• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمر چند

ایک ذہین نوجوان وہ ہوتا ہےجو روایتی فکر سے ہٹ کر سوچتا ہے بلکہ اس میں اس فکر کو توڑنے اور نئی اعلی فکر وضع کرنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور زندگی کو دیکھنے کا ان کا نظریہ بے نظیر ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک نوجوان کا واقعہ قارئین کی نذر ہے۔

ایک بڑی کمپنی کو منیجر کی پوسٹ کےلئے انتہائی قابل شخص کی تلاش تھی۔انٹرویو کے لیے کئی نوجوان آئے۔ پینٹ کوٹ پہنے ہوئے اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں کے درجنوں انٹرویوز کے باوجود کوئی بھی امیدوار یہ نوکری حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا ، اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ کمپنی کا مالک انٹرویورز کے پینل میں خود بھی بیٹھا تھا اور جب پینل کے دیگر ممبران اپنے سوالات مکمل کر لیتے تو مالک آخر میں ہر امیدوار سے یہ سوال ضرور پوچھتا کہ ایک اچھے منیجر کی سب سے خاص بات کیا ہوتی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کوئی امیدوار کہتا کہ ایک اچھے منیجر کو وقت کا پابند ہونا چاہیے، کسی کا جواب ہوتا، اسے پروفیشنل ہونا چاہیے، کوئی کہتا ہنر مند ہونا چاہیے اسی طرح کوئی تجربہ کاری، کوئی ذمہ داری تو کوئی ایمانداری کو اچھے منیجر کی پہچان بتاتا، تاہم کمپنی کا مالک ان میں سے ہر جواب پر غیر تسلی بخش انداز میں خاموش ہو جاتا اور امیدوار کو جانے کا کہہ دیتا، پینل کے دیگر ممبران ایک تو انٹرویو کرکر کے تنگ آچکے تھے دوسرا وہ اس تجسس میں تھے کہ آخر کمپنی مالک کے نزدیک ایک اچھے منیجر کی سب سے خاص بات کیا ہو سکتی ہے، انھوں نے خود بھی اس سوال کا جواب کمپنی مالک سے جاننے کی کوشش کی لیکن مالک نے اپنا مطلوبہ جواب کسی پر ظاہر نہیں کیا اور پینل کو انٹرویوز جاری رکھنے کو کہا۔

ایک سادہ سے کپڑوں میں ملبوس اور عام سے حلیے والے نوجوان کی جب باری آئی تو اسے دیکھ کر پینل کے ممبران طنزیہ انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں کہ اتنے اعلٰی تعلیم یافتہ اور اپ ٹو ڈیٹ نوجوان یہ انٹرویو پاس نہیں کر پائے تو یہ کہاں منتخب ہو پائے گا اور اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اسے اس سوال کا جواب معلوم ہو جو باقی امیدواروں کی ناکامی کی وجہ بنا۔ خیر نوجوان نے پینل کے سوالات کے انتہائی اعتماد سے جواب دیے،جس کے بعد کمپنی کے مالک نے اپنا سوال پوچھا' ، ’’جینٹل مین، یہ بتائیں کہ ایک اچھے منیجر کی سب سے بہترین کوالٹی کیا ہوتی ہے؟‘‘

نوجوان نے سوال سن کر کچھ دیر کے لیے سر جھکایا اور پھر کمپنی مالک کی طرف دیکھ کر پورے اعتماد سے مسکرا کرکہا 'سر، اچھا منیجر وہی ہے جو کمپنی کے معاملات کو کمپنی کے مالک سے بھی زیادہ بہتر جانتا اور سمجھتا ہو اور جس کے ہوتے ہوئے مالک برائے نام مالک کہلائے۔‘‘

یہ عجیب و غریب جواب سن کر پینل ممبران چونک گئے، وہ نوجوان کی اس بدتمیزی اور گستاخانہ لہجے پر تلملا اٹھے اور اس پر 'شٹ اپ اور ماینڈ یور لینگویج، جیسے کلمات کی بوچھاڑ کر دی. تاہم کمپنی مالک نے ممبران کو خاموش رہنے اور انتظار کرنے کو کہا، پھر مسکرا کر نوجوان سے مخاطب ہو کر کہا،’’ ' بالکل ٹھیک جواب دیا آپ نے، لیکن یہ بات آپ نے کس سے سیکھی ؟‘‘ پینل ممبران حیرت سے ایک دوسرے کے منہ دیکھنے لگے۔

نوجوان نے بد دستور خود اعتمادی سے جواب دیا۔’’ 'سر، اپنے گھر سے اور اپنے والدین سے‘‘۔

نوجوان نے باری باری ممبران کی جانب دیکھتے ہوئے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا،ہم بہن بھائیوں نے اپنے والد کو گھر کے سربراہ کا درجہ دیا۔ ایک منٹ کے لئے مان لیجیے کہ وہ کمپنی مالک تھے۔گھر بھر کی کفالت ان کی ذمہ داری تھی لیکن گھر کو چلانا کس منیجر کا کام تھا۔کس کے کپڑے کہاں ٹانگے ہیں، کس کے جوتے، کتابیں کہاں رکھی ہیں، کس کے کھلونے کہاں پڑے ہیں، کپڑے گندے ہو گئے تو کون دھوئے گا، استری کر کے کون دے گا، سب کے من پسند کھانے بنانا، پھر برتن دھونا کس کی ذمہ داری ہے، پھر گھر بھر کی صفائی، جھاڑو پونچھا، فرش کی دھلائی، رات سب کو سلاکر پھر سونا، صبح سب سے پہلے جاگ کر سب کو جگانا، ایک ایک کو کھلا پلاکر تیار کر کے اسکول بھیجنا، کپڑے پھٹ جاتے تو پیوند لگانا، بٹن ٹوٹ جاتا تو ٹانکا لگانا، بیمار پڑ جاتے تو پرہیز والا کھانا اور دوائی دینا، عید شادیوں، سیر سپاٹے، رشتہ داروں سے ملنے جانے کے لئے سب کی تیاری، گھر میں دعوت پر درجن بھر مہمانوں کا کھانا بنانا، سر میں تیل ڈالنا، بخار میں ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں رکھنا، مالش کرنا، کبھی کھیر، کبھی حلوہ، کبھی گجریلا کبھی کھچڑی، کبھی زردہ، کبھی شربت، کبھی ابلے ہوئے انڈے، اور نہ جانے کیا کیا کچھ. یہ سب مینج کرنے والی میری امی تھیں ، وہ شاندار منیجر تھیں، کبھی بھول کر ہم ابو سے پوچھ لیتے کہ ہماری فلاں چیز کہاں رکھی ہے تو ڈانٹ کر کہتے '،’’ارے بھئی مجھے کیا معلوم، اپنی امی سے پوچھو‘‘ اور اس سے بھی مزیدار بات یہ کہ خود ابو کا موبائل، پرس، کپڑے، جوتے، موٹر سائیکل کی چابی حتیٰ کہ دفتر کی فائلیں تک امی کے پاس ہوتی تھیں۔ 

تب ہم اکثر ابو کو چھیڑتے ہوئے کہا کرتے تھے، آپ تو بس برائے نام ہی گھر کے مالک ہیں، آپ سے کہیں زیادہ تو امی گھر کو جانتیں اور سمجھتی ہیں اور ابو بھی ہنس کر اعتراف کرتے کہ امی کے ہوتے ہوئے انھیں کبھی کسی بھی بات کی فکر نہیں ہوتی اس لیے وہ گھر کے برائے نام مالک ہی ٹھیک ہیں بس سر اس لیے میرے نزدیک ایک اچھے منیجر کی یہی تعریف ہے‘‘۔

کمپنی مالک نے تحسین آمیز نگاہوں سے نوجوان کو دیکھا اور پھر پینل سے مخاطب ہوکرکہا،’’آپ سب نے اس نوجوان کا جواب سن کر اسے ڈانٹ دیا تھا. لیکن اب جبکہ اس نے اپنے جواب کی تشریح کی ہے تو مجھے امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس کے جواب کے پیچھے اس کا مشاہدہ بھی ہے، عمر بھر کا تجربہ بھی اور ایک ٹھوس نظریہ بھی۔ 

مجھے بھی ایسا ہی منیجر چاہیے جس کے ہوتے ہوئے میں برائے نام مالک اور بے فکر شخص بن جاؤں‘‘۔ یہ کہہ کر کمپنی مالک نے نوجوان کو منیجر کی پوسٹ کےلئے منتخب ہونے پر مبارک باد دیتے ہوئے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا اور پینل کے ممبران کھڑے ہو کر تالیاں بجانےلگے۔

اس کہانی کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ گھر کا ماحول بہترین درسگاہ ہے، دوسرے یہ کہ دوسروں کو قائل کرنے کے لیے رٹی رٹائی اور گھسی پٹی باتوں کا سہارا لینے کی بجائے سادہ الفاظ عملیت پسندی اور فطری مشاہدات پر مبنی سوچ سے بھی کام لینا چاہیے۔