5جولائی1977 کا فوجی اقدام ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ کا نہایت اہم باب ہے، آج پینتالیس سال گزر گئے چکے ہیں مگر یہ آج بھی ملکی سیاست کا ایک موضوع بنا ہوا ہے، ہوسکتا ہے کہ کوئی اسے تعصب کی آنکھ سے دیکھ رہا ہو لیکن جب اسے حقائق کے عدسے سے دیکھا جائے گا تو اس فوجی اقدام کیلئے اس وقت کی حکومت کے مستقل اقتدار میں رہنے کے خاموش اقدامات اور خواہشات کا ایک انبار نظر آئیگا۔ 5جولائی1977 کے فوجی اقدام سے متعلق بہت کچھ کہا اور لکھا بھی گیا،45 سال گزرنے کے باوجود بہت کچھ لکھا بھی جارہا ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ملک میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی سیاسی لیگیسی نہ صرف موجودہے بلکہ اس ملک کی ترقی، سلامتی ،خوشحالی اور اس ملک کے دفاع کو مضبوط بنانے کے ناقابل تسخیر اقدامات کی وجہ سے ان کی سیاسی وراثت کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر روز ان کے مزار پر عقیدت مند دعا کے لیے آتے ہیں اور 17اگست کو ان کے یوم شہادت پر ہر سال ملک بھر سے لاکھوں عقیدت مند دعا کے لیے آتے ہیں۔ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی اس ملک کے دفاع کیلئے اور اللہ کی راہ میں شہادت کو تقریبا ًنصف صدی ہونے کو ہے، کئی بار سوچا کہ ملک کے شہری اور ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے اس پر اپنی رائے دوں، مگر یہ سمجھ کر خاموش رہا کہ ہوسکتا ہے اسے تعصب کی نگاہ سے دیکھا جائے، تاہم تعصب اور حقائق کی کشمکش میں ہمیں نظریہ پاکستان، اسلام اور اس ملک کی مٹی کا ایک ایک ذرہ حقائق کا ساتھ دینے اور اس کا پرچار کرنے کی تلقین کرتا ہے، پاکستان کے آئین، اور کسی بھی جمہوری پارلیمانی نظام میں آئین سے ہٹ کر اور اس کے متعین کردہ دائرے سے باہر نکل کر ملک کا نظم و نسق سنبھالنا سیاسی جمہوری لحاظ سے کبھی پسندیدہ عمل نہیں سمجھا گیا، اور نہ سمجھاجائے گا، لیکن جہاں ملکی سلامتی کے تحفظ کی قسم کھائی ہو اور ملکی دفاع اور اس کی سلامتی ہی متاع عزیز ہو تو پھر ملکی سلامتی کے تحفظ کو ترجیح دینا ہی ملکی سلامتی کے تحفظ کی قسم کا تقاضہ کرتا ہے۔ جمہوری اور سیاسی لحاظ سے ہمارا آئین مقدم ہے اور جب آئین ہی اس عمل کو جائز قرار دے دے اور آئینی تحفظ فراہم کردے تو پھر بحث ہی ختم ہوجاتی ہے،1985کی منتخب قومی اسمبلی نے آئین کی آٹھویں ترمیم میں ان تمام اقدامات کو آئینی تحفظ دیا ہوا ہے، تاہم ایک طبقہ ہے جو فیشن کے طور پر اپنی بات کرتا رہتا ہے، پانچ جولائی 1977 کے اقدام کی ایک ہلکی سی جھلک ہمیں تاریخ میں یہ ملتی ہے کہ ملک کے معاشی روزگار کے سارے در صرف پیپلزپارٹی سے وابستہ افراد کے لیے کھلے تھے، راشن ڈپو ان کے نام الاٹ تھے، حالت یہ ہوا کرتی تھی کہ اگر محلے میں کسی گھر میں شادی ہوتی تو وہ پوری گلی کے راشن کارڈ اکٹھے کرکے چینی لینے پر مجبور ہوتا، ملکی سیاست کاعالم یہ تھا کہ اس وقت بھٹو صاحب کی حکومت اور اپوزیشن اتحاد ایک دوسرے کو دیکھنے اور برداشت کرنے کے روادار نہیں تھے، ملک کی انتظامی مشینری عوامی احتجاج کے نتیجے میں تقریباً مفلوج ہوچکی تھی، سپریم کورٹ نے نصرت بھٹو کیس میں اپنے فیصلے میں اس کا تفصیلی ذکر بھی کیا ہے،5جولائی کا مارشل لا تو بعد میں نافذ ہوا، اس سے پہلے خود بھٹو حکومت کے دور میں آئین میں دی گئی گنجائش کی آڑ لے کر ملک کے تین شہروں میں ضلعی انتظامیہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج سے مدد طلب کرچکی تھی اور باقاعدہ مارشل لانافذ کیا مگر اس کے باوجود عوام اس حکومت کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے رہے، یہ ساری صورت حال7 مارچ1977 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی شکایات کے بعد عوام کے احتجاج کی صورت میں پیدا ہوئی تھی، جس سے ملک میں امن و مان کا شدید مسئلہ پیدا ہوا،7 مارچ1977 کے عام انتخابات سے پہلے ملک میں بھٹو صاحب کی حکومت تھی، اور ملک میں اس حکومت کو کوئی چیلنج نہیں تھا، آئین کے تحت قومی اسمبلی کی مدت14 اگست1977 کو ختم ہونے والی تھی، بھٹو صاحب نے 1975 میں ہی ایک سال قبل ملک میں عام انتخابات کرانے عندیہ دے دیا تھا، تاریخ شاہد ہے کہ وہ اس وقت بائیں بازو کے اپنے انقلابی حامیوں کے ہاتھوں ہی پریشان تھے، کسنجر کہانی بھی اسی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرانے کا اعلان کرکے بھٹو صاحب نے انتخابی مہم بھی شروع کردی اور5 جنوری 1977 کوملک میں مزید زرعی اصلاحات کرکے مالیہ ختم کردیا اس کے علاوہ 25 ایکڑ نہری اور50 ایکڑ بارانی اراضی کے مالکان کے لیے انکم ٹیکس بھی معاف کردیا اگلے ہی روز سول اور فوجی ملازمین کی پنشن میں دوگنا اضافہ کردیا اور10 جنوری1977 کو صدر فضل الہٰی چوہدری نے قومی اسمبلی تحلیل کردی، اعلان کیا کہ عام انتخابات وقت سے پہلے 7 مارچ کو ہوں گے اور 10 مارچ کو صوبائی اسمبلی کے لیے پولنگ ہوگی، ملک میں عام انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ کاغذات نامزدگی17 جنوری تک وصول کیے جائیں گے، انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ’’ سیاست دان بھی انتخابات سے اتنا ہی گریزاں ہوتے ہیں جتنا فوجی جرنیل جنگ سے ، سیاسی لڑائی خواہی نخواہی لڑنا پڑتی ہے اورمجھے یقین ہے کہ انتخابات شفاف ہوں گے ‘‘ انتخابات کے اعلان کے بعد11جنوری کو اپوزیشن کی نو جماعتوں پر مشتمل ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تشکیل کا اعلان کردیا گیا، بھٹو صاحب کے انتہائی قریبی افراد جن میں رفیع رضا شامل ہیں، نے مکمل علم ہونے کے باوجود انہیں اپوزیشن کی خاموش انتخابی تیاری سے بے خبر رکھا ۔پیپلزپارٹی یہ سمجھ رہی تھی کہ کوئی سیاسی حریف اس کی دھول تک بھی نہیں پہنچ سکتا اس کے باوجود اس نے اپنی کامیابی کے لیے’’ فول پروف اقدامات کیے‘‘انتخابات کے اعلان سے قبل پیپلزپارٹی کی حکومت کے دور میں11 اپریل1976 کو ایک ماڈل الیکشن پلان بنایا اس دستاویز پر بھٹو صاحب کے دستخط ہیں اور یہ سیاسی ریکارڈ کا حصہ ہے ، اسی پلان کے تحت انتخابات سے پہلے وزراء کی نگرانی میں انتخابی حلقوں کی حلقہ بندیاں کی گئیں، بھٹو کابینہ کے رکن کی گواہی بھی تاریخ کے ریکارڈ میں ہے کہ ’’امیدواروں نے اپنے اپنے قیاس کے مطابق اپنے حلقوں، ضلعوں اور ڈویژنز کی از سر نو حد بندی کرلی ہے‘‘ (جاری ہے)