عمر شاہد
انسانی زندگی مختلف ادوار کا امتزاج ہے جس میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ انسان آگے کی طرف سفر کرتا ہے۔ تمام ادوار میں جوانی وہ عرصہ ہو تا ہے جس میں نوجوان قدرت کی تمام نعمتوں سے بھر پور استفادہ اٹھاسکتے ہیں، مگر موجودہ بحران زدہ سماجی ڈھانچے میں جوانی کا عہد اب کمزوریوں، ناانصافیوں، زیادتیوں کا عہد بن چکا ہے۔
جس میں داخل ہوتے ہی اسے اپنے والدین اور عزیز اقارب کی طرف سے ملنے والی محبت و الفت کے تمام لمحات کسی تصوراتی دنیا کے قصے کہانیاں لگتی ہیں۔ کسی بھی معاشرے نوجوانوں کی حالت زار سے اُس معاشرے کے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
عالمی طور پر سرمایہ دارانہ بحران میں نوجوانوں کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہو رہی ہے، انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال ہی نوجوانوں کی غربت میں اضافہ ہورہا ہے ، جبکہ بہتری کے امکانات ختم ہوتے جارہے ہیں۔ اُن کے سامنے صرف مایوسی، پریشانیاں اور مصائب کا نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔
خوف کے ماحول میں پرورش پانے والے نوجوان بگڑتے سماجی، سیاسی اور ثقافتی ڈھانچوں کے اثرات کے تابع عملی طور پر بیگانگی کی تمام حدو ں کو پھلانگتے ہوئے جرائم کی دنیا میں بھی داخل ہورہے ہیں ،جس کا اظہارا سٹریٹ کرائمزسے لگایا جا سکتا ہے۔
روزگار کی صورتحال کے مطابق پاکستان اکنامک واچ کے مطابق ہر سال لاکھوں نوجوانوں کے لیےملازمت کے مواقع نہیں ہیں۔ پاکستان بیوروآف اسٹیٹسٹکس کے لبیر فورس سروے کے مطابق ’’ہر سات محنت کشوں میں ایک بیروزگار ہے جب کہ سالانہ تقریباً 6 ملین نوجوانوں کو روزگار یا بہتر مواقع چاہیے۔
محنت کی منڈی میں ہر تین میں سے صرف ایک خوش نصیب ہے جسے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ملازمت ملتی ہے۔ اِسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لاکھوں بچے چائلڈ لیبر یا جبری مشقت کا شکار ہیں۔ غیر سرکاری رپورٹوں کے مطابق یہ صورتحال کہیں زیادہ خراب ہے۔ برٹش کونسل کی طر ف سے نوجوانوں پر کی گئی ریسر چ کے مطابق ’’صرف پانچ میں سے ایک نوجوان سوچتا ہے کہ اس کے معاشی حالات مستقبل میں ٹھیک ہو ں گے۔ 57 فیصد نوجوان اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔
اخباری رپورٹس کے مطابق بیروزگاری کی شرح مزید بڑھے گی۔ تعلیم کے میدان میں عالمی معیار کے مواقع بھی میسر نہیں ہیں۔ پاکستان میں صحیح اعدادو شمار کی عدم موجوگی میں زیادہ تر رپورٹس زیادہ تر اندازوں پر ہی مبنی ہیں جس کی وجہ سے صحیح منظر کشی کے لئے کسی رپورٹ کے بے جان صفحوں کی بجائے یہاں زندگی گزارنے والوں کی شب و روز کا تجزیہ ہی کافی ہے۔
سماجی ناہمواریاں، دہشت گردی، بے روزگاری، امن و امان کی ابتر صورتِ حال، توانائی کا بحران، انسانی حقوق کی پامالی، مفت اور معیاری تعلیم کے مواقعوں کی کمی، کرئیر کونسلنگ کا نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر نوجوانوں کی رائے کو اہمیت نہ دینے جیسے عوامل ان کے سماجی سطح پر مسائل کا پیش خیمہ بن رہے ہیں، جو نوجوانوں کے معاشی مسائل پر منتج ہورہے ہیں، اُن کے لیےایک طرف روزگار کے مواقع محدود اور غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہورہے ہیں تو دوسری طرف ہم برسر ِ روز گار نوجوانوں کی حالت دیکھیں تواس وقت یہ سب سے زیادہ استحصال زدہ نظر آتے ہیں۔ بیروزگاروں کی ایک بڑی فوج کے ساتھ چند برسر روزگار نوجوانوں کی حالت زارقابلِ دید ہے۔
معمولی اجرتوں پر زائد اوقات کار پر کام کرنا عام ہے ۔ لیکن محنت کشوں کی کار کردگی اور ہنر میں اضافہ بھی تاریخی طور پر بلند پیمانے پر ہے۔ اس پیداواری قوت میں بلندی اور تنخواہوں میں کمی سے سرمایہ داروں کے شرح منافع میں غیر یقینی حد تک اضافہ ہوچکا ہے نوجوان اس وقت استحصال کا بہترین خام مال بن چکے ہیں، جنکے لیے کم اجرتوں پر بھی کام کرنا ایک نعمت سے کم نہیں۔
اب اچھے حالات اور سماجی تحفظ کسی اور سیارے کی باتیں لگتی ہیں۔ بیرونِ ملک جان اور وہاں ستیل ہونا کسی اور دنیا کی باتیں لگنے لگی ہیں کیوں کہ معاشی بحران کی وجہ سے دنیا بھر میں حالات خراب ہوچکے ہیں، وہاں سے بڑی تعداد میں محنت کش واپس اپنے ملکوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ حکومت ِ وقت کی جانب سے شروع کی گئی اسکیموں سے کوئی مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔
اس کرۂ اارض پر جہاں ایک طرف دولت کے انبار میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف محرومی، ذلت اور لاچاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ ہمارا مستقبل تو نہیں۔ نوجوانوں کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا اور اپنے بے مصرف مشاغل کو ختم کر کے موجودہ حالات کی روشنی میں اپنے روشن مستقبل کے لیے بہت زیادہ تگو دو اور جدو جہد کرنی ہوگی۔ اپنی قوت وطاقت کے ذریعے اپنے رویے اور حالت میں بہتری پیدا کرنی ہوگی۔ نوجوانوں کی طاقت ہی قوم و ملک اور معاشرے کی ضرورت ہے۔