• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناگہاں سارا جہاں تاریک ہوگیا۔ مکان سے لامکان تک اندھیرا چھاگیا اس اندھیرے میں ایک بڈھا نظرآیا۔ رومی نے بتایا… یہ ابلیس ہے۔ اس کا پیالہ دل کے خون سے لبریز ہے۔ بہ بڈھا، اپنی نگاہ سے انسان کا ایکسرے کر لیتا ہے۔ (دل کی بات جان لیتا ہے) … لیکن خدا کے حضور کبھی حاضر نہیں ہوتا۔ گو اس نے ہزاروں پیغمبر دیکھ لئے، مگر رہا کافر کا کافر، ابلیس نے اپنی نیم باز آنکھوں سے مجھے دیکھا اور کہا… گو میرے پاس خدمت کیلئے نوکر چاکر نہیں ہیں… لیکن ہزاروں پیر وملّا میرے غلام ہیں۔ 

انہوں نے میری خاطر کعبے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے… اے اقبال، میں نے آدم کو سجدہ نہ کرکے اچھا کیا۔ دنیا میں ساری رونق اسی انکارکی وجہ سے ہے۔ خیرو شر کی تکرار بھی اسی سے ہے۔ لیکن میری ’’نہیں‘‘ کے پردے میں ’’ہاں‘‘مضمر ہے۔ میں آدم کے دُکھ سے واقف ہوں۔ اے اقبال میری پیروی نہ کر دنیا میں جب تک شکار موجود رہے گا۔ شکاری بھی رہیں گے۔ میں نے جواب دیا… زندگی کا لطف ہی فراق میں ہے۔ فراق کی سرمستی کاکیا کہنا۔ خدا سراپا خیر اور میں سراپا شرہوں۔ اگرشر اور خیر ایک ہو جائیں تو خدا کو کون پہچانے گا۔ کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو۔

پرانی یادوں نے ابلیس کو سرمست کردیا۔ وہ کچھ دیر تک اپنے دھوئیں میں تڑپتا رہا پھر نظروں سے غائب ہو گیا۔

مشتری کی سیر ہوچکی۔ اقبال اور رومی نئے فلک زحل کی طرف روانہ ہوگئے… زحل پر کچھ خبیث رُوحیں رہتی ہیں۔ جنہیں قبول کرنے کے لئے دوزخ بھی تیار نہیں۔ ان لوگوں میں میر جعفر اور میر صادق بھی نظرآرہے ہیں۔ ان کی غداری سے ملک و دین تباہ ہوئے۔پھرآسمان پھٹ گیا اور ایک حو ر نے اپنے چہرے سے پردہ اٹھایا۔ اس کی پیشانی روشن اور آنکھیں خوبصورت تھیں۔ لباس بادل کی طرح لطیف اور پھول کی طرح رنگین تھا۔ اتنی خوبصورت حور درد سے کراہ رہی تھی۔ رومی نے بتلایا یہ ہندوستان کی روح ہے اس کے نالے سن کر جگر پھٹ جاتا ہے۔

وہ حور رُو رُو کر کہہ رہی تھی۔ فانوس میں رکھی شمع بجھ گئی۔ اہل ہند اپنی ناموس سے بے گانہ ہوئے۔ ان ہستیوں نے ہندوستان کو برباد کیا ان ہی کی وجہ سے میرے پائوں میں بیڑیاں پڑی ہیں۔ ان کے وجود سے آدمیت اذیت میں مبتلا ہے۔ جب یہ (میر جعفر) مر جاتے ہیں تو ان کی خبیث روحیں دوسرے لوگوں کے جسم میں داخل ہو جاتی ہیں اور دوسرے میر جعفر پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے قوم ذلیل وخوار ہو جاتی ہے۔

قلزم خون میں غداروں کی روحیں فریاد کر رہی تھیں،تو بجلی کڑکی، سمندروں کا سینہ پھٹ گیا۔ سمندر تہہ و بالا ہو گیا۔ موجیں بے قابو ہوگئیں۔ جرمنی کے مرد عاقل نطشے کی آواز آئی۔

ہرلمحے زندگی اور موت میں کشمکش چلتی رہتی ہے خوش نصیب ہے وہ شخص جو موت کو سمجھ لے۔ ہر جہاں کے اپنے اپنے چاند ستارے ہیں اوراپنا اپنا وقت ۔

