• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صائمہ عزیز

بچے والدین کی زندگی کا محور ہوتے ہیں جن کی کھلکھلاہٹ گھر کے آنگن کو مہکاتی ہے۔ ماں باپ کی زندگی بچوں کے گرد ہی گھومتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ان کا ہنسنا، رونا اور کھلکھلانا زندگی کا احساس دلاتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے بچوں کی صحت اور نشوونما پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ اکثر یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ بچوں کی جسمانی صحت اور نشوونما پر توجہ تو دی جاتی ہے، مگر دماغی نشوو نماکو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ 

شاید ہم میں سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات نقش ہے کہ ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار صرف نوجوان اور بڑی عمر کے افراد ہی ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ تاثر درست نہیں ہے۔ ایک مطالعے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ذہنی دبائو چھوٹے بچوں کی دماغی نشوونما کو بھی متاثر کرتاہے۔ بچوں میں ڈپریشن اور ذہنی دباؤ ان کے ذہن کو تبدیل کر دیتا ہے، جس طرح انسان بیرونی موسم کی تبد یلی کے باعث جسمانی بیماری کا شکار ہوسکتا ہے اسی طرح انسان کا دماغ بھی عمر کی قید کے بغیر بیرونی رویوں اور عوامل سے متاثر ہوتا ہے۔

جس کے نتیجے میں ڈپریشن ،ذہنی تناؤ اور دیگر دماغی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو بچے بڑوں کی نسبت تلخ رویوں اور عوامل سے جلد متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی شخصیت میں بہت سی منفی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ والدین کا اپنی مصروفیات کی وجہ سے بچوں کو پیار اور توجہ نہ دینا، بچوں کے درمیان مقابلے اور موازنے کی فضا قائم کرنا، لڑائی جھگڑا اور غربت وغیرہ۔

بچوں کی نفسیات پر منفی اثرات ڈالتے ہیں، جس سے نہ صرف ان کے دماغ میں واضح تبدیلیاں نظر آتی ہیں بلکہ ان کی تعلیمی کارگردگی بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ بچوں کی بہترین تعلیم وتربیت کے لئے جہاں انہیں صحیح اور غلط میں فرق بتانا ضروری ہے وہیں حد سے زیادہ روک ٹوک بچوں کو ذہنی دباؤ سے دوچار کرسکتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ غیر ضروری روک ٹوک کی بجائے دوستانہ فضا قائم کریں، اس سے بچوں کو والدین کی باتیں با ٓسانی سمجھ میں آئیں گی اور وہ اپنی ہر پریشانی اور الجھن بلا جھجھک کسی دوسرے سے شیئر کرنے کی بجائے والدین سے کرسکیں گے۔