• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملاوٹ شدہ شہد کی ایکسپورٹ روکنے کیلئے عملی اقدامات کئے جا ئیں

پشاور (لیڈی رپورٹر)خیبر پختونخوا میں شہد کے کاروبار سے وابستہ افراد نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ شہد کی برآمد میں درپیش مسائل کے فوری حل ٗ عالمی معیار کے عین مطابق لانے سمیت ملاوٹ شدہ مختلف اقسام کی شہد کی خرید و فروخت / ایکسپورٹ کی روک تھام کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے شہد اوروفاقی وزارت برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے باہمی اشتراک سے ٗ سرٹیفیکیشن انسٹیو پروگرام کے بارے میں آگاہی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ہنی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین اور ایگزیکٹو ممبر نعیم قاسمی نے اجلاس کی صدارت کی جبکہ سرحد چیمبر کے سیکرٹری جنرل سجاد عزیزنشست کے نمایاں مقرر تھے۔ اس موقع پر کمیٹی کے سینئر وائس چیئرمین نو روز خان ٗ نائب چیئرمین باسط علی خان ٗ نائب چیئرمین شیخ گل باچا ٗ ظہور الحق کے علاوہ پراجیکٹ منیجر سرٹیفیکیشن انسٹیو پروگرام منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد شاہین راجہ ٗ ڈائریکٹر پاکستان کونسل آف سائنٹیفیک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ پشاور جہانگیر شاہ ٗ ایس آر او / ڈپٹی ڈائریکٹر ہنی پروڈکشن ARI ترناب فارم پشاور محمد یونس بھی موجود تھے۔آگاہی سیشن میں بی کیپر ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کے عہدیداران ٗ شہد سے وابستہ کاروباری افراد ٗ ایکسپورٹرز کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ پراجیکٹ منیجر شاہین راجہ نے سیشن کے شرکاء کو وفاقی وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سرٹیفیکیشن پروگرام کے بارے میں ایک جامہ ملٹی میڈیا پریذنٹیشن کے ذریعے آگاہ کیا۔ انہوں نے پاکستانی شہد کے معیار کو عالمی سطح تک لانے کے لئے سرٹیفیکیشن کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے شہد سے وابستہ کاروباری حضرات سے کہا کہ وہ وفاقی وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سرٹیفیکیشن انسٹیو پروگرام سے بھرپور استفادہ حاصل کریں تاکہ پاکستان / خیبر پختونخوا میں پیدا ہونیوالی شہد کو عالمی سطح معیار کے مطابق لیا جاسکے۔ انہوں نے کہاکہ پروگرام کا مقصد سرٹیفیکیشن کے ذریعے معیاری شہد کی پیداوار کویقینی بنانا ہے اور ملاوٹ شدہ /غیر معیاری شہد کے مکمل طور پر تدارک کرنا ہے۔ اس موقع پر شہد سے وابستہ کاروباری افراد نے شہد کی برآمدات میں درپیش مسائل بالخصوص سعودی عرب جہاں پر پاکستان / خیبر پختونخوا کی شہد زیادہ برآمد کی جاتی ہے وہاں کے نئے قوانین کے نفاذ کے بعد ایکسپورٹ میں کمی واقع ہونا ٗ غیر معیاری ٗ ملاوٹ شدہ شہد کی ایکسپورٹ ٗ ایکسپورٹرز کو ویزوں کے اجراء میں دشواری ٗ سرٹیفیکیٹس / ٹیسٹنگ کی لیبارٹریز کے فقدان سمیت دیگر مسائل کو تفصیلاً بیان کیا۔ مقررین نے خطاب کرتے ہوئے شہد سے وابستہ کاروباری طبقہ کو سٹینڈرڈائزیشن / سرٹیفیکیشن پر زور دیا تاکہ ان کی پراڈکٹ کو عالمی معیار کے مطابق لایا جاسکے اور وہ وفاقی وزارت کے سرٹیفیکیشن پروگرام سے بھرپور استفادہ حاصل کریں۔ شہد کے ایکسپورٹرز اور کاروباری طبقہ نے پاکستان کونسل آف سائنٹیفیک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں تاکہ مشرق وسطیٰ ٗ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ یورپین ممالک میں بھی پاکستانی شہد کی ایکسپورٹ کی جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب حکومت کی جانب سے نئے قوانین کے نفاذ کی وجہ سے شہد کے ایکسپورٹرز کو بہت نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
پشاور سے مزید