معروف شاعر، ادیب اور مزاح نگار، ابنِ انشاء اردو ادب میں ایک ممتاز و منفرد مقام رکھتے ہیں، بیسویں صدی کے اردو شعر و ادب کے لیے وہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے۔ انھوں نے جہاں اُردو نظم و غزل، ناول،کہانیوں، افسانوں، سفر ناموں، کالم نگاری، تراجم، بچّوں کے ادب، مکتوبات اور دیگر ادبی اضاف پر کام کرکے اُردو زبان کو بیش بہاعلمی و ادبی خزانے سے مالا مال کیا، وہیں اردو شاعری کو بھی حُسن و جمال، تازگی و لطافت اور رُوحِ حیات بخشی۔ وہ اپنے اسلوبِ تحریر، اندازِ بیاں اور منفرد رنگِ سخن کی وجہ سے میر، کبیر اور نظیر اکبر آبادی کے ہم قلم شاعر تصور کیے جاتے تھے۔ اُن کے کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان کے اشعار، گیت و غزلیات انسانی جذبات کے قریب تر ہونے کے سبب گویا دل کے تار چُھو لیتے تھے۔ وہ دراصل زبان و بیان میں اپنے جذبات و احساسات کو بھر پور انداز میں جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
15 جون 1927ء کو ضلع جالندھر کی تحصیل، پھلور میں پیدا ہونے والے معروف شاعر، ادیب اور مزاح نگار، ابن انشاء کا اصل نام شیر محمد خان تھا۔ والد کا نام چوہدری مُنشی خان اور والدہ کا نام مریم تھا۔ 1942ء میں لُدھیانہ ہائی اسکول سے میٹرک کا اِمتحان پاس کرنے کے بعد انبالہ چھاؤنی میں بحیثیت کلرک بھرتی ہوئے۔ پھر 1946ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے اور قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آئے تو یہاں کے پُرفضا ادبی ماحول میں ہر طرف انجمن ترقی پسند مصنّفین کی گونج تھی۔ اُن دنوں ساحر لدھیانوی کے زیرِ ادارت ایک معیاری ادبی جریدہ ’’سویرا‘‘ نکلا کرتا تھا، جس کی دُور دُور تک شہرت تھی۔
اس جریدے سے ادب برائے زندگی کی آواز نمایاں سنائی دیتی تھی، تو ایسے ہی علمی و ادبی ماحول میں ناصر کاظمی، اے حمید، ابراہیم جلیس، اشفاق احمد، احمد بشیر، حمید اختر اور سبط حسن جیسی قد آور شخصیات کی صحبت و شفقت نے اُن کی ادبی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کیا۔ لاہور آکر انہوں نے ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کرلی اور جب 1949ء میں ریڈیو پاکستان، لاہور کا خبروں کا شعبہ کراچی منتقل ہوا، تو وہ بھی کراچی آگئے، جہاں شعبۂ خبر کو بہتر خطوط پر استوارکرنے کے بعد 1950ء میں اس ملازمت سے سبک دوش ہوئے۔
بعدازاں، پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سیکریٹریٹ میں سینئر ٹرانس لیٹر کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ اسی دوران 1951-52ء میں بابائے اردو، مولوی عبدالحق کی قربت نصیب ہوئی، جو آگے چل کر گہری رفاقت میں بدل گئی۔ بابائے اردو، مولوی عبدالحق انہیں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 1955ء میں ابنِ انشاء کا اوّلین شعری مجموعہ ’’چاند نگر‘‘ شایع ہوا، تو ادبی حلقوں میں ایک دھوم مچ گئی۔ اس کے بعد 1961ء میں وہ ’’پاکستان کاؤنسل آف ایگری کلچر ریسرچ‘‘ سے بحیثیت اسسٹنٹ ڈائریکٹر پبلی کیشن وابستہ ہوئے۔ اسی دوران انہیں یورپ جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ واپسی پر انہیں نیشنل بک سینٹر کا مرکزی ڈائریکٹر مقرر کردیا گیا۔ اس منصب پر رہتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں علم و ادب کے فروغ و ترقی کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں، لاتعداد ممالک کے دورےکیے۔
یونیسکو کے مطالعاتی امور کے سلسلے میں بین الاقوامی فورم پر پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے، جو ایک بڑا اعزاز ہے۔ بعدازاں یونیسکو کی طرف سے فلپائن، سری لنکا، انڈونیشیا اور افغانستان میں سفیر مقرر ہوئے۔ انھوں نے مختلف ممالک کے سیّاحتی دوروں سے متعلق اپنی کتاب ’’آوارہ گرد کی ڈائری‘‘ میں ان ممالک کے حالات کو انتہائی دل کش انداز میں بیان بھی کیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ وہ رقم طراز ہیں کہ ’’آج ہم اپنے سفر کی بارہویں ولایت اور ستائیسویں شہر کو خیرباد کہیں گے۔ اے وقت تیز ترک گامزن۔ اے گھڑی کی سوئیو، چلو، چلو،چلو۔ نسیمِ خوش دلی از فتح پور می آید۔ بس ایک شام اور درمیان ہے، پھر ہم اپنی کمر کھولیں گے، جوتوں سے ان رہ گزاروں کی گرد جھاڑیں گے۔ مسافرت کے دنوں، ہم سفروں، میزبانوں اور مہربانوں کو یاد کریں گے، صعوبتوں کو بھول جائیں گے۔‘‘
انشاء جی نے اردو ادب میں جدّت و ندرت کا تازہ کاری و شگفتہ نگاری پر مبنی ایک ایسے انداز کی داغ بیل ڈالی، جس کی اس سے قبل مثال نہ ملتی تھی اور ان کی اسی خوبی کے باعث اُنہیں بیسویں صدی کی ادبی دنیا میں اہم و ممتاز مقام ملا۔ انہیں اُن کی ادبی خدمات، شاعری، سفر ناموں، خطوط، فکاہیہ کالموں، تراجم، افسانوں، ناول نگاری اور دیگر ادبی و علمی کاوشوں کی بدولت ادبیاتِ اردو میں’’Man of Letters‘‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ ان کی تصنیفات میں چاند نگر، دلِ وحشی، بلّو کا بستہ، اس بستی کے اِک کوچے میں، آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے، نگری نگری پِھرا مسافر، خمارِ گندم، آپ سے کیا پردہ، اردو کی آخری کتاب اور خط انشا جی کے شامل ہیں۔
انشاء جی اپنی پیشہ ورانہ ذمّے داریوں اور بے پناہ مصروفیات کے باوجود مختلف اخبارات میں کالمز بھی لکھتے رہے۔1967ء میں جب جنگ گروپ کی طرف سے ہفت روزہ ’’اخبار جہاں‘‘ کا اجراء ہوا تو اس میں بھی اُن کا کالم ’’باتیں انشاء جی‘‘ کئی سالوں تک باقاعدگی سے چھپتا رہا۔ 1966ء میں وہ چین کے سفر پر روانہ ہوئے، جہاں پیکنگ (بیجنگ) یونی ورسٹی کے شعبہ اردو کے طلبہ کے طلبہ و طالبات کے ساتھ یونی ورسٹی کا دورہ کیا۔ چین سے لوٹتے ہی جاپان کے سفر پر روانہ ہوگئے کہ جاپان کے شہر ٹوکیو میں یونیسکو کی طرف سے ایک کانفرنس کتاب کی ترقی و فروغ کے لیے منعقد کی گئی تھی اور اس میں کوریا سے ایران تک کے ادیب مدعو تھے۔
اس کانفرنس میں انہیں بڑی پذیرائی ملی اور یہیں سے انھیں یونیسکو کا مشیر مقرر کرکے افغانستان، انڈونیشیا اور فلپائن کے دورے پر بھیجا گیا۔ 1967ء میں ترکی کے دارالحکومت، انقرہ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے شرکت کی اور اسی سال ایک تربیتی ورکشاپ کے لیے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ گئے۔ اس کے علاوہ سنگاپور، کوالالمپور اور دیگر ممالک میں بھی وقتاً فوقتاً یونیسکو کے تحت منعقدہ کانفرنسز میں شرکت کرتے رہے۔
چوں کہ یونیسکو کے مشیر کی حیثیت سے متعدد یورپی و ایشیائی ممالک کا دورہ کیا، تو ان اسفار کا احوال اپنے مخصوص طنزیہ و فکاہیہ انداز میں سفر ناموں کی صُورت رقم بھی کیا۔ اُن کی گراں قدر ادبی خدمات کے پیشِ نظر 1977ء میں انہیں لندن کے سفارت خانے میں تعینات کیا گیا، جہاں اردو مخطوطات کو مائکرو فلم کے ذریعے محفوظ کرنے کا کام ان کے سپرد کیا گیا۔نیز، 1978ء میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔
ابنِ انشاء زندگی کے آخری حصّے میں کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ اگرچہ بحیثیت اعلیٰ عہدے دار وہ منہگے سے منہگا علاج کروانے کا حق رکھتے تھے، مگر انہوں نے اپنے ذاتی علاج کے اخراجات کا بوجھ مُلک پر ڈالنا گوارا نہیں کیا اور نیشنل ہیلتھ اسکیم کے تحت ہی اپنا علاج کرواتے رہے، جب کہ اس بیماری کے عالم میں بھی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ اُن کے مقبولِ عام اور زبانِ زدِ عام کلام میں ’’کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا، انشاء جی اٹھو، اب کوچ کرو، فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں، ایک بار کہو، تم میری ہو، سب مایا ہے، یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، دروازہ کھلا رکھنا اور بلو کا بستہ وغیرہ شامل ہیں۔
اُردو ادب کا یہ عظیم انقلابی شاعر، شگفتہ مزاج ادیب، معتبرکالم نگار، شان دار سیّاح، افسانہ و ناول نگار، کتاب کا سچّا عاشق اور ادب دوست انسان 11 جنوری 1978ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوا، تو اردو زبان کا دامن ان کی بے مثال تصنیفات و تالیفات کے خزانے سے مالا مال تھا۔