رمیز راجا نے عمران خان کے ہٹنے سے قبل یہی تاثر دیا تھا کہ اگر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو وہ پی سی بی چیئرمین کا عہدہ چھوڑنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ اس وقت شائد انہیں اندازہ تھا کہ تمام چیزیں عمران خان کے حق میں ہیں لیکن پاکستانی سیاست میں جو کچھ پس پردہ چل رہا ہوتا ہے اس کا کسی کو اندازہ نہیں ہوتا جب عمران خان ،تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹےرمیز راجا نے بھی اپنا موقف تبدیل کر لیا۔ہوسکتا ہے کہ اب رمیز راجا ٹھوکر کھا کر سنبھل گئے ہوں گے۔
سابق کپتان اب دعوی کررہے ہیں کہ انہیں تو عمران خان نے چیئرمین بننے کے لئے چھ ماہ قبل پیشکش کر رکھی تھی لیکن میرے گھر والے مجھے منع کررہے تھے کہ میں یہ عہدہ نہ لوں، لیکن پھر میرے جوش کو دیکھتے ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ شوق پورا کرلیں۔
رمیز راجا کہتے ہیں کہ میں روایتی چیئرمین نہیں ہوں کہ جب چاہا کسی کی آواز بند کردوں۔ حالانکہ پی سی بی میں لوگوں کے کام کرنے کی رفتار میری توقعات سے کم ہے اور کئی بار میں پریشان ہوکر سوچتا ہوں کہ دیوار سے سر ٹکرا لوں۔رمیز راجا نے پی سی بی نہ چھوڑ کر اپنے کپتان عمران خان کوبھی حیران کردیا۔ کیوں کہ عمران خان نے جن لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر لگایا تھا وہ ان کے جاتے ہی مستعفی ہوگئے۔
شائد عمران خان بھی رمیز راجا سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ اسی لئےاب رمیز راجا کہتے ہیں کہ وزارت عظمیٰ جانے کے بعد عمران خان نے مجھ سے بھی رابطہ ختم کردیاہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف ہیں، اپنے پروجیکٹس سے متعلق انہیں آگاہ کرنے کے لیے ملاقات کا وقت مانگا ہے۔اصولی طور پر رمیز راجا کو عمران خان کے ساتھ گھر چلاجانا چاہیے تھالیکن شائد انہیں کرسی کا مزہ آگیا ہے یا وہ کرکٹ کی بہتری کے لئے کم وقت میں بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ میں عام طور پر تو یہی ہوتا ہے کہ ہر حکومت پی سی بی چیئرمین کی ہائی پروفائل سیٹ پر اپنے لوگوں کو ہی نوازتی ہے۔
شہباز شریف نے وزیر اعظم بننے کے بعد کرکٹ پر کوئی بات نہیں کی ۔گذشتہ ہفتے شہباز شریف نے سابق چیئرمین خالد محمود سے ملاقات کی تو قیاس آرائیاں سامنے آنے لگیں۔ ملاقات کے بعد خالد محمود نے کہا کہ ہ میرے پاس کرکٹ کا پچاس سال کا انتظامی تجربہ ہے۔ حکومت وقت نے چاہا توچیئرمین پی سی بی بننے کے لئے حاضر ہوں۔ پی سی بی کونسل کا رکن اورقومی ٹیم کا منیجررہ چکا ہوں، کرکٹ میرا شوق ہے۔ میں نے وزیراعظم شہبازشریف سے پوچھا کرکٹ کے بارے میں کیا سوچا، الٹا وزیراعظم نے پوچھا بورڈ ٹھیک چل رہا ہے کیا؟خالد محمود نے کہا کہ ہیں جانتا ہوں کہ وزیراعظم نے لاہور میں ہوتے ہوئے چیئرمین رمیز راجا سے ملاقات کیوں نہیں کی چیئرمین پی سی بی کے عہدے کی ایک شان ہے۔
کرکٹ بورڈ کا سربراہ بننے کے لئے زیادہ دوڑ دھوپ نہیں کرنی چاہیے؟ پھر چند دن بعد سابق چیئرمین نجم سیٹھی کی مسلم لیگ کے قائد نواز شریف کے ساتھ کیمرج جھیل کی تصویر ٹوئیٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گئی۔ دونوں جھیل کی سیر کررہے تھے۔ اس تصویر پر بھی کرکٹ حلقوں میں قیاس آرائیاں چل رہی ہیں لیکن ابھی شہباز شریف ،رمیز راجا کے معاملے پر خاموش ہیں۔ رمیز راجا جس تیزی سے اپنے پلان سامنے لارہے ہیں اور میڈیا سے منقطع رابطے بحال کررہے ہیں اس سے لگ رہا ہے کہ شائد انہوں نے بھی نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے اور وہ اپنی کارکردگی میڈیا کے سامنے لارہے ہیں۔
اگر حقیقت دیکھی جائے تو آٹھ ماہ کے دوران رمیز راجا کی کارکردگی بری نہیں ہے۔ ان کا کیس بابر اعظم اور ان کے ساتھیوں نے بھی مضبوط کیا ہے کیوں کہ پاکستان ٹیم مسلسل جیت رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر رمیز راجا نے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔رمیز راجا کے نئے منصوبوں کے لئے مالی سال 23-2022 کے لیے 15 ارب روپے کے بجٹ کی منظوری دی گئی۔ منظور شدہ بجٹ کا 78 فیصد حصہ کرکٹ سے متعلقہ سرگرمیوں پر خرچ کیا جائے گا۔اس میں مینز اور ویمنز کرکٹرز کے سینٹرل کنٹریکٹ، بین الاقوامی اور ڈومیسٹک ایونٹس سمیت پاکستان سپر لیگ 8 اور پاکستان جونیئر لیگ کے افتتاحی ایڈیشن کے انعقاد بھی شامل ہیں جونیئر لیگ کے لئے ندیم خان کو ٹورنامنٹ ڈائریکٹر بنایا گیا ہے۔
اے سی سی ایشیاکپ 2023 اور آئی سی سی چیمپنز ٹرافی 2025 کے پاکستان میں انعقاد کے پیش نظر بی او جی نے انفراسٹرکچر اور اسٹیڈیمز کی اپ گریڈیشن کے لیے فنڈز کی اصولی منظوری دے دی ہے۔ اس میں فلڈ لائٹس، ڈریسنگ رومز، تماشائیوں کے لیے نئی کرسیاں اور ری پلےا سکرینز شامل ہیں۔بی او جی نے ملازمین کے بچوں کی تعلیم کے لیے اسکولنگ الاؤنس بھی متعارف کروانے کی منظوری دے دی ہے۔
مالی سال 23-2022 کے لیے مینز سینٹرل کنٹریکٹ میں کیا گیا اضافہ مندرجہ ذیل ہے۔ریڈ اور وائٹ بال کے علیحدہ علیحدہ کنٹریکٹس کے بعد سینٹرل کنٹریکٹ یافتہ کھلاڑیوں کی تعداد 20 سے بڑھا کر 33 کردی گئی ہے۔بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے پر دستک دینے والے کھلاڑیوں کے لیے سینٹرل کنٹریکٹ میں اضافی کٹیگری ڈی کٹیگری متعارف کرائی گئی ہے۔ سینٹرل کنٹریکٹ یافتہ کھلاڑیوں کے ماہوار وظیفہ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ تینوں طرز کی کرکٹ کی میچ فیس میں 10، 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ نان پلیئنگ پلیئرز کی میچ فیس میں 50 سے 70 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کپتان کے لیے خصوصی الاؤنس بھی متعارف کروادیا گیاہے۔ ورک لوڈ منیجمنٹ کے تحت ایلیٹ کھلاڑیوں کے لیے خصوصی رقم مختص کردی گئی تاکہ وہ مکمل فٹ اور پاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کے لیے دستیاب رہیں۔مردوں کی طرح خواتین کے ہر کٹیگری میں شامل کرکٹر زکے ماہوار وظیفہ میں 15 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔ کھلاڑیوں کی تعداد 20 سے بڑھا کر 25 کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔اس سال 23-2022 کے لیے مینز اور ویمنز سینٹرل کنٹریکٹ یافتہ کھلاڑیوں کی فہرست کا اعلان جلد کردیا جائے گا۔ ان کنٹریکٹس کا اطلاق یکم جولائی2022 سے ہوگا۔
اپنی سماجی ذمہ داری کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈنے ٹرسٹ کی حیثیت سے پاکستان کرکٹ فاونڈیشن کی بنیاد رکھنے کی بھی منظوری دے دی ہے۔ یہ فاؤنڈیشن ریٹائرڈ کرکٹرز، میچ آفیشلز، اسکوررز اور گراؤنڈ اسٹاف کی دیکھ بھال کرے گی۔ اس فاؤنڈیشن سے مستفید ہونے کے لیے اہلیت کے معیار کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ ابتدائی طور پر بی او جی نے پاکستان کرکٹ فاؤنڈیشن کو آئندہ مالی سال کے لیے دس کروڑ روپے عطیہ کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
رمیز راجا کہتے ہیں کہ ستمبر 2021 سے اب تک قومی کرکٹ ٹیم کی کامیابی کا تناسب 75 فیصد رہا ہے، جو اس دوران ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والی کسی بھی ٹیم کے مقابلے میں سب سے بہتر ہے۔ اس شاندار کارکردگی کی بدولت پاکستان کرکٹ ٹیم ٹیسٹ کی موجودہ رینکنگ میں پانچویں جبکہ ون ڈے انٹرنیشنلز اور ٹی ٹونٹی انٹرنیشنلز رینکنگ میں تیسرے نمبر پر براجمان ہے۔ اس پس منظر میں عمدہ کارکردگی کامظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کو سراہنے کی پالیسی کے تحت انہیں مالی سال 23-2022 کے لیے سینٹرل کنٹریکٹ میں اضافہ کرنے پر خوشی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے لیے اعزازات اور فینز کو خوشیاں دینے والے یہ کھلاڑی قوم کا فخر ہیں اور وہ ان کھلاڑیوں کا مکمل خیال رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔وائٹ بال کی اہمیت اور کھیل کی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے ریڈ اور وائٹ بال کے لیے علیحدہ علیحدہ کنٹریکٹس کو متعارف کروایا ہے۔
ان کھلاڑیوں نے آئندہ 16 ماہ میں 2 ورلڈکپ سمیت 4 انٹرنیشنل ایونٹس کھیلنے ہیں۔انہوں نے کہاکہ دو علیحدہ کنٹریکٹس کی پیشکش کے ذریعے انہیں دو مختلف طرز کے مقابلوں کے لیے بیک وقت دو مختلف اسکواڈز کی تیاری میں معاونت ملے گی۔ اس حکمت عملی کے تحت انہیں مزید ٹیلنٹ سامنے لانے میں بھی مدد ملے گی۔ رمیز راجا نے کہا کہ ایلیٹ کھلاڑیوں کو آف سیزن ایونٹس میں شرکت سے روکنے کے لیے خصوصی رقم مختص کردی گئی ہے۔ یہ رقم ان کے ریونیو کو پہنچنے والے ممکنہ نقصانات کی تلافی،ان کے ورک لوڈکا خیال رکھنے اور انہیں مکمل فٹ رکھنے پر خرچ کی جائے گی تاکہ وہ تازہ دم اور تیار رہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے نے لیگ کے میڈیا اور اسپانسرشپ ریونیوز میں 81 فیصد اضافے کو بھی سراہا ہے۔ بی او جی نے لاہور، کراچی اور ملتان میں کھلاڑیوں کی رہائش کے لئے اضافی کمرے بنانے کی بھی منظوری دے دی ہے۔پی سی بی نے پی سی بی کی جانب سے ڈومیسٹک سیزن 22-2021 کے دوران 12 نیشنل ٹورنامنٹس میں مجموعی طور پر 314 میچز منعقد کر انے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس دوران ڈومیسٹک کھلاڑیوں نے کنٹریکٹ کی مد میں سالانہ 37 لاکھ سے 50 لاکھ روپے تک کمائے ہیں۔
رمیز راجا نے چیئرمین بن کر کرکٹ میں بہتری کے لئے بہت سارے فیصلے کئے ہیں لیکن ان پر یہ لیبل لگا ہوا ہے کہ وہ عمران خان کے قریب ہیں۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان ان کے کپتان رہے ہیں۔ کسی شخص کو نظر یات کی بنیاد پر ہٹانا درست نہیں اگر رمیز راجا کی کارکردگی اچھی ہے تو انہیں عہدے کی معیاد پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے لیکن اگر کھیلوں کو سیاست سے دور رکھا جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے!