تاجکستان میں ایشین روڈ سائیکلنگ چیمپئن شپ میں سلور میڈل حاصل کرنے کے بعد پاکستانی ٹیم بھارت کے شہر دہلی میں ہونے والی سائیکل چیمپئن شپ میں کامیابی کیلئے پرامید ہے۔ دہلی میں ہونے والی ایشین ٹریک سائیکلنگ چیمپئن شپ کے آغاز سے دو روز قبل قومی ٹیم کو بھارتی سفارتخانے ویزا جاری کیا۔ قومی ٹیم براستہ واہگہ دہلی پہنچی۔ پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن کے صدر سید اظہر علی شاہ عالمی مقابلوں میں پاکستانی ٹیم کی بہتر کارکردگی کے بارے میں پرامید ہیں۔
جنگ سے باتیںکرتے ہوئے اظہر علی شاہ کا کہنا ہےکہ پاکستان میں موجود بہترین سائیکلسٹوں کو آ گے لانے کی بھرپورکوشش کررہے ہیں اس کیلئے باقاعدگی سےکھلاڑیوں کو ٹریننگ دلوا کر عالمی مقابلوں میں شرکت کے مواقع دئیے۔ تاجکستان کے شہر دوشنبے میں ہونے والی ایشین سائیکلنگ چیمپئن شپ میں پاکستان کے علی الیاس نےسلور میڈل جیت کر قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔
دوشنبے چیلنج کپ میں ہونیوالے ماسٹرز اور ایمچر ایونٹس میں بھی پاکستان کے کھلاڑیوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ماسٹرز کیٹیگری میںخاص طور پر علی الیاس کی کارکردگی قابل ذکر تھی ۔ اس کھلاڑی کا تعلق بائیکستان سائیکلنگ اکیڈمی سے ہے اور وہ اس سے قبل بھی نیشنل چیمپئن شپ کے علاوہ کئی ایونٹس جیت چکے ہیں۔ علی الیاس 61 کلو میٹر روڈ ریس میں رنر اپ رہے اور سلور میڈل کے حق دار ٹھہرے جبکہ یو اے ای کے خالد علی نے پہلی اور تاجکستان کے خاکی موو نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔
بھارت کے شہر دہلی میں ایشین ٹریک سائیکلنگ چیمپئن شپ میں قومی ٹیم کی شرکت کا فیصلہ فیڈریشن کی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں سائیکل سواروں کا انتخاب ٹرائلزکے ذریعےسائیکلنگ ویلڈروم لاہور میں ہوئےجس میں ملک بھر کےسائیکلسٹوں نے شرکت کی تھی۔ پی سی ایف اسپورٹس مین شپ پر یقین رکھتی ہے اور پاکستان میں کھیلوں کے فروغ کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
ماضی میں پی او اے نے مختلف بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں میں پی سی ایف کو ایکری ڈیشن نہیں دیا تھا جس کی وجہ سے ہمارے سائیکلسٹ کئی اہم بین الاقوامی ایونٹس میں شرکت سے محروم رہے۔ پی او اے کو سائیکلنگ کے بارے میں اپنا رویہ بدلنا چاہیے اور پی سی ایف کو مناسب درجہ دینا چاہیے۔ پی سی ایف یو سی آئی اور اے سی سی کا ایک الحاق شدہ ادارہ ہے اور سوئٹزرلینڈ میں دستخط شدہ معاہدے کے مطابق پی او اے، پی سی ایف کو مناسب درجہ دینے کا ذمہ دار ہے۔
ہمارے کھلاڑیوں کی ٹریننگ کیلئے ملک بھر میں ویلوڈرم کا جال بچھایا جائے تاکہ کھلاڑیوں کے لئےعالمی ایونٹس کی تیاری میں آسانی ہو اس وقت ایک ویلوڈرم لاہور میں ہے جس کی حالت بہت خراب ہے جبکہ پشاور میں ویلوڈرم کا وعدہ کیا گیا ہے جس پر تاحال کام شروع نہیں ہوسکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جلد از جلد پشاور میں ویلوڈرم کی تعمیر کو حتمی شکل دی جائے ، ہم اپنے ملک میں بھی انٹرنیشنل مقابلوں کا انعقاد کرسکتے ہیں اور دنیا بھر کے سائیکلسٹوں کو اپنے ملک میں مقابلوں کیلئے مدعو کرسکتے ہیں۔
پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن ٹور ڈی پاکستان انٹرنیشنل سائیکل ریس کی بحالی کے لیے پرامید ہیں۔ ہم ملک میں بڑے ایونٹ کا کامیاب اور شاندار انعقاد کرسکتے ہیں لیکن اس کیلئے ہمیں مالی اور انتظامی امور کیلئے حکومتی اور نجی اداروں کی بھرپور رہنمائی کی ضرورت ہوگی۔ اگر ہم کسی بھی اعلیٰ سطح کے ایونٹ کے انعقاد کی تیاری کرتے ہیں تو اس کیلئے ہمیں کم از کم 100 ملین روپے کی ضرورت ہوگی۔ ہم انٹرنیشنل ایونٹ کیلئےانٹرنیشنل سائیکلنگ گورننگ باڈی کے ساتھ رجسٹر کرواتے ہیں اور پھر اسے ایک طرح کے ایشین ٹور اور رینکنگ ایونٹ کا درجہ مل جائے گا۔
اس لیے ہمیں پہلے ایونٹ کو بہترین انداز میں منعقد کرنے کے لیےاپنے تمام وسائل استعمال کرنے ہوں گے تاکہ ایک اچھا تاثر چھوڑا جا سکے۔ اگر ہم غیر ملکی سائیکل سواروں کو مفت رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کر کے پہلے ایونٹ کو شاندار انداز میں منعقد کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ اس کے روشن مستقبل کو یقینی بنائے گا۔ اگر ہم نے ایک ایونٹ کامیابی سے کرا لیا تو اس کے بعد دنیا بھر کے سائیکلسٹ پاکستان کا رخ کریں گے اور ہمارے ملک میں سائیکلنگ کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔
اب تک پاکستان سات ٹور ڈی پاکستان انٹرنیشنل سائیکل ریس کروانے میں کامیاب رہا ہے جب کہ آخری بارانٹرنیشنل ایونٹ 2011 ءمیں ہوا تھا۔ عالمی ایونٹ پشاور سے کراچی یا پشاور سے سکھر تک ہوسکتا ہے۔ یہ ہمارے پاس دو آپشن ہیں۔ اگر ہم موٹر وے کا استعمال کرتے ہیں تو ہم اسے پشاور سےسکھر تک ممکن بنایا جاسکتا ہے لیکن دوسرا آپشن یہ ہے کہ ہم اسےکراچی تک بھی بڑھا سکتے ہیں جو خود مستقبل کے اعلیٰ امکانات کے ساتھ ایک بڑا قدم ہوگا۔