• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے اپنی تقرری کے بعد پولیس ڈیپارٹمنٹ میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لیے 18 نکاتی ایجنڈا جاری کیا، جس میں منشیات کا صوبے سے خاتمہ اور منشیات فروش عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے علاوہ محکمہ پولیس کو کرپٹ افسران اور اہل کاروں سے پاک کرنا شامل تھا، اس سلسلہ میں آئی جی غلام نبی میمن کی جانب سے جو ہدایات جاری کی گئیں۔ 

ان میں کہا گیا تھا کہ افسران منشیات کی اسمگلنگ کو روکیں اور اس دھندے میں ملوث پولیس اہل کاروں کو بلیک لسٹ کیا جائے، جب کہ اچھی شہرت والے ایس ایچ او ٹھانوں پر تعینات کیے جائیں، سیکیورٹی کے لیے پرائیویٹ لوگوں کو دیے گئے پولیس اہل کاروں کی بھی لسٹ بنائی جائے، وہ پولیس اہل کار جو افسران کے ساتھ پرائیویٹ طور پر چلتے ہیں یا پرائیویٹ لوگ پولیس اہل کاروں کو اپنے گارڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جو کہ مبینہ طور پر لُوٹ مار اور ڈکیتی اور گاڑیاں چھیننے کی وارداتوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں، ان کا بھی احتساب کیا جائے، جب کہ دوسری جانب آئی جی سندھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کے نشہ آور گٹکا ماوا اور نارکوٹکس کی اسمگلنگ افسران کی مرضی سے ہو رہی ہے۔ 

آئی جی سندھ نے کہا کہ میں ایک مہینہ دے رہا ہوں، ایک میں منشیات کی اسمگلنگ روکی جائے، پولیس نارکوٹکس کی رپورٹ میں زیرو پرسنٹ لکھتی ہے۔ آئی جی کا کہنا تھا کہ مجھے جھوٹی رپورٹ نہیں چاہیے۔ اس سلسلے میں یہ بھی اطلاع ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ میں خفیہ طور پر ایسے منشیات فروشوں کی لسٹ بنائی جا رہی ہے جو کہ ماضی میں اس کاروبار سے منسلک تھے اور اب بھی یہ دھندہ کر رہے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ روکنے کا کام ایسا ہی ہے، جیسا کہ بیل گاڑی کو ایک مہینے کے اندر بلٹ پروف گاڑی بنا دیا جائے۔ 

تاہم یہ وقت ثابت کرے گا کہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی کوششیں کس قدر بار آور ثابت ہوتی ہیں اور اگر وہ اس میں کام یاب ہوگئے، تو بلا شبہ صوبہ سندھ ما ضی کی طرح ایک جنت نظیر صوبہ بن جائے گا۔ زر، زن اور زمین کے ذریعہ انسان کی ہمیشہ سے آزمائش ہوتی رہی ہے اور اس کے حصول کی جائز اور ناجائز خواہشات کے نتیجے میں قتل و غارت گری انسانی معاشرے کا المیہ گردانا جاتا ہے، ہوس زر کی خواہش میں انسان اس قدر اندھا ہو جاتا ہے کہ خونی رشتے بھی اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتے اور اس کے نتیجے میں زمین یا زر کی خواہش میں وہ اپنے پیاروں کے خون سے دھرتی کو رنگین کرتا ہے، گوکہ زمین وہیں پڑی رہ جاتی ہے اور قبرستان آباد ہو جاتے ہیں۔ 

اسی طرح کا ایک واقعہ باندھی کے نواحی گاؤں علی بخش جمالی میں پیش آیا، جہاں پلاٹ کے تنازع میں سنگدل بھائی نے فائرنگ کر کے اپنے سگے بھائی کو موت کی نیند سلا دیا۔ پولیس کے مطابق نادر جمالی کا اپنے بھائی عارف جمالی کے ساتھ پلاٹ کی ملکیت کا تنازع چل رہا تھا، جس نے شدت اختیار کی اور نادر جمالی نے اس کے نتیجے میں اپنے بھائی کو فائرنگ کرکے قتل کردیا۔

اس سلسلے میں مقتول کی والدہ کا کہنا تھا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا لخت جگر موت کے گھاٹ اتار دیا اور اس کو قتل کرنے والا کوئی اور نہیں، بلکہ اس کا سگا بیٹا تھا۔ ایک ماں کے لیے جس نے اپنے گود میں ان دونوں بیٹوں کو پالا تھا، زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے میں ایک بیٹے کو اسے دفن کرنا پڑا ہے، ادھر جھگڑے کس طرح گھروں کو برباد کرتے ہیں، اس کی ایک مثال گاؤں جاڑی میں سامنے آیا، جہاں گھریلو جھگڑوں سے تنگ آکر 22سالہ نوجوان نے فصلوں پر اسپرے کرنے والی زہریلی دوا پی کر اپنی زندگی کا دیا بجھا دیا۔ 

اس سلسلے میں پولیس کے مطابق بائیس سالہ نوجوان صداقت علی ڈاھری نے معمولی بات پر گھر والوں سے ناراض ہو کر زہریلی دوا پی کر خودکشی کرلی۔ متوفی کے والد نے میڈیا کو بتایا کہ صداقت گھر میں آئے دن روزوں کے جھگڑوں سے تنگ آیا ہوا تھا ،جب کہ ان کا کہنا تھا کہ اس نے کئی مرتبہ اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنی زندگی کو ختم کر دے گا، اگر گھر میں یہ لڑائی جھگڑے ختم نہیں ہوئے، لیکن اس کے والد کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ وہ انتہائی قدم اٹھا لے گا، ورنہ ہم گھر میں امن و سکون پیدا کر لیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ صداقت کی خودکشی کے بعد پورا گھر خون کے آنسو رونے پر مجبور ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ جن گھروں میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، خدا کے لیے وہ اپنے آپ کو بدل دیں اور اپنی اولاد کی خاطر گھروں میں امن و سکون پیدا کریں، تاکہ پھر کوئی صداقت اس طرح خودکشی نہ کر سکے۔ ادھر سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت پولیس کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں پولیس نے گھروں میں ڈکیتی اور چوری کرنے والی خواتین کے ایک گروہ کو سی سی ٹی وی کیمرہ کی مدد سے اس وقت گرفتار کیا، جب وہ پُرانا نواب شاہ کے عبدالحی آرائیں کے گھر میں 25 تولہ سونا اور دیگر قیمتی اشیاء چوری کر کے فرار ہو گئی تھیں۔ 

تاہم اہل خانہ کی رپورٹ پر پولیس نے ان کی سی سی ٹی وی کیمرہ کی مدد سے تصویریں حاصل کرکے محفوظ کردی اور ان کی نگرانی شروع کر دی۔ اس سلسلے میں ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ کچھ ہی روز کے بعد دونوں خواتین پھر کسی گھر میں چوری کے ارادے سے آ رہی تھیں کہ کنٹرول روم میں موجود عملے نے اس کی اطلاع بی سیکشن تھانہ کو دی، جس کے بعد پولیس نے چھاپہ مار کر دونوں خواتین کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا اور تفتیش کے بعد ان کے قبضے سے چوری شدہ 25 تولہ سونے کے زیورات اور اس کے علاوہ ایک کار اور بغیر لائسنس کا اسلحہ بھی ان سے برآمد ہوا، جب کہ پولیس نے اس گروہ کے ایک کارندے سعید احمد کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ دونوں خواتین کا تعلق پنجاب سے ہے، جب کہ

اس گروہ کے دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں اور ان کے دیگر ساتھیوں کو بھی گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ سیف سٹی پروجیکٹ کے فوائد سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ شہر میں موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے اور ان علاقوں میں جہاں سی سی ٹی وی کیمرہ لگے ہیں، موٹر سائیکل چوری کی کوئی رپورٹ نہیں کرائی گئی ہے۔ 

جب کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ضلع کے دیگر شہروں کو بھی اس سسٹم سے منسلک کرکے انہیں بھی چوری اور دیگر وارداتوں سے محفوظ بنایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیف سٹی پروجیکٹ سابق صدر آصف علی زرداری کی طرف سے نواب شاہ کے شہریوں کے لیے ایک تحفہ ہے، جو کہ انہوں نے اپنی ذاتی جیب سے خرچ کرکے یہ پروجیکٹ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا ہے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید