• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب زیرِ زمین چٹانوں کے درمیان ’’ارضی تپشی توانائی‘‘ اچانک آزاد ہو جاتی ہے تو زمین تھرتھرا اُٹھتی ہے اور کہیں پہ زمین چٹخ جاتی ہے۔ زمین کا اس طرح دفعتاً تھر تھراجانا اور چٹخ جانا ہی ’’زلزلہ ‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درجہ ٔ حرارت اور دبائو پر مشتمل قوتیں جس کو ’’ٹیکٹونک قوتیں‘‘ کہا جاتا ہے۔ زمین کی عمیق گہرائی میں چٹانوں کے اطراف مسلسل قوت (Stress) میں اضافہ کرتی ہیں جو چٹانی کو خمیدہ یعنی موڑ (Fold) دیتی ہیں، جس سے چٹان کی تخلیقی شکل میں تبدیلی آتی ہے۔

یہ کیفیت بگاڑ (Strain)کہلاتی ہیں۔ مثلاً جس طرح ایک لکڑی کی چھڑی کو موڑا یعنی فولڈ کیا جائے تو ہاتھ میں موجود قوت کا ’’ٹرانسفر‘‘ چھڑی میں ہو جاتا ہے گویا ہاتھ کی قوت چھڑی کی قوت فی یونٹ ایریا (The Force per unit area) فراہم کرتی ہے، جس کی وجہ سے لکڑی کے ٹکڑے میں کمان جیسی شکل پیدا ہو جاتی ہے یہ تخلیقی شکل میں بگاڑپیدا ہونا کہلاتی ہے جو قوت کے اصول یعنی ’’ینگ موڈولس‘‘ (Young modulus) سے وابسطہ ہوتا ہے، جس طرح سے چھڑی مڑتی ہے چٹان بھی قوت لگنے پر اس قسم کا رویہ پیدا کرتی ہے۔ لیکن قوت برداشت کی حد تک بھی قوت لگانے سے وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ اس طرح سے چٹان جب ٹوٹتی ہے تو انرجی کی لہریں آزاد ہو کر زمین کے اطراف سفرکرتی ہیں۔ 

یہ زلزلی لہریں ہوتی ہیں جو زیرِ زمین سفر کرتی ہیں، جس کی شدت سے زمین تھرتھرا اُٹھتی ہے۔ چٹان ٹوٹنے کے بعد دراڑ زدہ ہو کر دو بلاک میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے مدمقابل حرکت کے بعد اپنے قیام اور مقام سے دور ہو جاتی ہیں۔ چٹان کا اس طرح ٹوٹنے اور سرکنے کا عمل فالٹ یا ریختہ (Fault)کہلاتا ہے۔ مستند تشریح کے’’زلزلہ‘‘ کیوں آتے ہیں ’’لچک واپسی نظریہ‘‘ (Elastic Relound Theory) کہا جاتا ہے، جس کے مطابق یہ پیدا شدہ بگاڑ کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتا ہے جو فالٹ کے اطراف حرکت کا باعث بنتی ہیں۔ یہ حرکت عمودی، اُفقی یا پھر دونوں اقسام کی ہو سکتی ہیں۔ 

ٹیکٹونک قوتیں زمین کی عمیق گہرائی میں چٹانوں کے اطراف مسلسل قوت میں اضافہ کرتے ہوئے ، اس کی تخلیقی شکل میں تبدیلی آجاتی ہے

چٹان کے اطراف پیدا شدہ بگاڑ قوت آزاد ہوتی ہے تو توانائی حرکت کرتی ہوئی چٹانی بلاک کو نئی پوزیشن میں لاکر منتشر ہوتی ہے اور زلزلوں کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس دوران بے لوچ خاصیت کی چٹان کا رویہ سطح زمین کے قریب ہوتا ہے جب کہ چٹان جو گہرائی میں ہے وہ درجۂ حرارت اور دبائو کے اضافے کی زد میں ہوتی ہے اور ’’بے لوچ‘‘ پن کو کم کردیتی ہے۔ گہرائی میں چٹان کا رویہ لوچ دار (Ductile)ہو جاتا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ’’فالٹ‘‘ کی موجودگی کے لیے زمین کی گہرائی کی حد ہوتی ہے۔ زیادہ تر زلزلے ’’فالٹ‘‘ کی حرکت سے منسلک ہوتے ہیں لیکن بعض زلزلوں کے تعلق کا تعین کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔

مثلاً کیلی فورنیا بشمول 1924ء کا شمالی ریج (Northridge) زلزلہ جو دفن شدہ ’’تھرسٹ فالٹ‘‘ پہ رونما ہوا۔ کچھ ان میں سے نامعلوم تھا اور کسی نے بھی سطحی ہٹائو (Surface Displacement) ظاہر نہیں کیا ،یہ’’ سطح ہٹائو‘‘ سے منسلک نہیں ہوتے، کیوں کہ یہ آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے ہی جنم لیتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب میگھا (ارضی سیال) زبردستی میگھائی میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ میگھا کے اس طرح کے برتائو سے کئی آتش گیر عمل سامنے آتے ہیں۔ 

یہ کسی صورت میں بھی ’’فالٹ‘‘ سے منسلک نہیں ہوتے۔ گہرائی میں زلزلے کے پیدا ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ 100-670کلو میٹر گہرائی میں سرد اور اندر دھنستی ہوئی عمیق (Subducted Strata) جو مسلسل’’ مینٹل‘‘ (Mantle) میں پھیل رہی ہے نیچے جاتی ہوئی چٹان اطرافی چٹان کے مقابلے میں سرد ہوتی ہے اور کچھ ماہر ین ارضیات کے مطابق پھیلتی ہوئی پلیٹ کا یہ سطح پر موجود لوچ دارچٹان کے مقابلے میں غیر لوچ دار ہوتی ہے۔ جن میں علاقوں میں زمین کے اندراس طرزِ عمل کا اطلاق ہوتا ہے وہی علاقے زلزلوں کے علاقے ہوتے ہیں۔ 

مثلاً بحیراوقیانوس کے بیچوں بیچ لاوا (Lava) اُبل رہا ہے، جس کے نتیجے میں نئی سطح کی تشکیل ہو رہی ہے جب کہ امریکا اور ایشیا (بشمول پاکستان) کے مشرقی و دیگر ساحلی علاقوں پر زمین کی طبق نیچے دھنس رہی ہے۔ ان دونوں علاقوں میں زلزلے کثرت سے آتے ہیں۔ زلزلے کی وجوہات تک تو کلیۂ دماغ (Brain faculty) پہنچ چکا ہے لیکن اس پہ مکمل قابو پانا سائنس اور اہل سائنس کے لئے ناکبھی ممکن تھااور نا کبھی ہو سکتا ہے۔ وہاں البتہ اس کی شدت کو کم کرکے حالات پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔

 مثلاً 1988ء میں 7.7شدت کا زلزلہ آیا، جس میں 150,5000افراد زندگی کی بازی ہار گئے، جس کی وجہ سے غیرمعیاری رہائشی تعمیراتی عمارتیں زمین بوس ہوگئیں۔ 26؍جنوری 2001ء میں گجرات بھارت میں 7.7شدت کے زلزلے نے 18000افراد کی جان لے لی جبکہ 600,000افراد بے گھر اور 332,000 عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔ 

اس کے برخلاف جب اداروں اور رہائش نے مزاحمتی ساخت اور زلزلی عمارتی کوڈ (seismic Building Code)استعمال میں لایا گیا تو ’’سین فرانسیسکو‘‘ کے ساحلی علاقوں میں 7.2شدت کے زلزلے سے صرف 63افراد کی جان گئی۔ لہٰذا ایسی عمارتیں جو لچک دار اشیاء مثلاً اسٹیل، لکڑی اور پائیدار سیمنٹ سے (جو اسٹیل سے منسلک ہوتا ہے ) کیا جا رہا یعنی جس پر ادارے خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ وہاں نقصان پہلے کے مقابلے میں نسبتاً کم ہو رہا ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید