• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی شفیق الدین الصلاح

بعض مرتبہ یہ سوال اُٹھتا ہے کہ تعویذ کا کیا حکم ہے؟ اور دم و تعویذ میں کیا فرق ہے؟ سو یاد رکھئے کہ ان میں وہی فرق ہے جو کلامِ الٰہی اور کتاب اللہ میں ہے۔ کتاب اللہ کو لکھا جاتا ہے اور کلام اللہ کو پڑھا جاتا ہے، جس طرح ہم کلام اللہ کی عزت کرتے ہیں، ناپاک ہونے کی حالت میں اُسے اپنی زبان پر نہیں لاتے، قرآن کریم کتاب کی صورت میں ہے تو اُسے چھو بھی نہیں سکتے، اگر یہ لکھا ہوا قرآن واجب الاحترام نہ ہوتا، تو آنحضرت ﷺ یہ نہ فرماتے کہ جب دشمن کے علاقے میں جاؤتو لکھا ہوا قرآن (مصحف) وہاں نہ لے جاؤ، کہیں دشمن کے ہاتھ لگے اور وہ اس کی بےاحترامی کریں۔

علاج بالقرآن دم سے ہو سکتا ہے تو لکھے ہوئے پاک اور طیب کلمات سے کیوں نہیں ہو سکتا؟ وہاں بھی اس میں تاثیر اذنِ الٰہی سے آتی ہے،اور تعویذ میں بھی حروف و کلمات مؤثر بالذات نہیں، اثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے ،جب وہ چاہے۔ رہا پاک کلمات کو حروف میں لکھنا تو اس میں ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ان کلمات اور آیات پر دلالتِ لفظی ہو تو یہ وہ صورت ہے جو ہمیں عیاناً (کھلی ہوئی) نظر آتی ہے اور دلالتِ وضعی ہو تو یہ ان کلمات کے حروفِ ابجد ہیں اور ان میں بھی اثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی آتا ہے، یہ حروف بالذات کوئی اثر نہیں رکھتے ۔

تعویذ میں روحانی اثرات

حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنی نیند میں گھبرا جائے اُسے چاہیے کہ وہ یہ کلمات پڑھے : ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہٖ وَعِقَابِہٖ وَشَرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنَ۔‘‘ تو وہ خواب اُسے ہر گز نقصان نہ دے گا ، آپؓ کے پوتے کہتے ہیں: حضرت عبد اللہؓ کی اولاد میں جو بالغ ہو جاتا تو آپ اُسے یہ کلمات سکھادیتے ، اور جو نابالغ ہوتا تو آپ اس کے گلے میں یہ دعا لٹکا دیتے تھے :(سنن ابو داؤد و ترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ، ص: ۲۱۷)

اس سے معلوم ہوا کہ کلام پاک کا پڑھنا اور کلماتِ مبارکہ تعویذ لکھ کر بنانا اور اُسے بدن سے باندھنا دونوں عمل جائز ہیں۔ اگر یہ عمل ناجائز ہوتا تو آنحضرت ﷺ کے جلیل القدر صحابیؓ کبھی بھی اپنے بچوں کے گلے میں تعویذ نہ ڈالتے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کے اس عمل سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آپ تعویذات کے اثر کے قائل تھے ، جب ہی تو آپ نے تعویذ لکھا اور اسے اپنے بچوں کے گلے میں ڈالا۔ یہ کلمات کوئی روحانی تاثیر نہ دیتے تو آپ ہی بتائیں کیا صحابی رسول ایسا عمل کرتے ؟

ا س سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تعویذات جو اسمائے الٰہیہ اور کلماتِ مبارکہ پر مشتمل ہوں ، اپنے اندر ایک روحانی ا ثر رکھتے ہیں اور اس سے مریضوں کا علاج کرنا علاج بالقرآن ہی ہے۔ہاں!وہ تعویذات جو شرکیہ الفاظ پر مشتمل ہوں‘ ان کی قطعاً اجازت نہیں، جن روایات میں تمائم اور رُقٰی کو شرک کہا گیا ہے، اس سے مراد اسی قسم کے دم اور تعویذ ہیں، جن میں شرکیہ الفاظ و اعمال کا دخل پایا جائے۔ ’’التمائم‘‘ میں ’’ الف لام‘‘ اسی کے لیے ہے ، اور جو دم اور تعویذ اس سے خالی ہوں، ان کا استعمال جائز ہے اور اس کے روحانی اثرات ثابت ہیں۔ حضرت عوف بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ ہم دورِ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ،ہم نے آنحضرت ﷺ سے اس بابت پوچھا تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’أعرضوا عَلَیَّ رقاکم، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک۔‘‘ (صحیح مسلم ، مشکوٰۃ، ص: ۳۸۸)

اس سے پتا چلتا ہے کہ دم اور تعویذ میں اصل وجہِ منع کفر و شرک ہے، جب یہ نہ ہو تو وہ دم اور تعویذ جائز ہے، چنانچہ ابن تیمیہؒ اپنی کتاب ’’ مجموعۃ الفتاویٰ‘‘ میں تعویذ کے جواز پر لکھتے ہیں: کسی مریض کے لیے کتاب اللہ میں کچھ لکھ کر دینا یا اسے دھو کر پانی میں گھول کر پلانا، یہ دونوں جائز ہیں۔(مجموعۃ الفتاویٰ، ج: ۱۹، ص: ۳۶، ط: مکتبۃ العبیکان )

مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ ’’ کفایت المفتی‘‘ میں رقم طراز ہیں : ’’ قرآن شریف کی آیت تعویذ میں لکھنا جائز ہے۔‘‘ (کفایت المفتی ،الحظر والاباحۃ ، الفصل الثانی فیما یتعلق بالعوذۃ، ج: ۱۲، ص: ۴۸۲، ط: فاروقیہ)

مفتی محمد تقی عثمانی اپنی کتاب ’’ تکملۃ فتح الملہم‘‘ میں لکھتے ہیں : وہ تعویذات جن میں اللہ کے کلام اور مسنون دعاؤں کا ذکر ہو تو وہ قطعاً حرام نہیں، ان کاحرمت سے کوئی تعلق نہیں، ایسے تعویذات تو عام جمہور علماء کے نزدیک جائز ہیں، بلکہ بعض علماء نے اسے مستحسن قرار دیا ہے ، علامہ شوکانی ؒ  نے ان سے یہ ’’نیل الاوطار‘‘ میں نقل بھی کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ’’ فتح الباری‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’علماء نے دم اور تعویذ کے جواز پر اجماع کیا ہے، جب ان میں درج ذیل شرائط پائی جائیں: ۱:- وہ اللہ کے کلام، اسماء یا اس کی صفات پر مشتمل ہو ں۔ ۲ :- وہ عربی زبان یا پھر ایسی زبان میں ہوں جس کا معنی سمجھ میں آتا ہو ۔ ۳ :- یہ یقین رکھنا کہ اس میں بذاتِ خود کوئی اثر نہیں ، بلکہ مؤثر حقیقی اللہ جل شانہ کی ذات ہے۔ ( فتح الباری ،ج: ۱۰ ، ص: ۱۹۵ ، ط: دار الفکر بیروت )

’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں ہے کہ : ’’قرآنی آیات کے ذریعے دم میں علماء نے اختلاف کیا ہے، مثلاً :کسی کاغذ پر قرآن کی آیت لکھ کر مریض کے جسم پر باندھ لیا جائے ، یا کسی برتن میں آیات لکھ کر دھویا جائے اور مریض کو پلایا جائے ، تو عطاءؒ، مجاہدؒ اور ابو قلابہؒ اسے جائز سمجھتے ہیں اور امام نخعیؒ اور بصریؒ اسے مکروہ سمجھتے ہیں، لیکن مشہور کتابوں میں اس کے جواز پر کوئی نکیر وارد نہیں ہوئی ہے۔ آگے لکھتے ہیں کہ تعویذ کے لٹکانے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (الفتاویٰ الہندیۃ، الباب الثامن عشر فی التداوي ، ج: ۵، ص؛۳۵۶ ، ط: دار الفکر )

ابن القیم الجوزیۃؒ اپنی کتاب ’’ زاد المعاد‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’راوی کہتا ہے کہ میں نے ابو جعفر محمد بن علی سے تعویذ باندھنے کے بارے میں دریافت کیا کہ اس کا کیا حکم ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : اگر وہ اللہ اور نبی ﷺکے کلام پر مشتمل ہو تو اسے باندھ لیا کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ‘‘ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد ، کتاب عسر الولادۃ، ج:۴، ص: ۳۳۷، ط: مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت ۔ کذا فی الطب النبوی لابن القیم الجوزیۃ، حرف الکاف ، ج: ۱ ،ص: ۳۷۰، ط: دار الہلال، بیروت )

