انیسویں صدی کے آغاز میں مشہور ریاضی دان لاپلاس ڈی پیٹر نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس کائنات کی یہ منظم تشکیل ریاضیاتی اصولوں پر طے پائی ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ کائنات کے آغاز کے وقت مادّے کے بنیادی ذرّات کسی خاص محد رات، ترتیب و تنظیم پر یکجا ہوئے تھے، جس کی بناء پر کائنات میں نظم و اتحاد اور حسن ترتیب نظر آتی ہے۔ ان کا خیال تھا اگر ان بنیادی ذرّات، ایٹموں وغیرہ کی پوزیشن اور ولاسٹی معلوم ہو جائے تو وہ کائنات کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں بڑے اہم انکشافات کر سکتے ہیں۔
لاپلاس اپنے اس دعویٰ کو ثابت تو نہ کر سکے اور نہ ہی کوئی ایسی مساوات معلوم ہو سکی جو کائنات کے اب تک چھپے ہوئے اسرار اور سربستہ رموز سے پردہ اٹھا سکے اور انہیں افشاں کر سکے۔
ان کا یہ دعویٰ ایک صدی تک سائنس کی دنیا میں گردش کرتا رہا اور ان کا یہ نظریہ بالخصوص ریاضی دانوں کو پریشان کئے ہوئے تھا۔ لیکن بیسویں صدی کے اوائل میں اس الجھے ہوئے اور پیچیدہ مسئلے کو دقیق ریاضیاتی مساواتوں کے ذریعے حل کرلیا گیا اور اس ادھیڑ پن میں مصروف تھے۔ آئن اسٹائن!
یہ ایسے غیر معمولی مفروضات اور امکانات پر مبنی ہے جو کائنات کی تشکیل کے یکسر نئے تناسب کو زیرنظر رکھتے ہوئے وضع کئے گئے
ڈاکٹر البرٹ آئن اسٹائن جن کی فکر نے دنیا کو بدل ڈالا، انہوں نے متحدہ میدانی نظریہ ٔدنیا کے سامنے بالکل ایک نئے، الگ، انوکھے انداز اور سب سے بڑھ کر ریاضیاتی ثبوت کے ساتھ پیش کیا۔ ان کے نظریئے کے مطابق کائنات میں موجود چار عظیم توانائیوں کا ماخذ دراصل ایک ہی قوت ہے اور اگر وہ قوت کونسی ہے یہ معلوم ہو جائے تو کائنات کا نقطہ آغاز معلوم ہو سکتا ہے، گوکہ یہ مسئلہ بھی اپنے اختتام کو اب تک نہیں پہنچا ہے۔
لاپلاس اور آئن اسٹائل کے نظریات میں ویسے تو تفاوت ہے لیکن بنیادی طور پر دونوں ہی ریاضی کے اصولوں کے اطلاق کرکے اس کائنات کی تشکیل اور اس کے سربستہ راز کو ظاہر و درست ثابت کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور درحقیقت ایسا ہی ممکن ہے۔
سر آئزک نیوٹن نے کائناتی نظام کی طویل تشریح کی جو ہر قسم کی حرکت کے اصولوں پر بحث کرتی ہے۔ طبیعیات میں آنے والے ان نئے قوانین کی ضرورت برسوں سے محسوس کی جا رہی تھی۔ ان نئے قوانین کی مزید وضاحت کے لئے ریاضی میں بھی نئی ترقیوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ نیوٹن میکانبات کے مطابق وقت ایک تناسب کے ساتھ ماضی سے مستقبل کی جانب سفر کرتا ہے۔ ہماری دنیا ساکن و جامد نہیں ہے بلکہ ہرپل تغیرات سے دوچار ہوتے ہوئے مسلسل مائل بہ ارتقاء ہے لیکن آج یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مستقبل کا کوئی وجود نہیں کوانٹم تھیوری کی آمد نے نیوٹن کی میکانیات کی وسیع اور مضبوط عمارت کو مسمار کر دیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر خلا اور وقت کا ماڈل کیسا ہے؟ 1905ء میں آئن اسٹائن نے اسپیس ٹائم اور موشن کے نئے نظریات متعارف کرائے جن کی اشاعت ’’مخصوص اضافیت‘‘ کے نام سے عمل میں آئی۔ اس تھیوری نے اسپیس اور ٹائم کے چند نہایت اہم اور معتبر ترین مفروضات و نظریات کو چیلنج کیا، اس وقت سے اب تک کئی تجربات کے ذریعے لیبارٹری میں ان کی صداقت ثابت کی جاچکی ہے اور اب اسے طبیعات دانوں کی مکمل تائید حاصل ہو چکی ہے۔
