• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقصیٰ منوّر ملک، صادق آباد

اسلامی سال کا آخری مہینہ اِن دنوں ہم پر سایہ فگن ہے۔ اسے حج اور قربانی کا مہینہ کہا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اِس کے پہلے عشرے کی بہت فضلیت بیان ہوئی ہے۔ مفسّرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی89 ویں سورہ، سورۃ الفجر کے آغاز میں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے، اُس سے مُراد ماہِ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔ اِسی طرح سورۂ حج میں جن مقرّرہ دنوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کا حکم ہے، علمائے کرام کے مطابق، اُن دنوں سے بھی عشرۂ ذی الحجہ ہی مُراد ہے۔

احادیثِ مبارکہؐ میں اِن ایّام کو عبادات میں گزارنے کی ترغیب دی گئی ہے۔حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کو عشرۂ ذی الحجہ میں کیے گئے نیک اعمال، باقی دنوں میں کیے گئے اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘صحابۂ کرامؓ نے پوچھا’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا اللہ کے راستے میں جہاد سے بھی (اِن دنوں کی عبادت افضل ہے؟)‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’’ (جی ہاں) اللہ کے راستے میں جہاد بھی برابر نہیں ہوسکتا، مگر وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جان و مال سمیت نکلے اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹے۔ (یعنی شہید ہوجائے، تو اُس کی فضیلت زیادہ ہے)۔‘‘ (بخاری، ترمذی)۔

اِسی طرح کی ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے بھی مروی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اِن ایّام کو ذکر و اذکار میں گزارنے سے متعلق ارشاد فرمایا،’’ اللہ کے نزدیک ذی الحجہ کے دس دنوں سے زیادہ عظمت والے کوئی دن نہیں اور نہ ہی ان دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کا عمل پسندیدہ ہے۔ لہٰذا، تم اِن دنوں میں تسبیح، تہلیل (لا الہ الا اللہ)، تحمید (الحمدللہ) اور تکبیر (اللہ اکبر) خُوب کثرت سے پڑھا کرو۔‘‘(المعجم الکبیر)۔

اِس ماہِ مبارک میں روزہ رکھنے کی بھی بہت فضلیت بیان کی گئی ہے۔ ترمذی شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اِن ایّام میں سے (یعنی ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں) ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور رات کا قیام شبِ قدر کے قیام کے برابر ہے۔‘‘یومِ عرفہ یعنی 9 ذی الحجہ کے روزے کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے،’ مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرما دے۔‘‘

یہاں یہ بات واضح رہے کہ یکم ذی الحجہ سے9 ذی الحجہ تک تو روزہ رکھنا مستحب ہے، لیکن عید کے تینوں دنوں میں روزہ رکھنا شرعاً ممنوع ہے۔ اِسی طرح عید کی رات، یعنی چاند رات بھی بہت فضیلت کی حامل ہے اور اِس رات کو فضول کاموں میں گزارنا سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ’’ جو شخص دونوں عیدوں کی رات (یعنی چاند رات) کو اللہ تعالیٰ سے ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے عبادت کرے، اُس کا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا، جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے۔(سنن ابنِ ماجہ)۔

گو کہ اِس بابرکت عشرے کے چند روز گزر چُکے ہیں، مگر ہمارے پاس اب بھی موقع ہے کہ اِس عشرے کے باقی دنوں میں عبادات کے ذریعے اپنے رب کی رحمتوں سے اپنا دامن بَھر لیں۔ اِن قیمتی ایّام کی اہمیت و فضیلت کا ادراک کرتے ہوئے اپنا شیڈول کچھ اِس طرح ترتیب دے لیں کہ عبادات کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت میّسر آسکے۔

یہ ماہِ مقدّس حج کا مہینہ ہے، جو اسلام کا ایک رکن ہے۔ حج ایک مالی، بدنی اور اجتماعی عبادت ہے، جس میں مسلمان دنیا بھر سے’’ لبیّک اللھم لبیّک‘‘ کی صدائیں بلند کرتے اللہ کے گھر کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بیتُ اللہ تعمیر کیا، اُس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُنہیں حکم دیا’’لوگوں میں یہ اعلان فرما دیجیے کہ وہ اس گھر کے حج کے لیے آئیں، پیدل، سوار اور دور دراز (اور دنیا کے چپّے چپّے سے) لوگ یہاں پہنچیں۔‘‘چناں چہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے ایک پہاڑ پر چڑھ کر یہ اعلان فرمایا کہ’’اے لوگو! یہ اللہ کا گھر ہے، اللہ کی عبادت کے لیے یہاں آئو۔‘‘یہ اعلان آپ علیہ السّلام نے پانچ ہزار سال پہلے فرمایا تھا۔ 

آج کوئی عمرہ یا حج ادا کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تو وہ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اُس اعلان کا جواب دیتے ہوئے یہ کہتا ہے’’لبیّک اللھم لبیّک۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر حج فرض کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’اللہ کے لیے بیتُ اللہ کا حج کرنا ہر اُس شخص پرواجب ہے، جو وہاں تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔ اور جو شخص انکار کرے، تو اللہ تعالی سارے جہاں سے بے نیاز ہے۔‘‘(سورۂ آلِ عمران) صحیح مسلم کی ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا،’’اے لوگو ! تم پر حج فرض کیا گیا ہے ۔‘‘

اِسی طرح آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ’’جس آدمی نے حج کیا اور اس میں نہ تو کسی شہوانی اور فحش بات کا ارتکاب کیا اور نہ ہی اللہ کی نا فرمانی کی، تو وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو کر واپس آئے گا، جیسا اُس دن تھا، جس دن وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔‘‘ہم میں سے بہت سے ایسے ہوں گے کہ جنھیں اللہ تعالیٰ نے ایسے وسائل فراہم کیے ہیں کہ وہ اللہ کے گھر کی زیارت اور یہ فریضہ ادا کرسکتے ہیں، مگر اس فریضے کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہ ہونے، سستی یا دیگر مصروفیات کے سبب ہر سال،اگلے سال پر ٹالتے جاتے ہیں حالاں کہ ہمیں تو اگلے سانس تک کا علم نہیں۔ ایسے افراد کے لیے آج موقع ہے کہ وہ تمام تر مصروفیات پسِ پُشت ڈالتے ہوئے اگلے برس کے لیے ابھی سے حج کی تیاریاں شروع کردیں۔