تفسیر ’’روح البیان‘‘ میں ہے : ’’تعویذ اگر مجرب دعا ، مجرب آیت یا اللہ کے اسماء پر مشتمل ہو ، اور کسی مصیبت یا بیماری کے دفعیہ کے غرض سے لٹکایا ہو تو یہ جائز ہے ، لیکن جماع اور بیت الخلاء جانے کے وقت نکالے گا ۔ ‘‘(روح البیان ، سورۂ یوسف ، آیۃ : ۶۸، ج: ۴، ص:۲۹۵، ط: دار الفکر ،بیروت )

’’ تفسیر قرطبی‘‘ میں ہے کہ : سعید ابن المسیب ؒ ،ضحاک اور ابن سیرین جیسے اکابر علماء اس کے جواز کے قائل تھے ۔(تفسیر قرطبی، سورۃ الاسراء: ۸۲ ، ج:۱۰ ، ص:۳۲۰،ط: دار المعرفۃ )

مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ لکھتے ہیں : قرآنی آیات کا تعویذ جائز ہے، جبکہ غلط مقاصد کے لیے نہ کیاگیا ہو ، حدیث میں جن ٹونوں ، ٹوٹکوں کو شرک فرمایا گیا ہے، ان سے زمانۂ جاہلیت میں رائج شدہ ٹونے اور ٹوٹکے مراد ہیں، جن میں مشرکانہ الفاظ پائے جاتے تھے، اور جنات وغیرہ سے استعانت حاصل کی جاتی تھی، قرآنی آیات پڑھ کر دم کرنا آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سے ثابت ہے اور بزرگانِ دین کے معمولات میں شامل ہے۔‘‘ ( آپ کے مسائل اور ان کا حل، تعویذ گنڈے اور جادو، ج: ۲، ص: ۴۹۹، ط: مکتبہ لدھیانوی)

علامہ شوکانی ؒ ابن ارسلانؒ سے نقل کرتے ہیں : ’’ابن ارسلان کہتے ہیں کہ ظاہر یہی ہے کہ یہ جائز ہیں، شریعت میں اس کے منع کی کوئی دلیل میں نہیں جانتا۔‘‘(فتاویٰ اہل حدیث، ج: ۱ ،ص: ۱۹۳ )

شفاء بنت عبد اللہ سے روایت ہے کہ میں ام المومنین حضرت حفصہؓ کے پاس بیٹھی تھی کہ آنحضرت ﷺ تشریف لائے، آپ نے مجھے کہا : ’’اے شفاء! کیا تو انہیں ( یعنی حضرت حفصہؓ کو) نملہ کا دم نہیں سکھا دیتی، جیسا کہ تو نے انھیں لکھنا سکھا دیا ہے؟ ۔‘‘(مسند احمد ج: ۱۷ ، ص: ۱۷۹ ،مبوب )

اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ دم اور تعویذ جس میں کفر و شرک اور غیر معروف الفاظ نہ ہوں اور الفاظ میں ذاتی تاثیر نہ سمجھی جائے ،اس کے منع پر کوئی دلیل وارد نہیں۔ شیخ احمد عبد الرحمٰن البنا ؒ لکھتے ہیں کہ یہ ہر گز ممنوع نہیں، بلکہ سنت ہے۔

غرض یہ کہ مذکورہ بالا دلائل و حوالہ جات سے یہ بات واضح اور عیاں ہوگئی کہ علاج بالقرآن کی ایک قسم تعویذ بھی ہے، اور اس کے روحانی اثرات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے مریض تعویذوں میں لکھی گئی آیاتِ قرآنیہ اور کلماتِ دعائیہ کی برکت سے کئی لا علاج امراض سے بھی نجات پا گئے ہیں۔ ہاں! ان میں تاثیر ان کلمات کی ذات سے نہیں، بلکہ اللہ رب العزت کے حکم ہی سے آتی ہے۔

اگر ان تعویذات اور دموں میں کوئی روحانی تاثیر نہ ہوتی ، اور اس کا باطنی فائدہ نہ ہوتا، تو آنحضرت ﷺ سونے سے پہلے قرآن کی آخری تین سورتیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک نہ مارتے اور انھیں اپنے بدن پر نہ ملتے، آپ ﷺیہ عمل تین مرتبہ فرماتے، حتیٰ کہ مرض الوفات میں جب آپ ﷺ خود کمزوری کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے، تو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے انہی سورتوں کو پڑھا، اور آپ کے ہاتھوں پر پھونکا اور پھر آپﷺ کے ہاتھوں کو آپ کے بدن پر مل لیا۔ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل ؑنے بھی آپ ﷺ کو دم کیا تھا۔ (صحیح مسلم)