اے اقبال اب آگے چل ۔۔ وہ مقام آگیا ہے جہاں بولے بغیر باتیں ہوتی ہیں۔ اس جہاں میں دن ہے نہ رات مشرق ہے نہ مغرب یہ جہاں لازوال ہے۔ ہر لمحے اس کا نیا کمال ہے۔ یہاں کی ہوائوں میں عنبر کی خوشبو ہے جہاں خیمے آراستہ ہیں۔ اور خیموں کے اندر حوریں مستور ہیں۔

یہاں اقبال کی ملاقات کشمیر کے بزرگ شاہ ہمدان سے ہوئی۔ اقبال نے کہا، اے حضرت یہاں آدمی، آدمی کو کھا رہا ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کولوٹ رہی ہے۔ کشمیریوں کی بے بسی دیکھ کر۔ میرا دل تڑپ رہا ہے۔ چنار کے درختوں میں آگ لگی نظرآتی ہے۔ غروب آفتاب اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ اللہ کا جمال بے نقاب نظر آتا ہے…ایک دیوانہ فریاد کر رہا ہے۔

اگر تیرا گزر اقوام متحدہ سے ہو تو بتانا۔ ظالموں نے کھیت،کسان اور ندیاں بیچ دیں۔ پوری قوم بیچ دی اورکتنی سستی بیچ دی۔

شاہ ہمدان نے کہا… بیٹا میری بات سن، یہ جسم مٹی ہے اور اس میں روح ہوتی ہے۔ روح کی خاطر جسم کو قربان کردینا چاہئے۔ اپنے آپ کو پالینے کی جستجو میں اپنے آپ کو نہ پاتا۔ گویا نابود ہو جاتا ہے۔ اے نوجوان تو کشمیر کی آگ کو شعلے سے خالی نہ سمجھ، اے اقبال اگر تو بے قرار ہے تو ہم بھی بے قرار ہیں۔ وہ وقت قریب ہے جب کشمیری اُٹھ کھڑے ہوں گے۔

بھرتری ہری… ایک قدیم ہندوستانی شاعر

خیموں میں مستورحوریں میرا کلام سن کر وجد میں آگئیں۔ رومی نے مجھ سے کہا۔ اے اقبال ذرا اس شاعر (بھرتری ہری)کو دیکھ جس کی فیض نگاہ سے شبنم کا قطرہ موتی بن جاتاہے۔ اس کی فطرت اَبربہار کی سی ہے اس کے الفاظ میں ایک جہاں معنی پوشیدہ ہوتا ہے۔ ہم اس کی تعظیم کو کھڑے ہوگئے۔ میں نے کہا، اے ہری تو بڑا دانا ئے رازہے۔ مجھے بتاکہ شعر میں سوزکہاں سے آتا ہے۔ بھرتری ہری نے کہا…ایسا شاعر جس کے پہلو میں دل بے قرار ہو۔ 

وہ خدا کے حضور بھی بے قرار رہتا ہے۔ یہ شعر میں سوز آرزو سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ بت بے کار ہیں۔ ان سے بڑھ کر ایک اصلی خدا ہے جو عبادت گاہوں سے ماورا ہے۔ اس جہاں میں چرخا بھی تیرا ہے۔ دھاگہ بھی تیرا۔ تیری ہرکامیابی اور ناکامی تیرے عمل کا نتیجہ ہے۔ جنت دوزخ سب اعمال کا نتیجہ ہیں۔

اس کے بعد اقبال کی ملاقات نادر شاہ، ناصر خسرو علوی اور سلطان شہید ٹیپو سے کرائی گئی۔ ٹیپو سلطان نے کہا میں مولائے کل ؐ کے حضور حاضر تھا، وہاں کسی کو بولنے کی اجازت نہیں مگر میرے لبوں پر بے اختیار تیرے شعر آگئے۔ آپ ؐ نے دریافت فرمایا۔

یہ کس کا شعر ہے، اس میں زندگی کے ہنگامے پوشیدہ ہیں اے اقبال تو بھی زندہ رودے۔ دریائے کا ویری بھی زندہ رود ے زندگی ہر لمحے ایک نیا انقلاب ہے۔ ٹیپو نے کہا مشت خاک کے اندر ایک دل ہے۔ دل کے اندرایک آرزو، گناہ سے لذتِ یاب ہونے کا اسے بڑا شوق ہے۔ اے اقبال تو نے میرے مزار پر حاضری دی۔

