نوجوانوں میں اتنی بے حسی، بے رحمی، وحشیانہ پن، سفاکی، تکبر اور ضد جیسی صفات کہاں سے آگئیں ہیں۔ لمحہ بھر میں انسانیت کا قتل، عزتوں کی پامالی اور دیگر جرائم کرکے فاتحانہ انداز میں زندگی کی بھیڑ میں گم ہوکر اور بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ پھر کسی نئے شکار کی تلاش میں نکل جاتے ہیں اور ہمارے ادارے معاشرے میں قتل اور دیگر وارداتوں کو روزمرہ کی معمولی بات سمجھ کر اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں ’’جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
گزشتہ دنوں شہر کراچی میں ایک مرتبہ پھر ایک نوجوان طالب علم کو ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلادیا۔ موقف جو سامنے آیا کہ چند نوجوان موٹرسائیکل اپنے کرتب دکھا رہے تھے کہ اچانک نوجوان طالب علم کی کار کے سامنے آکر گر پڑا۔بڑا حادثہ ہوتے ہوتے بچ گیا کار ڈرائیو کرنے والے نوجوان طالب علم نے انہیں سرزنش کی۔ جس پر موٹرسائیکل نوجوان مشتعل ہوگئے۔ فون کر کے اپنے عزیزوں کو بلا لیا بجائے اس کے کہ وہ معاملہ رفع دفع کرتے انہوں نے اس نوجوان کو فائر کر کے اس کی زندگی کا چراغ ہی گل کردیا ۔ہمارا المیہ صرف یہ نہیں ہے کہ یہاں علم وایمان کے چراغ ایک ایک ہوکر بجھتے چلے جا رہے ہیں، بلکہ اندھیروں کے سوداگروں نے روشنی کے مینار گرانے کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔
ایک جان خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب، طبقے، فرقے سے ہو وہ ہر خاندان کے لیے عظیم سرمایہ حیات ہوتی ہے اس کا قتل انسانیت کا قتل ہے سمجھ سے بالاتر ہے کہ معمولی سرزنش پر طیش میں آنا اور ہاتھا پائی تو دور کی بات فوراً فائرنگ کرکے کسی کی جاں لینا شرم آتی ہے، ایسے نوجوانوں اور ان کی سوچ پر۔ امیر زادے دنداناتے پھر رہے ہیں انہیں بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔
کراچی جیسے شہر میں قتل، اغوا، ڈکیتی، موبائل چھینے کی وارداتوں میں حیرت انگیز طور پر بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ جن میں نوجوانوں کی تعداد نمایاں ہے لیکن ان واقعات کی کوئی روک تھام نہیں ہے۔ والدین سے لے کر دیگر ادارے تمام ایسے نوجوانوں کی سرگرمیوں کو قابو کرنے میں ناکام ہیں، اسی لیے نوجوان نسل کے مخصوص ٹولے نئے نئے ایڈونچرز کی تلاش میں مسلسل جرائم کی طرف راغب ہورہے ہیں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بازاروں، مارکٹوں، سڑکوں، انتظار گاہوں میں، تدریسی مقامات اور تفریحی مقامات کے آس پاس موٹرسائیکلوں پرمجرمانہ حرکات و سکنات کرتے نظر آتے ہیں۔اس طرح کے واقعات تقریباً پورے شہر میں رونما ہورہے ہیں لیکن کچھ عرصہ سے پوش علاقے اس کی زد میں آئے ہوئے ہیں نوجوان نسل آپس کی رنجشیں، چپقلش اور ذاتی عناد کے لیے سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جس میں اغوا اور قتل جیسے واقعات بھی جنم لیتے ہیں اور پھر یہی نوجوان آگے چل کر عادی مجرم بن جاتے ہیں۔
اگر اجتماعی طور پر تجزیہ کیا جائے تو ہماری نوجوان نسل کا تقریباً 20% فیصد نوجوان مسلسل برائیوں اور گمراہی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس کے اثرات ان نوجوان نسل نو اور دیگر نوجوانوں پر بھی پڑ رہے ہیں جو واقعی سنجیدگی کے ساتھ اپنی تعلیم، مختلف شعبہ جات اور روزمرہ زندگی میں مصروف عمل نظر آتے ہیں ہمارے معاشرے میں کیا جارہا ہے کہ وہ تنزلی کی طرف جارہا ہے کیوں نہ وہ احتساب نہیں کرنا چاہتے بلکہ دوسرے نوجوانوں کو بھی ترغیب دے کر برائی کی طرف راغب کردیا ہے۔ نسل نو جن کی ذہنی صلاحیت ابھی پختہ بھی نہیں ہوتی وہ جلدی یہ اثر قبول کرتے ہیں اور پھر مختلف جرائم کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں جبکہ والدین ان باتوں اور ان کی حرکات سے بے خبررہتے ہیں ۔
وہ کیا محرکات ہیں جن کی وجہ سے نوجوان نسل اس دھانے پر پہنچی ہے۔
1-تربیت کا فقدان، 2-والدین کے اختلافات 3-علم کی کمی4-تعلیم ڈگری کے لیے 5-اخلاقی اقدار کی پامالی 6-والدین سے نافرمانی 7-ادب و آداب سے غافل 8-رشتوں کی بے حرمتی 9-ماحول کے اثرات10-عقل کُل سمجھنا11-معاشی بدحالی۔
اب ایسے بھی واقعات کی خبریں زیادہ نظر آنے لگی ہیں کہ دوست کے ہاتھوں دوست کا قتل اس طرح سنگین نوعیت والے واقعات یہ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں نوجوان اتنے بے رحم کیسے ہوسکتے ہیں یہ اشتعال انگیزی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشتعل ہونا اور خطرناک اقدام اٹھنا آخر اس کی روک تھا م کوئی کیوں نہیں کر رہا۔
نوجوانوں سے بس یہی کہنا ہے کہ صبر و برداشت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، اگر کسی بات سے یا رویہ سے دل شکنی ہوئی ہے تو معافی کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں۔ والدین، اساتذہ اور حکومتی اداروں سے گزارش ہے کہ وہ بچوں اور نوجوان نسل نو کی حرکات پر نظر رکھیں ان کی کیا کیا مصروفیات ہیں کن دوستوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے اس کا جائزہ لیں۔