آنحضرت ﷺ کا ان سورتوں کو پڑھ کر ہاتھوں پر دم کرنا اور پھر اپنے ہاتھوں سے پورے بدن کو ملنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ان آیات میں ضرور روحانی اثر ہے، اور یہ شیطانی اثرات سے بچانے کا ایک خاص عمل ہے، جو بظاہر نگاہوں سے مخفی ہوتا ہے ، لیکن باطنی آنکھ والے ان کی تاثیرات کھلے طور پر دیکھتے ہیں ، اور پڑھنے کے ساتھ ہاتھ پھیرنا یہ بھی ہر گز منع نہیں۔

یاد رہے کہ کہ دم اور تعویذ میں وہی فرق ہے جو کلام میں اور کتاب میں ہے، دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے اور دونوں کا اپنا اپنا احترام ہے ۔ لیکن تعویذ کے سلسلے میں بعض فحش غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں ، جس کی بیخ کنی نہایت اہم ہے اور اس سے قطعی پرہیز اور کنارہ کشی اختیار کرنا بہت ہی ضروری ہے :

۱:- بعض جاہلوں نے لکھا ہے کہ : مسلمان کی خیر خواہی کے لیے بوقتِ ضرورت شرکیہ الفاظ سے دم کرنا جائز ہے، سو یہ بالکل غلط ہے اور اس کا شریعت میں بالکل ثبوت نہیں ۔

۲:- اکثر عوام عملیات ( اور تعویذات وغیرہ ) کو ایک ظاہری تدبیر سمجھ کر نہیں کرتے ،بلکہ اسے سماوی اور اور ملکوتی چیز سمجھ کر کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ تعویذ گنڈوں کے متعلق عوام کے عقائد نہایت برے ہیں،حالانکہ عملیات ،تعویذ اور گنڈے وغیرہ بھی طبی دواؤں کی طرح ایک ظاہری سبب اور تدبیر ہیں، ( کوئی آسمانی اور ملکوتی چیز نہیں ) بس جس طرح دوا سے کبھی فائدہ ہوتا ہے اور کبھی نہیں ، اسی طرح تعویذ میں بھی کبھی فائدہ ہوتا اور کبھی نہیں، پھر بھی دونوں برابر نہیں ، بلکہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ عملیات میں فتنہ ہے اور دواء میں فتنہ نہیں ، اور وہ فتنہ یہ ہے کہ کہ عامل کی طرف بزرگی کا خیال و اعتقاد پیدا ہوتا ہے ، طبیب کی طرف بزرگی کا خیال پیدا نہیں ہوتا۔

۳:- ایک اور بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر تعویذ گنڈے وغیرہ سے کام نہ ہوا ، تو پھر آیاتِ الٰہیہ سے بد عقیدگی اور بد گمانی پیدا جاتی ہے۔

۴:- عملیات قریب قریب سب اجتہادی ہیں، روایات سے ثابت نہیں ، جیسا کہ عوام کا خیال ہے کہ ان عملیات کو اوپر ہی سے اور حضورﷺ سے ثابت سمجھتے ہیں ، یہ صحیح نہیں ہے ، بلکہ عاملین مضمون کی مناسبت سے ہر کام کے لیے مناسب آیات وغیرہ تجویز کرتے ہیں ۔

۵:- آج کل لوگ اپنے مقاصد میں اور امراض و مصائب کے دفعیہ میں تعویذ گنڈوں کی تو بڑی قدر کرتے ہیں ، اس کے لیے کوششیں بھی کرتے ہیں، اور جو اصل تدبیر ہے یعنی اللہ سے دعا، تو اس میں غفلت برتتے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ کوئی نقش و تعویذ دعا کے برابر مؤثر نہیں، بشرطیکہ تمام آداب و شرائط کی رعایت رکھی جائے۔ خلاصہ یہ کہ تعویذ بذاتہ جائز ہے، بشرطیکہ مذکورہ بالا شرائط کی رعایت رکھی جائے، اور درج بالا ناجائز اعتقادات سے خود کو پاک اور منزہ کیا جائے۔

اقراء سے مزید