• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: پرویز فتح.....لیڈز
ہمارا وطن پاکستان ان دنوں خوفناک معاشی بحران کی دلدل میں دھنسا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ملکی کرنسی کی قدر روزانہ کی بنیادوں پر کم ہو رہی ہے، جِس سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ ممالک کے معیشت دان اور معاشی تجزیہ کار پیش گوئی کر رہے ہیں کہ پاکستان کو اپنی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فوری طور پر 5 ہزار 9 سو ارب روپے کی ضرورت ہے۔ اتنی وسیع مقدار میں سرمایہ جمع کرنے کے قابل ہونے کی واحد امید آئی ایم ایف سے ایک اور قرض حاصل کرنا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان قرض کا بندوبست نہیں کر پایا تو پاکستان دیوالیہ ہونے کی طرف جا رہا ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ، جو کہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، لینڈ و قبضہ مافیہ اور بیووکریسی پر مشتمل ہے، اِس وقت شدید اندرونی تضادات کا شکار ہے۔ عمران خان اور اُس کی پی ٹی آئی کی کولیشن حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت مجموعی طور پر نہ تو موجودہ معاشی اور سماجی بحران پر قابو پا سکے ہیں، اور نہ ہی سامراجی غلامی کی چھتری تلے اِس فرسودہ معاشی اور سماجی ڈھانچے کو قائم رکھتے ہوئے ملک کو قرض کی غلامی سے چھٹکارہ دلوا سکے ہیں۔ ان کا سارہ دارومدار سامراجی مالیاتی اداروں، بلخصوص آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو مان کر مزید قرضوں کا حصول ہے، جِس کے لیے وہ حسب معمول غیر ترقیاتی اخراجات بشمول دفاعی اخراجات میں کمی کرنے کی بجائے عوام کو بنیادی ضرورتوں کے لیے دی جانے والی محدود سبسڈیز کو ختم کر کے مالیاتی اداروں کو سیونگ دکھانا اور ملک پر قرضوں کا مزید بوجھ ڈالنا ہے، جِس سے عوام اپنے بنیادی زندگی کے حق سے محروم اور آسمان کو چھُوتی ہوئی مہنگائی تلے چیخ رہے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ اشرافیہ کی نمائندہ یہ جماعتیں اپنے تمام تر جھوٹ اور عوام کو دیے جانے والے فریب کے باوجود کس طرح حکومتی نظام اور ملکی وسائل کو بانٹ کے بیٹھے ہیں۔ اِس وقت ملکی صدر تحریکِ انصاف کا ہے، سینیٹ چیئرمین باپ، یعنی بلوچستان عوامی پارٹی کا ہے، وزیر اعظم مسلم لیگ نون کا اور وزیرِ خارجہ پیپلز پارٹی کا ہے صوبہ پنجاب کی حکومت مسلم لیگ نون کی، سندھ کی حکومت پیپلز پارٹی کی، خیبر پختونخواہ کی حکومت تحریکِ انصاف کی اور بلوچستان کی حکومت باپ کی ہے۔ مرکزی حکومت کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں میں بھی ایم کیو ایم، مولوی فضل الرحمان کی جمعیت علماء اسلام اور دیگر چھوٹی و علاقائی جماعتیں اپنا اپنا حصہ لے کر موجودہ سیٹ اپ کا حصہ بنے ہوئے ہیں یہ سب اچھے بچوں کی طرح 75برس سے ملکی اقتدار پر براجماں اسٹیبلشمنٹ، سامراجی غلامی اور ملک پر مسلط قبائیلی، جاگیرداری، سرمایہ داری نظام کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ جب بھی ملک کے 98فیصد عوام کے استحصال پر مبنی سسٹم کو خطرات لاحق ہوتے ہیں تو یہ سب اکٹھے بھی ہو جاتے ہیں اور اِس وقت سب مل کر عوام کو بےوقوف بنا رہے ہیں۔ ہمارے عوام بھی اتنے سادہ لوح ہیں کہ ایک دوسرے کو پٹواری، یوتھیا، جیالا ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آج سے آٹھ ہفتے بعد ہم ملکی آزادی کے 75 برس مکمل ہونے کا جشن منارہے ہونگے، وہ بھی اِس بات کا احساس کیے بغیر کہ تکمیلِ آزادی، یا آزادی کے ثمرات عوام تک پہنچانا تو دور کی بات ہے، ہم تو آج تک ملک میں بنیادی سیاسی ڈھانچے کو تشکیل کی ابتداء تک نہیں کر پائے آج سے 75برس قبل انگریز سامراج برصغیر سے گیا تو ہمیں آزاد کرنے کی بجائے جدید نوآبادیاتی نظام کے شکنجے میں جکڑ کردیا گیا۔ منڈیوں کی تقسیم، کمزور ممالک پر قبضے اور اُن کے وسائل کی لوُٹ اور کالونیوں کی بندر بانٹ نے دُنیا کو پہلی عالم جنگ میں دھکیل دیا تو 1917ء میں روس میں سوشلسٹ انقلاب آ گیا، جِس نے دُنیا میں کلونیل سسٹم، یعنی نوآبادیاتی نظام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحریکیں زور پکڑ گئیں اور کمزور ممالک کو اپنی آزادی اور نئے نظام کے تحت سماجی انصاف کی منزل نظر آنے لگی۔ دوسری عالمی جنگ نے تو سامراجی ممالک کی جانب سے مسلط کردہ نوآبادیاتی نظام اور دیگر ممالک میں براہِ راست قبضے کو ناممکن بنا دیا۔ سامراجی ممالک نے بدلتے ہوئے حالات نوآبادیاتی نظام کی شکست و ریخت کو بڑی مہارت سے جدید نوآبادیاتی نظام میں ڈھال لیا۔ انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد 1944ء میں یورپ کی تعمیرِ نو میں مدد کے لیے ورلڈ بینک قائم کیا، جو ان ممالک کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بازیافت کرنے اور طویل مدتی ترقی کو فروغ دینے میں مدد فراہم کرے دوسری طرف 1944 میں ہی انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، جسے عرفِ عام میں آئی ایم ایف کہتے ہیں، قائم کر لیا جو اقوام متحدہ کی خصوصی ایجنسی، بین الاقوامی مالیاتی تعاون کو محفوظ بنانے، کرنسی کی شرح تبادلہ کو مستحکم کرنے اور بین الاقوامی لیکویڈیٹی، یعنی مشکل کرنسیوں تک رسائی کو بڑھانے کیلئے کردار ادا کرے گا یوں یوں دُنیا میں نوآبادیاتی نظام کا تسلط کمزور ہوتا گیا اور سامراجی ممالک کو دیگر ممالک پر اپنے قبضے چھوڑنا پڑے، سامراج نے اپنے مالیاتی اداروں، بالخصوص آئی ایم ایف کے کردار کو سیاسی شکل دے دی۔ دوسری عالمی جنگ سے اپنی تباہ شدہ معیشت کو سہارا ملتے ہی ان ممالک نے سامراجی مالیاتی اداروں کے کردار کو بدل کر دُنیا بھر میں معاشی غلامی کا ایسا جال بچھا دیا کہ نوآبادیاتی نظام ایک نئی قوت کے ساتھ منظرِعام پر آ گیا۔ سامراجی ممالک نے ترقی پذیر ممالک کے وسائل کی لوٹ کو برقرار رکھنے اور اپنی صنعتی پیداوار کی فروخت کے لیے سابق قالونیوں اور کمزور ممالک کی معیشت کو کنزیومر اکانومی، یعنی صارفین کی معیشت تک محدود کر دیا اور ان ممالک کی رولنگ الیٹ اور اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے غیر پیداواری اخراجات کو اِس قدر بڑھا دیا کہ ان کی معیشت اپنے قدموں پر کھڑا ہونے سے معذور ہو جائے۔ دوسری طرف ان ممالک کے عوام کو کنٹرول کرنے کیلئے ریجنل تنازعات کو ہوا دے کر جنگی ماحول پیدا کیا گیا، جس سے ان ممالک کے بجٹ عوامی فلاحی منصوبوں پر صرف ہونے کی بجائے دفاعی اخراجات پر صرف کرنے، سامراجی ممالک سے اسلحہ کی خریداری اور دیگر غیر پیداواری اخراجات پر خرچ ہونے لگے پاکستان میں اِس ساری صورتحال کا لازمی اثر ملکی سیاسی ڈھانچے پر پڑا، جو قیام پاکستان کے وقت کمزور تھا، اور بھی کمزور ہوتا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آتی ہے وہ ملک پر مسلط نیم غلامانہ نوآبادیاتی نظام کا حصہ بننے کے سوا کچھ کر نہیں پاتی، کیونکہ ملک پر مسلط قبائلی، جاگیردارنہ، سرمایہ دارانہ نظام کو توڑ کر ایک عوامی فلاحی ریاست کا قیام تو اُن کے ایجنڈے میں نہیں۔ اِس لیے موجودہ نظام کا حصہ بننے میں ہی غنیمت سمجھتے ہوئے مستقبل کے انتخابات میں نئے نعروں اور جھوٹے وعدوں کے ساتھ دوبارہ انتخابات کے میدان میں اتر آتے ہیں یہی عمران خان کے بیرونی سازش کے دعوؤں کے حقیقت ہے اور یہی دوسری جماعتوں کے رہنما کرتے ہیں ورنہ عمران خان سمیت آج تک پاکستان میں کون سا حکمران سامراجی منظوری کے بغیر اقتدار میں آیا ہے جہاں تک قرضوں کا تعلق ہے تو اپنا وطن 1947ء کے بٹوارے سے لے کر 2008ء تک چھ ہزار ارب روپے کے بیرونی قرضوں کا مقروض ہوا تھا۔ اِس طرح 2008ء میں پاکستان کا ہر شخص پانچ سو روپے کا مقروض تھا، جو آج 2022ء میں بڑھ کر ہر شخص دو لاکھ ستائیس ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ پاکستان میں اصل مسئلہ کسی حکومت کی ناکامی یا معاشی بحران کا نہیں بلکہ یہ استحصالی نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور آئے روز مزید قرضے ملک کو اِس دلدل سے نکالنے کی بجائے مزید تباہی کے جانب دھکیل رہے ہیں۔ حکمران طبقے کی مراعات کا خرچہ غریب عوام کے ناتواں کندھوں پہ ڈالا جا رہا ہے۔ مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے، طلبہ سے تعلیم کا حق چھینا جا رہا ہے، غریب عوام کو صحت، روزگار، بجلی، تیل جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔ حکمران طبقے کی عیاشیاں، آئینی چالبازیاں اور دھوکہ دہی نے ملک کو معاشی تباہی کے موڑ پہ پہنچا دیا ہے، جہاں محنت کش طبقے کیلئے صرف بربادی ہی نظر آتی ہے۔ معاشی و طبقاتی تفریق میں مسلسل اضافے سے محنت کش طبقہ بدحالی کے باعث خودکشیوں پہ مجبور ہو رہا ہے اِس لیے جب تک ملک میں فرسودہ جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ، قبائلی لوٹ کھسوٹ کا ظالمانہ نظام اور اُس کے رکھوالے ملک پر قابض ہیں، عوام اِسی طرح جیئے جیئے، ووٹ کو عزت دو اور تبدیلی کے نام پر تباہی کا شکار ہو کر بھوک، افلاس، مہنگائی، بیروزگاری سے پستے اور بے گھر ہوتے رہیں گے۔ آؤ ہم سب مل کر ملک کے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات، کسانوں، مزدوروں، اساتذہ، طالب علموں و نوجوانوں، محکوم قوموں، خواتین، اقلیتوں، دانشوروں، ادیبوں و صحافیوں اور دیگر پرفیشنلز کو منظم کر کے ایک ایسی وسیع تر ترقی پسند عوامی تحریک پیدا کریں جو 75 سالہ استحصال پر مبنی اِس فرسودہ نظام کو توڑ کر معاشی ڈھانچے کی تشکیلِ نو کرے اور پاکستان میں ایک عوامی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھ سکے۔
یورپ سے سے مزید