہی معیشت میں 2008ء میں 50ارب روپے جبکہ 2013ء میں 800 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ یہ آصف علی زرداری کا پہلا دور صدارت تھا، جس میں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) کے ذریعہ لوگوں کے مالیاتی وسائل میں بہت زیادہ اضافہ کیا گیا۔ ان کے پانچ سالہ دور میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 158فیصد اضافہ ہوا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعہ 75لاکھ گھرانوں / پانچ کروڑ مستحقین کی آبرومندانہ مالی اعانت میں سو فیصد اضافہ کیا گیا اور اس ضمن میں 70ارب روپے تقسیم کئے گئے۔ اس کے علاوہ وسیلہ حق، وسیلہ روزگار اسکیموں کے ذریعہ کم آمدن لاکھوں گھرانوں کی خود کفالت اسکیم شروع کی گئی۔ بے گھر لوگوں کے لیے سوئٹ ہومز کے ذریعہ بیت المال سے ایک لاکھ 35ہزار مستحقین کی امداد کی گئی۔ توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے پانچ سالہ دور میں 3600میگاواٹ سے زیادہ بجلی سسٹم میں شامل کی گئی۔ منگلا اور تربیلا ڈیم کے توسیعی منصوبے شروع کئے گئے، جن سے مزید 4500 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش پیدا ہوئی۔ دیامر اور بھاشا ڈیم کے منصوبوں کے لیے 3.5 ارب ڈالرز کی امداد حاصل کی گئی۔ نیلم، جہلم، گومل اور ست ڈیمز پر کام شروع ہوا۔ تھرکول اور جھمپیر کے مقام پر ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے علاوہ چھوٹے بڑے متعدد ہائیڈرل پاور پروجیکٹس شروع کئے گئے۔ آبپاشی کے مختلف منصوبوں کے ذریعہ 8.5ملین مکعب فٹ پانی کا ذخیرہ کیا گیا۔ صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے پر خصوصی توجہ دی۔ 2008 ء سے 2013ء تک ایک لاکھ 5 ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ملازمتیں دی گئیں۔ سابق ادوار میں نکالے گئے ہزاروں ملازمین بحال کئے گئے، لاکھوں کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کیا گیا۔ اس کے علاوہ 5 لاکھ صنعتی کارکنوں کو 80 سرکاری صنعتوں میں 12فیصد شیئرز دے کر ان صنعتوں کا مالک بنایا گیا اور انہیں ریکارڈ طبی، تعلیمی اور تربیتی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ صدر آصف علی زرداری کے دور میں ہی درآمدی ٹیکس کی شرح کم کی گئی، جس سے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا عالمی مارکیٹ میں بہت زیادہ مہنگائی کے باوجود پاکستان میں اشیاء صرف کی قیمتوں میں نسبتا کم اضافہ ہوا جبکہ بہت سی اشیاء کی قیمتیں مستحکم رہیں۔ ان اقدامات کے علاوہ عوامی فلاح و بہبود کے کئی دیگر اہم اقدامات کئے گئے۔ بلوچستان کے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے صدر آصف علی زرداری کے دور میں آغاز حقوق بلوچستان پیکیج دیا گیا اور بلوچستان میں ترقی کا تیز تر عمل شروع ہوا۔ صوبہ سرحد کو خیبرپختونخوا کا نام دے کر اس صوبے کو ثقافتی اور تاریخی شناخت دی گئی۔ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا اور قبائلی علاقہ جات خصوصا فاٹا کے لیے آئینی اور قانونی اصلاحات کرکے ان علاقوں کے عوام کو بنیادی اور سیاسی حقوق دیئے گئے۔ ان سارے اقدامات سے پاکستان کی یکجہتی اور سلامتی کے لیے ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ ایک اور بات جس کا آج دنیا اعتراف کر رہی ہے، وہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری نے اپنے کام اور عمل پر توجہ دی۔ انہوں نے انتقام کے بجائے جمہوریت اور جمہوریت کے لیے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور پاکستان اور اس کے عوام کے لیے وہ کچھ کیا، جو ناقابل یقین تھا۔ انہوں نے اپنے خلاف ہونے والے منفی پروپیگنڈے کی کبھی پروا نہیں کی۔ آج وہ لوگ انہیں ایک مدبر اور عظیم مقصد رکھنے والا سیاست دان تسلیم کرتے ہیں، جو کبھی ان کی کردار کشی کیا کرتے تھے۔ آصف علی زرداری نے ثابت کیا کہ جو لوگ وقتی حالات میں الجھے بغیر تاریخی ادراک کے ساتھ کسی بڑے مقصد کے لیے صبر، استحقامت اور تدبر کے ساتھ کام کرتے رہتے ہیں، وہی اپنے عہد کے عوام کے ساتھ ساتھ تاریخ کے بھی حقیقی لیڈر ہوتے ہیں۔