سلطان شہید کی باتیں سن کر میرا صبرو قرار جاتا رہا۔ میرا دل وہاں سے اُٹھنے کو نہیں کرتا تھا۔ مگر مجبوراً اٹھا۔ حوریں راستے میں حائل ہوگئیں کہنے لگیں ابھی نہ جائو۔ کچھ دیر اور بیٹھو، اور کوئی غزل سنائو میں نے کہا… عشق ہردم سفرمیں رہتا ہے۔

غزل … تو انسان کو تو سمجھا نہیں۔ خدا کو سمجھنے کی بے سود کوشش کر رہا ہے۔ پھول شاخ سے ٹوٹ کرقبا سے کیا طلب کر رہا ہے۔ مشک ازفر کیا چیز ہے۔ خون کی ایک بوند ہے۔ اے غزال حرم تو صحرا میں کیا ڈھونڈ رہا ہے۔ خدا سے بادشاہوں کا تخت طلب کر… بوریا نہ مانگ۔ ہم وہ پرندے نہیں جو اپنے گھونسلے گم کرچکے ہیں…… میں نے آئینے میں دیکھا، حیرت اور یقین اکٹھے ہوگئے۔ میں نے ایک لمحے میں گزرا ہوا وقت اور آنے والا وقت دیکھ لیا۔

جمال حق کا مشاہدہ ۔ بدن کی قید سے آزادی ہے… اے خدا تیری دنیا میں زیادہ تر لوگ عیش و عشرت میں مست ہیں۔ مغلوب اور مظلوم لوگ دکھوں سے کراہ رہے ہیں۔ مسلمانوں پرچارعذاب مسلط ہیں۔ سود خوار… نالائق حکمران… ملّا اور پیر … آب و گل کا یہ جہاں تیرے دامن پر داغ ہے۔

ندائے جمال آئی۔ کاتب تقدیر نے جولکھنا تھا لکھ دیا۔ جس کے اندر قوت تخلیق نہیں ہے۔ وہ زندیق ہے جس نے ہمارے جمال سے اپنا حصہ نہ پایا گویا اس نے زندگی کا پھل نہ پایا… زندگی کی اصل حئی و قیوم ہے خدا نے فرمایا اے بندے میں تیری رگ جان سے بھی زیادہ تیرے نزدیک ہوں تو جید کی برکت سے فرد لاہوتی ہو جاتا ہے اور قوم جبروتی۔ مطلب یہ کہ غالب اور حکمران… میں نے پوچھا یہ بتائیے میں کون ہوں اور آپ کون ہیں، آواز آئی۔ تو، جس دنیا میں رہتا ہے۔ 

وہاں موت ضرور آتی ہے۔ اگر حیات جاوید کا طالب ہے تو خودی اختیار کر، پھر سب رازکھل جائیں گے۔ میں نے کہا… اس مرد ناداں کی معذرت قبول کر… اور بتا اب کیا ہونے والا ہے۔ اچانک میری نظر اپنے جہاں پر پڑی اور اسے عنابی رنگ میں دیکھا۔ میرے اوپر تجلی گری اور میں بے ہوش ہوگیا۔ میرے اوپر تجلی گری اور میں بے ہوش ہوگیا۔ میری زبان سے بولنے کی طاقت چلی گئی اور ایک آواز سنائی دی۔ جو نگینہ تو نے شیطان کے پاس ہاردیا ہے وہ تو جبریل کے پاس بھی گروی نہیں رکھا جا سکتا۔ تو سب کے ساتھ ساتھ چل اور سب سے بے نیاز بھی رہ۔ تیری کم ظرفی کے باعث مے کدہ رسوا ہوگیا۔ اب تو بھی یہاں سے رخصت ہو جا۔

یہاں یہ افلاکی سفر تمام ہوتا ہے۔

اس کے بعد حضرت علامہ اپنے بیٹے جاوید اقبال سے مخاطب ہوتے ہیں اور اس کے پردے میں نئی نسلوں سے خطاب کرتے ہیں۔

