• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رادھرم بچوں کی زیادتی سے متعلق رپورٹ میں کسی ذمہ دار کا تعین نہیں کیا گیا، کرائم کمشنر

لندن (پی اے) پولیس اور کرائم کمشنر نے کہاہے کہ رادرہیم بچوں کی زیادتی سے متعلق 200الزامات میں پولیس کی ناکامی کے حوالے سے رپورٹ میں کسی ذمہ دار کا تعین نہیں کیاگیا اور اس طرح متاثرین کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ پولیس کی کارکردگی سے متعلق انڈیپنڈنٹ آفس کی اس رپورٹ کے بعد کہ فورس بے بس بچوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی سائوتھ یارک شائر پولیس نے تسلیم کیاہے کہ اس نے غلطی کی اور اس نے متاثرین کو نظر انداز کیا ،اس انکشاف کے بعد کہ 1997سے2013کے دوران کم از کم 1,400 لڑکیوں کو زیادتیوں کا نشانہ بنایاگیا انھیں گروم کیاگیااور پھر ان کی خریدوفروخت کی گئی، مجموعی طور پر 47موجودہ اور سابق افسران نے اس معاملے کی تحقیقات کی تھی لیکن بدھ کو جو حتمی رپورٹ پیش کی گئی ہے اس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ اس اسکینڈل میں50سے زیادہ شکایات پر 265علیحدہ الزامات کے باوجود کسی افسرکو ملازمت سے برطرف نہیں کیا گیا۔IOPC کی تفتیش میں بتایاگیاہے کہ کس طرح افسران کمسن بچوں کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات کو نظر انداز کرتے رہے کیونکہ ان سے دیگر جرائم کو ترجیح دینے کو کہاگیاتھا اس میں بتایا گیاہے کہ بچی کی گمشدگی پر پریشان ایک والدہ کو ایک افسر نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ رادرہیم میں لڑکیوں کا زیادہ عمر کے بوائے فرینڈ کے ساتھ اس طرح چلے جانا ایک معمول ہے اور اس کی عادی ہوجائے گی ،IOPC کے ڈائریکٹر جنرل میکائیل لاک ووڈ نے اس رپورٹ میں بتایاہے کہ ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ افسران بھی اس سے نہ اچھی طرح واقف تھے اور نہ اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔اور پولیس کلچر کےتحت متاثرین کو پہچانا نہیں گیا ،IOPC نے اس وقت سائوتھ یارک شائر پولیس کو درپیش مسائل کی بھی نشاندہی کی ہے جس کے مطابق سی ایس ای رادرہیم ایک چھوٹے سے یونٹ کو جس پر متعدد ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں ڈیل کررہاتھا ،رپورٹ میں پولیس کو چوری ،گاڑیوں سے متعلق جرائم اور دیگر جرائم کو اولیت اور ترجیح دینے کاالزام عاید کیاہےاور اس بات کاکوئی ثبوت نہیں ملا کہ CSE پر کسی تشویش کا اظہار کیاگیاہو۔ IOPC کے ڈائریکٹر اسٹیو نونان نے کہا کہ ہماری رپورٹ سے ظاہرہوتاہے کہ SYP بے بس بچوں اور نوجوانوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی۔ اور رادر ہیم میں اس وقت دوسری ایجنسیاں بھی نوجوان لڑکیوں کی منظم انداز میں گرومنگ اور زیادتیوں کے واقعات کو ڈیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھیں۔ ان زیادتی کے ان واقعات میں بچ جانے اور پھر سامنے آکر گواہی دینے والے متاثرین کی تعریف کی ،انھوں نے بتایا کہ 51 افراد نے شکایات کیں جن میں 265علیحدہ علیحدہ الزامات عاید کئے گئے، تفتیش کرنے والے 47افسران میں 8 کو ایک کیس ایسا ملا میں مسکنڈکٹ کی جوابدہی ہونا چاہئے تھی اور 6ایسے معاملات ایسے پائے گئے جو شدید یاسنگین بد عملی کے زمرے میں آتے تھے۔ ان میں سے 5افسران کے خلاف انتظامی کارروائی کے حوالے حتمی تحریری وارننگ شامل تھی ، سائوتھ یارک شائر پولیس کے ایک مسکنڈکٹ کےایک معاملےکی رواں سال کے آغاز میں سماعت ہوئی تھی لیکن انڈیپنڈنٹ پینل جرم ثابت نہیں کرسکا۔بہت سے معاملات میں افسران ریٹائر ہوگئے اور انھیں انتظامی کارروائیوں کاسامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہ رپورٹ کوئی قابل ذکر سفارشات پیش نہیں کرسکی اس میں وہی باتیں دہرائی گئی ہیں جو پہلے سامنے آچکی تھیں۔سائوتھ یارک شائر کے ڈپٹی چیف کانسٹیبل ٹم فوربر نے کہا ہے کہ ہمIOPC کی رپورٹ کو پوری طرح قبول کرتے ہیں ،پروفیسر الیکسیز جے نے بھی 2014 میں ان ہی خامیوں اور باتوں کی نشاندہی کی تھی۔رپورٹ میں CSE کی ہینڈلنگ میں ناکامیوں کو اجاگر کیاگیاتھا۔انھوں نے کہاکہ ہم نے CSE کے متاثرین کو نظر انداز کیا ہم ان کی مجبوری کو سمجھنے میں ناکام رہے،اور متاثرہ فرد تصور نہیں کرسکے اس پر ہمیں شدید افسوس ہے۔وہ یقیناً ہم سے بہتر کارروائی کے حقدار تھے ،ان لڑکیوں کے لرزہ خیز بیانات سے سائوتھ یارک شائر پولیس اور بحیشیت مجموعی پوری پولیس جرائم سے نمٹنے کی نوعیت کو تبدیل کیاجارہاہےاور مجھے یقین ہے کہ آج ہم پہلے سے مختلف فورس ہیں۔

یورپ سے سے مزید