مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
ترمذی شریف اور دیگر کتب احادیث میں حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ سے ایک روایت منقول ہے ، جس میں رسول اللہ ﷺسے ایک جامع دعا روایت کی گئی ہے۔ اس دعا کے الفاظ اگرچہ انتہائی مختصر ہیں، مگر اس کے مفہوم میں دنیا وآخرت کی تمام بھلائیوں اور اچھائیوں کی طلب اور تمام مصائب و مشکلات سے پناہ شامل ہے۔ حضرت عباسؓ رسول اللہﷺ کے عم محترم ہیں اور عمر میں آپ ﷺسے دو سال بڑے تھے، اسلام کی دولت سے مشرف ہونے سے قبل بھی حضرت عباسؓ رسول اللہﷺ کی نصرت اور حمایت میں پیش پیش رہتے تھے، اور آپ ﷺ کے بارے میں ہمیشہ فکر مند ہوتے۔
حضرت عباسؓ نے علانیہ طور پر فتح مکہ سے کچھ قبل اسلام کا اظہار فرمایا۔حضرت عباسؓ کو آنحضرتﷺ سے نہایت ہی محبت اور والہانہ تعلق تھا، وہ رسول کریم ﷺ کا بڑاہی ادب کیا کرتے تھے۔حضرت عباسؓ چونکہ عمر میں سرکار دو عالمﷺ سے دو سال بڑے تھے، لیکن عمر کے اس تفاوت کو کبھی اس انداز میں بیان نہیں کرتے تھے جس سے ظاہری طور پر بھی کسی قسم کی بے ادبی کا اندیشہ ہو، جواب دینے کا انداز ہی نرالا اور کمال ادب پر مبنی ہوتا تھا، اگر کوئی شخص ان سے سوال کرتاکہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ﷺ؟ اس سوال کا آسان جواب تویہ تھا کہ فرماتے : میں عمر میں بڑا ہوں، لیکن بجائے اس جواب کے حضرت عباسؓ کے جواب کا اندازیہ ہوتا تھا: بڑے تورسول اللہﷺ ہی ہیں، ہاں پیداپہلے میں ہوا تھا، یعنی میری پیدائش پہلے کی ہے،باقی بڑے تو رسول کریمﷺ ہیں۔دیکھیے!کس قدر مؤدبانہ انداز گفتگو اور جواب ہے۔
آنحضرت ﷺ بھی ان کا بڑا احترام فرماتے تھے، اور لوگوں کو بھی ا ن کے اکرام وتعظیم کا حکم دیتے ،ایک روایت میں آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: اے لوگو! جس نے میرے چچا کو تکلیف پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائی،اس لیے کہ کسی بھی شخص کا چچا باپ کی مانندہوتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ اہل بیتؓ کی محبت ہمارے ایمان کاحصہ ہے اور تمام صحابۂ کرامؓ کی محبت بھی ہمارے ایمان کا جزو ہے۔
صحابۂ کرامؓ بھی حضرت عباسؓ کی عظمت کے معترف تھے اور ان کی خوب قدر وعزت فرمایاکرتے تھے، امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطابؓ حضرت عباسؓ کے وسیلے سے دعا مانگا کرتے تھے، بخاری شریف میں ہے حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب کبھی بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی ہوتی تو امیر المؤمنین عمربن خطابؓ دعاکرتے : اے اللہ! ہم تیرے نبی کے وسیلے سے تجھ سے دعا کرتے ، پس تو ہمیں سیراب کرتا تھا، اور اب پیغمبرﷺ تو دنیا سے تشریف لے گئے ہیں ،اب ہم آپ سے اپنے نبی ﷺکے چچا کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں پس تو ہمیں سیراب کر۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ (اس دعا کی برکت سے) بارش ہو جاتی تھی۔ علماء نے لکھا ہے کہ جب صحابۂ کرامؓحضرت عباس ؓ کے وسیلے سے دعا مانگتے تو حضرت عباسؓ بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ اٹھاتے اورفرماتے '' اے پروردگار! تیرے پیغمبرﷺ کی امت نے میرا وسیلہ اختیار کیا ہے۔ خداوند! تو میرے اس بڑھاپے کو رسوا مت کر اور مجھے ان کے سامنے شرمندہ نہ کر۔'' چنانچہ حضرت عمرؓو دیگر صحابہ کرامؓ کی دعا اور حضرت عباسؓ کے ان الفاظ میں اتنی تاثیر ہوتی کہ جلدہی بارش شروع ہو جاتی تھی۔
حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ سے روایت ہے ،ارشاد فرماتے ہیں :میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! مجھے ایسی چیز بتائیے کہ جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپ ﷺنے فرمایا: تم اللہ سے عافیت مانگو۔ میں کچھ دن ٹھہرا رہا اور پھر دوبارہ آپﷺ کی خدمت میں گیا اور میں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ! مجھے ایسی چیز بتائیے کہ جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپ نے مجھ سے فرمایا : اے عباسؓ! اے رسول اللہ کے چچا!اللہ سے دنیا وآخرت میں عافیت مانگا کرو۔مذکورہ روایت میں حضرت عباسؓ نے دو بار سوال کیا اور دونوں بار جواب میں رسول اللہﷺ نے اپنے محبوب چچا کو عافیت کی دعا مانگنے کا حکم دیا، اس سے عافیت کی دعامانگنے کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہوتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ عافیت کے معنی کیا ہیں؟جس کے مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔علماء نے لکھا ہے :عافیت نہایت ہی مختصر اور جامع لفظ ہے،اور رسول کریم ﷺکی یہ خصوصیت ،بلکہ آپ کے معجزات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ’’جوامع الکلم ‘‘یعنی ایسے مختصر کلمات عطا فرمائے، جن کے معانی انتہائی گہرے اور عمیق ہوں۔ایک طویل حدیث میں رسول کریمﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ نے مجھے جو خصوصیات عطافرمائی ہیں ،ان میں سے ایک یہ بھی ہے ’’ وَأُوتِیتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ ‘‘۔ مجھے جامع کلمات عطاہوئے ہیں۔
اس کامطلب یہ ہے کہ دین کی حکمتیں اور احکام، ہدایت کی باتیں، مذہبی ودنیاوی امور سے متعلق دوسری چیزوں کو بیان کرنے کا ایسا مخصوص اسلوب اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے جو نہ پہلے کسی نبی اور رسول کو عطا ہوا اور نہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے فصیح وبلیغ انسان کو نصیب ہوا! اوراس اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ انتہائی مختصر سے الفاظ کے ایک چھوٹے سے جملے میں معانی ومفہوم کا ایک گنجینہ پنہاں ہوتا ہے،اگر اس جملے کو پڑھیں اور لکھیں تو چھوٹی سی سطر بھی پوری نہ ہو، لیکن اس کا فہم اور وضاحت اور تشریح بیان کریں تو کتاب کی کتاب تیار ہوجائے، چنانچہ آنحضرتﷺ کے اقوال وارشادات میں اس طرح کے کلمات کی ایک بڑی تعداد ہے ،جنہیں '' جوامع الکلم ''کہاجاتا ہے۔لہٰذایہ عافیت کی دعابھی جوامع الکلم میں سے ہے،یعنی جامع دعاؤں میں سے ہے،اس لیے ہر انسان کو اسے یاد کرناچاہیے اور ہمہ وقت اللہ سے عافیت کی دعا مانگتے رہناچاہیے۔
صاحب مظاہر حق علامہ نواب قطب الدین خان دہلویؒ لکھتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو بہت پسند کرتا ہے ،اس کے برابر اور کسی چیز کے مانگنے کو پسند نہیں کرتا۔ عافیت کے معنی ہیں دنیا و آخرت کی تمام ظاہری و باطنی غیر پسندیدہ چیزوں تمام آفات و مصائب تمام بیماریوں اور تمام بلاؤں سے سلامتی و حفاظت۔ لہٰذا عافیت، دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں پر حاوی ہے جس نے عافیت مانگی، اس نے گویا دنیا وآخرت کی تمام ہی بھلائیاں مانگ لیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو پسند فرماتاہے۔ (نسال اللہ العافیۃ)‘‘۔
حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی ؒقریب کے زمانے میں بڑے بزرگ گزرے ہیں، حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی ؒکے خلیفہ تھے، وہ فرمایا کرتے تھے: ’’عافیت بہت بڑی چیز ہے، بہت اونچی نعمت ہے، اور عافیت کے مقابلے میں دنیاکی ساری دولتیں ہیچ ہیں، کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں۔ نیز وہ فرماتے تھے کہ: عافیت دل ودماغ کے سکون کو کہتے ہیں، اور یہ سکون اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتا ہے، یہ دولت اللہ تعالیٰ بغیر کسی سبب اور استحقاق کے عطا فرماتا ہے۔عافیت کوئی آدمی خرید نہیں سکتا،نہ روپے پیسے سے عافیت خریدی جاسکتی ہے، نہ سرمایہ سے اور نہ ہی منصب سے کوئی عافیت حاصل کرسکتا ہے۔
عافیت کا خزانہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اس کی ذات کے سواکوئی عافیت نہیں دے سکتا‘‘۔کچھ اوقات اور کچھ مقامات قبولیت دعا کے لیے خاص ہیں، ان اوقات میں سے ایک اذان اور اقامت کے درمیان کا وقت بھی ہے،لہٰذا اس وقت آدمی کو اپنے لیے،اپنے اہل وعیال، متعلقین اور پوری امت مسلمہ کے لیے، دینی اور دنیاوی مقاصد کے لیے خوب دعاکرنی چاہیے، اس وقت عافیت کی دعابھی مانگنی چاہیے، چنانچہ ترمذی شریف میں حضرت انسؓ سے یہ روایت منقول ہے کہ رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی،حضرت انس ؓفرماتے ہیں ہم نے سوال کیا کہ یہ قبولیت کے اوقات میں سے ایک اہم وقت ہے، ہمیں موقع ملے تو اللہ تعالیٰ سے اس قبولیت کے وقت میں کیا دعامانگیں؟آپ ﷺ نےارشاد فرمایا: اس وقت بھی اپنے رب سے دنیا اور آخرت کی عافیت کی دعا مانگا کرو۔
سنن ابن ماجہ میں حضرت انس بن مالکؓ سے منقول ہے :ایک شخص نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:اے اللہ کے رسولﷺ!کون سی دعا افضل ہے ؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو، پھر دوسرے روز بھی یہی سوال و جواب ہوا، پھر تیسرے دن یہ شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا :اے اللہ کے نبیﷺ!کون سی دعا افضل ہے ؟تو آپﷺ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو، جب تمہیں دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت مل جائے تو تحقیق تم کامیاب ہوگئے۔
مشکوٰۃ شریف میں بحوالہ ترمذی یہ حدیث مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے جس کے لیے دعا کے دروازے کھولے گئے، اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے عافیت مانگنا ہر چیز مانگنے سے زیادہ محبوب ہے۔
مسند احمد بن حنبل میں امیرالمؤمنین سیدنا صدیق اکبرؓ سے ایک طویل روایت میں یہ منقول ہے ،ارشاد فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ سے یہ سنا ہے، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: تمہیں کلمہ اخلاص(کلمہ شہادت) کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں دی گئی، لہٰذا تم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کیا کرو۔