ایسے وقت میں کہ جب سندھ پولیس کے سربراہ سمیت سینئر افسران کی جانب سے پولیس کے اندر اصلاحات اور اسے کسی سیاسی دبائو سے آزاد کر کے ایک پروفیشنل فورس بنانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں، اسی وقت سندھ پولیس کے اہل کاروں کی جانب سے سنگین جرائم کی وارداتوں میں ملوث ہونے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
کسی بھی ملک کے شہریوں کو پولیس کو دیکھ کر تحفظ کا احساس ہوتا ہے، لیکن سندھ پولیس کے افسران اور اہل کار شہریوں کو تحفظ دینے کے بہ جائے خود جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث دکھائی دیتے ہیں۔ کراچی میں ہونے والے بم دھماکے میں پولیس کے حساس یونٹ کے اہل کار کے ملوث ہونے پر پولیس اسکروٹنی کے عمل پر سوالات کئی اٹھ گئے ہیں۔
صدر کے علاقے میں گزشتہ ماہ ہونے والے بم دھماکے کی تفتیش کے حوالے سے گزشتہ دنوں سی ٹی ڈی نے پولیس اہل کار ’’دلبر‘‘ کی گرفتاری ظاہر کی، جس کا کالعدم قوم پرست تنظیم کی قیادت سے براہ راست تعلق تھا۔ یہ اہل کار، پولیس کے حساس شعبے میں تعینات تھا اور 2016 میں دہشت گردی کے مقدمہ میں گرفتار بھی ہوچکا ہے۔ ملزم کےکرمنل ریکارڈ کے باجود اس کی اتنی حساس شعبے میں تعیناتی کیسے ہو گئی، اس نے پولیس کے اعلیٰ افسران کے سخت پریشانی پیدا کردی ہے۔
تفتیشی ذرائع کے مطابق گرفتار پولیس کمانڈو نے اہم تنصیبات کی ریکی کر رکھی تھی، ملزم ’’دلبر‘‘ نے بتایا کہ زیرو پوائنٹ پر اہم مقام اور کلفٹن میں چینی ریسٹورنٹ کی بھی تفصیلات لی تھیں۔ اس نے بتایا کہ ریکی کے لیے ان جگہوں پر رشتے دار بھرتی کرائے اور معلومات لیں، رینجرز کی گاڑی پر نیول کالونی میں حملہ کرنے میں ناکام رہا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم کے مزید ساتھی بھی پولیس میں شامل ہونے کا شبہ ہے، جن کے خلاف تفتیش کا سلسلہ تیز کر دیا گیا ہے۔ ملزم کے موبائل فون کا فارنزک کیا جائے گا۔ آر آر ایف اہل کار کی سابقہ تعیناتیوں کا ریکارڈ بھی چیک کیا جا رہا ہے۔
تاہم مزید تفتیش کے لیے جے آئی ٹی ٹیم بنائی جائے گی۔ قبل ازیں سی ٹی ڈی حکام نے ملزم کو عدالت میں پیش کیا تھا، جہاں تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزم نے ساتھی ملزمان کو معاونت فراہم کرنے کا انکشاف کیا ہے۔ ماضی میں سندھ پولیس کی کالی بھیڑوں کے حوالےسے باتیں بہت کی گئی ہیں۔ تاہم ہر بار افسران کی جانب سے ایسے واقعات کے پھرسے نہ ہونے کی یقین دہانی کے باوجود متاثرہ افسران و اہل کاروں کو دوبارہ تعینات کیا جاتا رہا ہے۔ دوسری جانب کراچی پولیس چیف نے بچے کو اغواء کر کے مبینہ طور پر تاوان مانگنے کے الزام میں ایچ او نیو کراچی صنعتی ایریا اور چار پولیس اہل کاروں کو معطل کر دیا ہے۔
کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو نے ایس ایچ او نیو کراچی انڈسڑیل ایریا انسپکٹر افتخار آرائیں کو معطل کرتے ہوئے ان کے عہدے میں تنزلی کردی۔ پولیس حُکام کے مطابق معطل ایس ایچ او کو گارڈن ہیڈ کواٹرز میں بنائی گئی بلیک کمپنی میں رپورٹ کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں ، پولیس ذرائع کے مطابق ابتدائی انکوائری میں معلوم ہوا کہ ایس ایچ او کے پرائیوٹ ساتھی عامر شاہ کے حکم پر تھانے میں تعینات چار اہل کاروں نے مبینہ طور پر بچے کو اغواء کیا اور رہائی کے عوض بھاری رقم کا تقاضا کیا۔
واقعہ کی انکوائری پولیس کے اعلیٰ افسران کے پاس آئی اور واقعہ سے متعلق پوچھے جانے پر ایس ایچ او نے بھی لا علمی کا اظہار کیا ،ایس ایس پی سینٹرل معروف عثمان کو معطل کیے گئے چار اہل کاروں کے خلاف بھی انکوائری کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں شاہ لطیف ٹاؤن تھانے کے لاک اپ کی ویڈیو سامنے آئی، جس میں پولیس اہل کاروں کی موجودگی میں لاک اپ کے اندر ملزم کے ذریعے ملزمان پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ضلع ملیر کے تھانے شاہ لطیف ٹاؤن کے لاک اپ کے اندر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا واقعہ سامنے آیا۔
تھانہ شاہ لطیف کراچی میں پولیس اہل کاروں کی موجودگی میں لاک اپ کے اندر ملزم کے ذریعہ ملزمان پر تشدد ہوتا رہا اور پولیس اہل کار دیکھتے رہے، تشدد کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لاک اپ میں قید ایک بازو کٹے ملزم سے دیگر دو ملزمان کی درگت بنوا دی گئی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں لاک اپ کے باہر شاہ لطیف تھانے میں تعینات اے ایس آئی شوکت اعوان نامی پولیس اہل کار کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
پولیس اہلکار کے سامنے ہی ایک ہاتھ سے معذور قیدی نے دیگر 2 ملزمان پر تشدد شروع کردیا اور ایک ہاتھ سے معذور قیدی نے لاتوں اور گھونسوں کی بارش کردی۔ ہاتھ سے معذور ملزم نے دوسرے ملزم کا سر لوہے کے دروازے پر دے مارا اور سر دروازے پر لگنے سے ملزم بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑا۔ دوسری جانب ملیر پولیس کے مطابق ویڈیو چار ماہ پرانی ہے، فروری میں ویڈیو میں نظر آنے والے ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا ،منشیات فروش لاک اپ کے اندر آپس میں لڑ پڑے تھے ، پولیس کی کردار کشی کے لیے دوبارہ سے یہ ویڈیو وائرل کی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق جان بوجھ کر سی سی ٹی وی فوٹیج پر موجود تاریخ کو بھی کاٹا گیا ہے۔ ایس ایس پی عرفان بہادر کے مطابق وائرل فوٹیج پر تحقیقات کر رہے ہیں۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ نے واقعے کا نوٹس لے لیا اور اس میں ملوث افسران و اہل کاروں کے خلاف سخت ایکشن کی ہدایات جاری ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایات پر ایڈیشنل آئی جی کراچی کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے اور ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کو انکوائری کرکے کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے مطابق جن پولیس اہل کاروں نے واقعے میں غفلت برتی یا ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ میں تعینات انسپکٹر شعیب قریشی کے خلاف ڈی آئی جی سی ٹی ڈی سید خرم علی کے حکم پر انکوائری شروع کر دی گئی ہے،ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ بلال کالونی سے دو شہریوں کو اغواہ کیا، سی ٹی ڈی انسپکٹر شعیب قریشی اور ٹیم نے حراست میں لیے گئے افراد سے رشوت لی، حراست میں لیے گئے شہری فیضان کو رشوت لے کر چھوڑ دیا گیا، جب کہ سعد نامی شہری کو چھوڑنے کے لیے 25 لاکھ رشوت طلب کی گئی۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے اپنے پہلے اجلاس میں کہا تھا کہ امن وامان کے حالات پر کنٹرول اور عوام کے جان ومال کا تحفظ ہی ہمارا اصل کام ہے اور اس حوالے سے کوئی بھی غفلت یا لاپروائی ہر گز برداشت نہیں کی جائےگی۔ انہوں نے کہا تھا کالی بھیڑوں کی محکمہ پولیس سندھ میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور ایسے افسران کو آئندہ کوئی بھی اہم ذمےداری نہیں دی جائےگی۔
تاہم تواتر سے پولیس افسران اور اہل کاروں کے جرائم میں ملوث ہونے کے واقعات سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پولیس کی تربیتی نظام اور سلیکشن پراسز میں اب بھی کئی بنیادی خامیاں موجود ہیں۔ پولیس اہل کاروں کی مانیٹرنگ کا کوئی قابل ذکر نظام موجود نہیں ہے۔
پولیس اہل کار جب دل کرتا ہے ، پولیس کی گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں اور جرائم کی وارداتیں کر کے واپس آ جاتے ہیں۔ پولیس موبائلز کے اندر ٹریکر نصب کیے گئے تھے، تاکہ یہ معلوم ہو کہ کون سے پولیس موبائل کس موبائل افسر کے پاس ہے اور وہ کس جگہ موجود ہے۔
تاہم ایک سال سے زائد عرصہ گزر گیا، پولیس موبائلز کے اندر سے ٹریکرز ہٹا دئیے گئے ہیں۔ پولیس بھرتیوں کے دوران اسکروٹنی کے عمل کو شفاف بنانے کے ساتھ محکمہ جوائن کرنے کے بعد بھی ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے کوئی میکینیزم بنانا پڑے گا، تاکہ محکمے کو بدنام کرنے والی کالی بھیڑوں کا صفایا کیا جاسکے اور انھیں ان کے جرائم کی سزا مل سکے۔