کراچی (نیوز ڈیسک) لگتا ہے امریکا نے چین کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں شاید اسی لیے ملک میں بڑھتی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے اس نے چین سے مدد مانگ لی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کی رپور ٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں بڑھتے معاشی دبائو کو کم کرنے کیلئے امریکا نے چین کو اشارہ دیا ہے کہ وہ چائنیز مصنوعات پر عائد اضافی ٹیرف میں نرمی کرسکتا ہے اور چائنیز حکام کے ساتھ بات چیت کا تسلسل بھی جاری رکھا جائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بیجنگ نے امریکا کی پیشکش کا محتاط جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ امریکا اپنی اُن غلطیوں کو درست کرنے کی بجائے اب بھی ٹیرف کو استعمال کرکے اپنی بات منوانا چاہتا ہے جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کا نقصان ہوا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین میں کمیونسٹ پارٹی کے پولیٹیکل بیورو کے رکن اور نائب وزیراعظم لیو ہی نے امریکا کی وزیر خزانہ جینیٹ یالین سے ویڈیو کال پر ملاقات کی جس میں امریکا نے بحران سے نمٹنے میں مدد طلب کی۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، دونوں عہدیداروں کی ملاقات میں یہ طے ہوا ہے کہ جی 20؍ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں چین اور امریکا کے وزیر خارجہ کے درمیان ملاقات ہوگی۔
چائنیز مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکا کی معیشت مسائل کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود وہ چین سے وابستہ جیو پولیٹیکل معاملات میں چھیڑ خانی سے باز نہیں آ رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کو یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ چین امریکا کو اس کے داخلی مسائل سے نمٹنے میں کوئی خاص مدد دے گا۔ امریکی ٹیرف کی وجہ سے چائنیز معیشت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا اور ٹیرفس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ امریکا کی وہ غلطیاں ہیں جنہیں امریکا کو باہمی تعلقات میں بہتری لانے کیلئے درست کرنا پڑے گا۔ لیو ہی اور یالین کے درمیان ہونے والی ملاقات (بات چیت) میں واضح الفاظ استعمال کیے گئے اور یہ منطقی رہی۔ بات چیت میں میکرو اکنامک صورتحال اور عالمی صنعتی اور سپلائی چینز کے معاملات پر بات کی گئی۔
ژن ہوا کے مطابق، دونوں رہنمائوں کی ملاقات (بات چیت) تعمیری رہی۔ دونوں نے اتفاق کیا کہ عالمی معاشی صورتحال کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ امریکا اور چین تعمیری بات چیت کریں۔
چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز میں ریسرچ فیلو لوُ ژیانگ کہتے ہیں کہ اس وقت امریکی صدر جو بائیڈن کو سب سے بڑا دردِ سر یہ ہے کہ ان کی مقبولیت کا گراف نیچے گرتا جا رہا ہے اور یہ ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی نیچے جا چکا ہے، ان پر مڈ ٹرم الیکشن جیتنے کا دبائو ہے اسلئے وہ چاہتے ہیں کہ تبدیلی آئے اور حالات بہتر ہوں۔