مخصوص نظریہ اضافیت کی شاندار پیش گویوں میں اینٹی میٹر (ضد مادّہ) کا وجود وقت کا پھیلائو (TIME DILATION) اسپیس اور ٹائم کی لچکدار خصوصیت، کمیت و توانائی کی مساوات اور توانائی کے ذریعے مادّے کی تشکیل وغیرہ شامل ہیں۔ اپنے اسی کام کو آگے بڑھاتے ہوئے آئن اسٹائن نے 1915ء میں عمومی نظریہ اضافیت وضع کی گو کہ ابھی اس کی درستی کے واضح ثبوت تجرباتی طور پر حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔ اس لئے ان پیش گویوں کو تصوراتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اسپیس اور ٹائم میں موجود خم، بلیک ہول، محدود مگر بغیر بائونڈری کی کائنات کا امکان حتی کہ بے وجود اسپیس اور ٹائم کا امکان وغیرہ۔
نظریہ اضافیت ایسے غیر معمولی مفروضات اور امکانات پر مبنی ہے جو کائنات کی تشکیل کے یکسر نئے تناسب کو زیرنظر رکھتے ہوئے وضع کئے گئے۔ نیوٹن کے نظریات کے مطابق کسی بھی ایک خاص لمحے دنیا کی مکمل طور پر تشریح کی جا سکتی۔ ہم لاتعداد اشیاء کے متعلق تصور کر سکتے ہیں۔ دیگر سیاروں، ستاروں، کہکشائوں وغیرہ کا اور کسی بھی مخصوص وقت (مثلاً موجودہ لمحے میں) ان کا کسی خاص حالت میں موجود ہونا بھی عین ممکن ہے۔
وقت کے اس مقبول عام نقطہ نظر کا زوال دراصل ایک عجیب و غریب امر کے انکشاف کے بعد آیا AQUILA اور SAGITTA کے ستاروں کے جھرمٹ میں ایک نہایت پراسرار عجیب جرم فلکی دریافت ہوا ،جس کو جڑواں پلسر ’’BINARY PULSER‘‘ کا نام دیا گیا جو کہ دو ستاروں پر مشتمل ہے جن کے مدار آپس میں ایک دوسرے سے بے حد نزدیک ہیں۔ ان ستاروں کو اس قدر ٹھوس اور جڑا ہوا قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان کے ایٹم لامتناہی کشش کے زیراثر آپس میں حدود حد درجہ پیوست ہیں۔ اس لئے یہ ستارے محض نیوٹرون پر مشتمل ہیں۔
اس زبردست مضبوطی کے باعث یہ ستارے بمشکل چند میل کے رقبے پر محیظ ہیں اور ان کی گردش کی رفتار بے حد تیز ہے۔ ایک سیکنڈ میں کئی مرتبہ اپنا چکر مکمل کرتے ہیں۔ ان ستاروں کے اطراف مقناطیسی میدان موجود ہے۔ ستارے اپنی ہر گردش کے دوران ریڈیائی لہریں خارج کرتے ہیں جنہیں زمین پر پہنچنے کے بعد سمعی لہروں میں تبدیل کر کے ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ نیوٹرون ستارے کی باضابطہ گردش جانچنے کے لیے ان ریڈیائی لہروں کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ لہریں ایک بالکل درست گھڑی کا کام بھی دیتی ہیں۔ گراف پر ان لہروں کی باقاعدگی وقت کے متعلق پہلے سے رائج شدہ نظریات کو نامناسب ثابت کرتی ہے۔
ایک صدی پہلے تک اس قسم کے مشاہدات ناقابل یقین اور وہم سمجھے جا تے تھے لیکن آج یہ طبیعیات کی وسیع عمارت کا اہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 1905ء میں آئن اسٹائن نے نظریہ اضافیت سے ان اثرات کی نشاندہی کی تھی اور یوں ریاضی کے ساتھ شاندار نظریات اور تجربات کے حسین امتزاج سے ایک غیر معمولی اور ناقابل یقین نتیجہ اخد کیا گیا ،جس کے مطابق روشنی کی رفتار ہر ایک کے لئے ہر جگہ یکساں ہے اور یہ ہر صورت میں یہی رہے گی۔ (3X108 M/SEC) چاہے روشنی کا منبع یا روشنی حاصل کرنے والا کتنی ہی رفتار سے سفر کیوں نہ کر رہا ہو۔
اس زمانے میں اس عجیب اعلان کے پیچھے جو وجہ کار فرما رہی، وہ یہی تھی کہ طبیعیات داں روشنی کے سگنل کے ذریعے زمین کی رفتار معلوم کرنے میں ناکام ہو چکے تھے۔ درحقیقت ’’زمین کی رفتار‘‘ کی اصطلاح ہی بے معنی ہے ،کیوںکہ ہم صرف اضافی یا متعلقہ رفتار معلوم کرسکتے۔ یہ بھی آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت میں شامل ہے کہ تمام حرکات اضافی ہیں۔ کوئی شئے مطلق حرکت میں نہیں ہے۔ بالفرض کوئی چیز حکومت کرتی ہوئی دور جا رہی ہے اور دوسری چیز اس کا تعاقب کرنا شروع کرتی ہے۔ رفتہ رفتہ دونوں کے درمیان فاصلہ گھٹنا شروع ہوگا۔
اگر دوسرے کی رفتار پہلے سے کافی زیادہ ہے تو دوسری نئے آگے نکل جانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ پس یہ بات تو طے ہے کہ دونوں حرکت پذیر اشیاء کی اضافی رفتار (RELATIVE SPEED) کا دار و مدار ان میں سے کسی ایک کی رفتار کی حالت پر ہے لیکن اب اگر وہ حرکت کرتی ہوئی شئے روشنی کی ایک لہر ہے تو اسی پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔ گو کہ یہ قابل یقین معلوم ہوتا ہے لیکن ہے درست، کہ چاہے آپ کتنی ہی رفتار اختیار کرلیں آپ روشنی کی لہر تک نہیں پہنچ سکتے۔ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چنیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے اور اگر آپ ایک راکٹ میں سفر کر رہے ہیں، جس کی رفتار روشنی کے 99.9 فی صد ہے، پھر بھی آپ فاصلے کو کم کرنے میں ناکام رہیں گے۔
اگر زمین پر موجود کوئی شخص اس تعاقب کا نظارہ کرتا ہے وہ روشنی کی لہر کو ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتے دیکھ رہا ہے۔ راکٹ کی رفتار بھی تقریباً برابر ہی ہے۔ بس دونوں کے درمیان بالکل معمولی سا فاصلہ ہے۔ اب اگر آئن کی تحریر کو درست مانا جائے (اور تجربات اسے درست ثابت کر چکے ہیں) تب راکٹ میں بیٹھا ہوا شخص اسی روشنی کی لہر سے خود کو ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ دور محسوس کرے گا۔ ان دونوں بظاہر بالکل متضاد مشاہدات میں مصالحت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیےہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم یہ فرض کریں کہ یہ کائنات ہمیں راکٹ میں سفر کرتے ہوئے نظر آئے گی، وہ اس سے بہت مختلف ہے جو زمین پر کھڑے ہوکر مشاہدہ کرنے پر دکھائی دے گی۔
1905ء میں جب آئن اسٹائن نے وقت کی اس لکچدار خصوصیت کا تصور دیا، تو یہ پہلے سے رائج اور تسلیم شدہ نظریات پر ایک دھچکے اور صدمے سے کم نہ تھا، مگر اس کے بعد کئی تجربات کے ذریعے اس کی صداقت کو مسلم حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ آئن اسٹائن کے چہار الجہادی کائنات کا تصور پیش کیا اور نریہ اضافیت کے ذریعے ’’وقت‘‘ کو چوتھا بُعد(Dimension) قرار دے کر یکسر نئے انداز اور تناسب کے ساتھ کائنات کی تشریح کی۔
اس سے قبل رائج شدہ نیوٹن کے خاکے کے مطابق کائنات ایسی اشیاء کا مجموعہ ہے جو وقت کے کسی بھی حصے میں اپنی اصل صورت میں موجود رہتی ہیں۔ جب کہ اضافیت کا کہنا ہے کہ اشیاء ہمیشہ وہی نہیں ہوتیں جیسی نظر آتی ہیں بلکہ جگہیں اور لمحے ہی دراصل ان چیزوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ نظریہ اضافیت کی نظر میں حقیقت کا خاکہ یہی ہے کہ کائنات اشیاء کے بجائے واقعات پر مشتمل ہے۔ واقعات ہی رمان و مکان کی ترجمانی کرتے ہیں، کیوںکہ واقعات و حالات کے وقوع پذیر ہونے سے انکار ممکن نہیں۔
وقت گزرنے کی رفتار معلوم کرنے کے لیے اگر کوئی عمل دریافت ہو جائے تو باآسانی یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آج کے دن کل کے مقابلے میں وقت تیزی سے گزرا یا سست روی سے۔ اور یہ عام مشاہدہ ہے۔ نظریہ اضافیت کے ذریعے وقت کے پھیلائو کے تصور نے گزشتہ صدی کے سائنس دانوں اور ماہر طبیعیات کے لئے اس کائنات کو نئے نئے زاویوں سے پرکھنے اور اچھوتے انداز میں اس کا تجربہ کرنے کا موقع فراہم کیا اور موجودہ صدی میں بھی اضافیت کے اضافی اسرار و رموز انسان کے لئے حیرت انگیز اور دلچسپ موضوع ہے۔ یہ سلسلہ شاید ہمیشہ جاری رہے…!