محمد یاسین شیخ
آج سے چند ہزار سال پہلے ،اللہ کے جلیل القدر پیغمبرنے ایک رات خواب دیکھا کہ وہ اپنے فرزند کو ذبح کر رہے ہیں۔ نبی کا خواب چوں کہ وحی ہوتا ہے ، لہٰذا بیدار ہوتے ہی اس کی تکمیل کے لیے، اپنے لال سے خواب کا ذکر کیا۔ بیٹا بھی کیا خوب تھا، خواب سنتے ہی والد کو تسلی دیتے ہوئے کہنے لگا کہ’’ ابا جان ! آپ حکم بجا لائیں، انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘ یہ سننا تھا کہ حکم کی تعمیل کے لیے باپ بیٹے روانہ ہوئے ، باوجود یہ کہ یہ بچہ پیغمبر خدا کو اُس عمر میں عطا ہوا کہ جب وہ بوڑھے اور ان کی اہلیہ بانجھ ہوچکی تھیں، مگر حکم خداوندی جب مقدم ہو تو کوئی بات اہمیت نہیں رکھتی۔
حالانکہ نبی وقت بہرحال بشر ہی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی وہ تمام جذبات جڑے ہوتے ہیں، جو دیگر انسانوں کو لاحق ہوتے ہیں، مگر وہ اللہ کے حکم پر سب کچھ قربان کردیتا ہے۔ بالآخر مقامِ تعمیل پر پہنچ کر بیٹے کو لٹایا ، بیٹا بھی والد کا ساتھ دیتے ہوئے ان سے تعاون کرنے لگا۔ جیسے ہی چھری پھیرنے لگے، آسمان سے اس امتحان میں کامیابی کا اعلان سنایا گیا اور جنت سے مینڈھا بھیج کر رب ذوالجلال نے اسے ذبح کروادیا اور اس عظیم بیٹے کو بچالیا۔
اللہ کے حکم پر سب کچھ نچھاور کرنے والے یہ والد سیدناحضرت ابراہیم علیہ السلام تھے اور اپنے والد کا اس مشکل امتحان میں دل جوئی سے ساتھ دینے والے بیٹے کا نام’’اسماعیل ‘‘تھا ،جو بعد میں سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام بنے۔ (تفسیر معارف القرآن: سورۃالصافات )ذی الحج کے مہینے میں مسلمان جو قربانی کرتے ہیں، وہ اسی اہم واقعے کی یاد گار ہے۔
یہ واقعہ یقینا ًآپ پہلے کئی مرتبہ پڑھ چکے اور سن چکے ہوں گے، لیکن میرا مقصد اس واقعے میں چھپی ایک ایسی مقصود شے کی طرف توجہ دلانا ہے ، جس کی طرف عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب خواب میں یہ دیکھا کہ آپ اپنے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں، تو انہوں نے اس پر اللہ سے استفسار نہیں فرمایا کہ اے اللہ ! ایسا کیوں کرنا ہے؟
بلکہ فوراً ہی اس کی تعمیل میں لگ گئے، حالانکہ یہ وہی اولاد تھی جو ایک عرصے بعد عطا ہوئی، پھر اسے اپنی والدہ سمیت صحرا ء میں چھوڑنے کا حکم ہوا۔پھر طویل زمانے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ اس لاڈلے بیٹے کے ساتھ ابھی چند ایام ہی گزارے تھے کہ یہ امتحان روبرو ہوا، مگر ان تمام تر باتوں کے باوجود بھی ایک لمحہ تاخیر نہیں فرمائی ،کیوں کہ ان کے سامنے جو سب سے اہم شئے تھی، وہ اللہ کا حکم تھا، جس پر انہوں نے اپنا جوان بیٹا قربان کرنے میں بھی دیر نہ کی۔ چوں کہ یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تھی ،جس پر اللہ نے اپنے خلیل اور ان کے پیارے بیٹے کا درجہ بڑھانا تھا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ مینڈھا بھیج کر قیامت تک کے لیے اس واقعے کو مثال بنادیا ۔
اس واقعے کی گہرائی سے جو بات واضح ہوئی، وہ یہ کہ سب سے مقدم امر، خالق ِکائنات کا حکم اور اس کی رضا ہے۔ جسے قرآن پاک میں تقویٰ کے لفظ سے سمجھایا گیا ہے۔ قربانی کے حکم کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ اسی واقعے کی یاد میں اللہ نے صاحب حیثیت مسلمانوں پر واجب کیا ہے ، مگر بات صرف اتنی نہیں ہے۔ محض وہ واقعہ یاد دلانا مقصود نہیں، بلکہ اس واقعے میں چھپے اس مقصد کو یاد دلانا بھی مقصد ہے، جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے لیے اپنے بیٹے کی محبت کو قربان کیا، اپنے تڑپتے دل کو قربان کیا، اپنے لخت جگر کو قربان کرنے چل پڑے، بالکل اسی طرح تمام انسانوں کو رب العالمین کے احکام پر اپنے نفس کو قربان کرنا ہے۔
قربانی کا حکم ہمیں خالصتاً اسی بات کا پیغام دیتا ہے ۔ جس طر ح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو اللہ نے رہتی دنیا تک کے لیے یاد گار بنادیا اور انہیں’’ خلیل اللہ‘‘(یعنی اللہ کا خاص دوست )کے لقب سے سرفراز فرمایا، اسی طرح اگر دیگر انسان بھی اللہ کے بتائے گئے احکام پر اپنی خواہشات کی قربانی دے دیں تو اللہ ایسے لوگوں کو بھی اپنا خاص قرب عطا فرمائے گا۔
اسی بات کو قرآن مجید کی سورۂ حج میں جہاں قربانی سے متعلق آیات ہیں ،وہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ’’ اللہ کو ہر گزاس(قربانی کے جانور ) کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا ، لیکن تمہارا تقویٰ اللہ کو پہنچتا ہے۔‘‘ اب دیکھیں یہاں اللہ تعالیٰ لفظ ’’تقویٰ‘‘ کے بجائے اخلاص نیت کا لفظ بھی استعمال فرما سکتا تھا، جیسا کہ اکثر احباب اس لفظ سے اسی معنی کو خاص کرتے ہیں، مگر لفظ ’’تقویٰ‘‘ صرف اسی معنی میں استعمال نہیں ہوگا، بلکہ یہاں اس کا عمومی معنی مراد ہونا چاہیے اور وہ ہے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے دل و جاں سے پیش کردینا اور اپنا سر تسلیم خم کردینا۔ اگر یہی معنی مراد لیا جائے تو پھر دور حاضر میں ہونے والے اس فریضے کے حوالے سے بہت سی ایسی باتیں ہیں ،جسے ہم نیکی سمجھ کر کر رہے ہیں ، مگر درحقیقت وہ ہمیں اللہ کے قرب کے بجائے اس سے دوری کا سبب بن رہی ہیں۔
مختلف ’’سروے ‘‘ سے یہ بات پتا چلتی رہتی ہے کہ ہر سال دنیا میں عید الاضحی کے موقع پر قربان ہونے والے جانوروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یقیناً یہ بات خوش آئند ہے کہ مسلمان اس فریضے کو پورا کر رہے ہیں، مگر دیکھا جائے تو اب یہ قربانی ایک ’’فیشن ‘‘بنتی جارہی ہے۔ہر ایک دوسرے سے آگے نکلتے ہوئے اسے انجام دینے کی کوشش میں لگا ہے ۔ اگر یہ ’’نیکی میں سبقت ‘‘ کی بات ہوتی تو اس سے بڑھ کر خوشی کی بات نہیں تھی ، مگر حقائق یہ بتاتے ہیں کہ لوگ اسے ’’نیکی دکھانے میں سبقت‘‘ کی طرف لے جارہے ہیں۔
اس کے ایک نہیں ،کئی شواہد ہیں ۔ مثلاً ایک دوسرے سے اس معاملے میں بڑھنے کے لیے مہنگے جانوروں کا انتخاب کرنا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے جانوروں کی منڈی قیمت کے اعتبار سے بہت اوپر جارہی ہے۔ اس کی وجوہات کچھ اور بھی ہوں گی، مگر سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی مانگ نے اسے اوپر پہنچایا ہے۔ دوسروں پر سبقت لے جانے کی غرض سے جانور مہنگا لایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں منڈی کا بھاؤ روز افزوں بڑھ رہا ہے۔ لاکھوں کی بات اب مذاق بن گئی ہے۔ ایک ایسا آدمی جس پر صدقہ فطر کے نصاب کے باعث قربانی واجب ہے، وہ چاہتے ہوئے بھی قربانی نہیں کر سکتا۔
منڈی کا بھاؤبڑھانے میں سب سے اہم کردار ہمارے اس دکھاوے نے کیا ہے۔ پھر یہ دکھاوا یہاں ختم نہیں ہوا۔ اب مہنگا جانور لانے کے بعد اس کی نمائش بھی کی جاتی ہے۔ اس کے لیے ہمارے لوگوں کو جو سب سے بہترین جگہ نظر آتی ہے وہ ’’راستہ‘‘ہے۔ اس نمائش کی غرض سے اپنا جانور گھر کے باہر گلی ،محلوں کے راستے میں باندھا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں راہگیروں کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نمازی حضرات کا خود کو بچا کر مسجد پہنچنا دشوار ہوجاتا ہے۔ پھر ان جانوروں کے لیے بھاری قسم کے ’’بلب ‘‘لگائے جاتے ہیں جو بہت وافر مقدار میں بجلی کھینچتے ہیں۔
ان جانوروں کی مزید نمائش کے لیے دن کے وسط سے رات کے آخری حصے تک ان جانوروں کو گھمایا جاتا ہے، جس سے ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوتی ہے اور جگہ جگہ جانوروں کا فضلہ بھی پڑا ہوتا ہے ۔ پھر جب جانور قربان کرنے کی باری آتی ہے تو مزید ظلم یہ ہوتا ہے کہ ان جانوروں کو بیچ چوہراہوں پر ذبح کیا جاتا ہے، تاکہ اس دکھاوے کا اختتام بھی دل کش ہو۔ چوں کہ یہ دکھاوا روز بروز بڑھ رہا ہے اور لوگ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لے رہے ہیں تو جانوروں کے پیوباری بھی اس میں کیوں پیچھے رہیں؟
اپنا جانور زیادہ طاقت وردکھانے کی غرض سے اسے ایسے انجکشن لگائے جاتے ہیں جس سے بظاہر ان کا جسم تو بھاری لگتا ہے، مگر وہ بے زبان جانور اس سے شدید تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے اوراس انجکشن زدہ جانور کا گوشت بھی مضر صحت ہوتا ہے۔ پھر ان جانوروں کو خوش نما دکھانے کے لیے ان سے ’’ماڈلنگ‘‘ کرائی جاتی ہے۔ اتنے بھاری اور غیر ضروری جسم کے ساتھ ان جانوروں کا اٹھنا بیٹھنا بھی محال ہوتا ہے، چہ جائیکہ انہیں چلایا جائے۔ ان تمام تر خرابیوں کا صرف ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے اس عظیم فریضے کو اپنے نفس کی اتباع کی بھینٹ چڑھا دینا۔ اگر اس قربانی کو اس مقصد کی خاطر کیا جاتا جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتایا ہے تو سوال ہی نہیں ہوتا کہ یہ خرابیاں وجود میں آئیں۔
پھر ان ہی خرابیوں کے باعث دین سے دور آزاد خیال لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ نعوذ باللہ یہ فریضہ ہی ٹھیک نہیں۔ اس کی جگہ کسی غریب بچی کی شادی کرادی جائے وغیرہ۔ اگر چہ خدمت خلق بہت بڑی عبادت ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتے ہیں، مگر اس فریضے کو قربانی کا نعم البدل قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے غذا کو پانی کا نعم البدل قرار دے دیا جائے۔ غذا اور پانی جس طرح جسم کی ضرورت ہیں اور ان میں سے ایک کو دوسرے کا نعم البدل قرار دینا درست نہیں۔ اسی طرح دو الگ الگ فریضوں کوایک دوسرے کا نعم البدل قرار دینابھی درست نہیں، لیکن اس منفی سوچ کا سبب اس فریضے میں ہماری جانب سے لائی جانے والی خرابیاں قرار پائیں۔
عبادت چاہے کوئی بھی ہو، اسے اس طرح ادا کرنا ہے کہ اللہ کے احکام کی مکمل پاس داری ہو، نہ کہ اپنی نفسانی خواہش کے مطابق اسے انجام دیں ۔ اگر یہ بات ہم سمجھ جائیں توتعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود بھی جس زوال کا ہمیں سامنا ہے، وہ عروج میں تبدیل ہوجائے گا۔ لہٰذا مسلمان بھائیوں سے درخواست ہے کہ قربانی جیسا دینی و مذہبی فریضہ اس طور پر ادا کریں کہ سامنے صرف اللہ کی ذات ہو اور طریقہ صرف پیارے آقا ﷺ کا ہو۔
پھرجب ہم جانور پر چھری پھیریں تو وہ چھری اللہ کے احکام بن کر ہمارے نفس پر چل جائے، تاکہ ہمارا رب ہم سے راضی ہوسکے اور ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوسکیں، ورنہ ہماری عبادات روز محشر ہمارے منہ پر ماردی جائیں گی اور ہم اس وقت رسوا ہوجائیں گے۔ یاد رکھیں اُس وقت کی رسوائی سب سے بڑی رسوائی ہوگی۔