جو کچھ میرے دل کی گہرائیوں میں ہے باہر نہیں آرہا… تُو اس کا سوز میری آہ سحرگاہی سے حاصل کر، پہلادرس تو تجھے تیری ماں نے دیا کہ کلمہ لااِلہٰ سکھا دیا۔ لااِلہٰ روح میں ڈوب کر کہاکر… مومن ہوتے ہوئے… غربت اور نفاق کی زندگی بسر کرنا… مومن کی شان کے خلاف ہے۔ ایسے شخص کی روزے نماز میں اثر نہیں رہتا بیٹا اگر خدا تجھے صاحب نظر کرے تو زمانے کو غور سے دیکھنا۔ لوگوں کی عقلیں بے باک اور دل پتھر کی طرح سخت ہوں گے۔ اورآنکھیں شرم و حیا سے عاری۔ ایشیا والے اپنی قدر سے ناواقف ہوں گے۔ غیر انہیں لوٹیں گے۔ میں نے سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ عشق کی اصل ذکر ہے اور عقل کی اصل فکر ہے۔ اللہ کرے تجھے عقل اور عشق دونوں عطا ہوں۔

نوجوانوں کے پیالے خالی ہیں۔ وہ پیاسے ہیں۔ ان میں ظاہری چمک تو بہت ہے۔ لیکن ان کی روحیں تاریک ہیں۔ ان نوجوانوں کی اپنی کوئی شخصیت نہیں۔ دوسروں کی شخصیت سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔

جو درس کتابوں کی بجائے نظرسے دیا جائے وہ علم کتابی سے افضل ہوتا ہے مرشد کی نگاہ سے فیض جاری ہوتا ہے۔ جب باد سحر چلتی ہے تو چراغ بجھ جاتے ہیں۔ لیکن گل لالہ، کھل جاتے ہیں… کم کھا۔ کم سو۔کم بول۔ اپنی خودی کی حفاظت کر۔ زندگی لذت پرواز کے سوا کچھ اور نہیں دین کا راز سچ بولنے اورحلال کا رزق کھانے میں ہے۔ دین کیا ہے۔ اللہ کی طلب اور جستجو۔ گدھ اورکّوے مردار کھاتے ہیں جبکہ شاہین مردار نہیں کھاتا۔ 

مردِ حق کو تلاش کر۔ اگر نہ ملے تو پیر رومی کو اپنا ساتھی بنالے۔اس لئے رومی مغز اور چھلکے کی پہچان رکھتے ہیں۔ لوگ ان کی مثنوی پڑھتے تو ہیں سمجھتے نہیں… ان سے رقص بدن تو سیکھتے ہیں۔ رقص روح نہیں سیکھتے۔ جسم کے رقص سے زمین وجد میں آجاتی ہے اور روح کے رقص سے آسمان لیکن رقص روح سیکھنا بے حد مشکل کام ہے۔ اے میرے بیٹے جاوید اگر تو رقص روح سیکھ لے تو … میں تیرے لئے قبر سے بھی دعائیں کرتا رہوں گا۔ خدا حافظ۔

قارئین: آپ نے یہ مثوی پڑھ لی۔

ایسا لگتا ہے کہ علامہ کو پاکستان کے مسلمانوں کی کمزوریاں معلوم تھیں علامہ اقبال جیسا وژن اور اخلاص رکھنے والا۔ کوئی دوسرا نہ آیا اقبالؒ کے وجدان پر حیرت ہے۔ ان کے مشاہدے، مطالعے اور زور بیان پرحیرت ہے۔

پاکستان پر اللہ کی خصوصی عنایت ہے۔ زمین زرخیز دریا لبریز… فصلیں بھر پور… کانیں جواہر سے معمور… لیکن سب سے بڑا خزانہ تو حضرت علامہ ؒ ہیں… پاکستانیوں نے ان کی وہ قدر نہ جانی جو ان کا حق تھا… خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہئے۔ اس احقر نے ان کا کلام عام کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ یقین ہے علامہ سے عقیدت ر کھنے والے خصوصی طور پر لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ اگر کہیں کوئی خامی رہ گئی ہو تو معافی کا طلبگار ہوں… عادل

علامہ علم اور عقل کا سمندر ہیں۔ میں نے اپنی مٹھی بھرلی ہے۔

……٭٭……٭٭……

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔

تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی