• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حمزہ کل تک ٹرسٹی وزیراعلیٰ، وہ ایسے اختیارات استعمال نہیں کریں گے جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہو، بظاہر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ہمارے فیصلے کے برعکس، سپریم کورٹ

لاہور (نمائندہ جنگ، جنگ نیوز، ایجنسیاں) چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کیخلاف پرویز الٰہی کی درخواست پر حمزہ شہباز کو کل تک بطور ٹرسٹی وزیراعلیٰ کام کرنے کا حکم دیدیا۔ 

عدالت نے کہا کہ حمزہ ایسے اختیارات استعمال نہیں کرینگے جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہو، پیر تک حمزہ شہباز صرف روٹین کے امور سرانجام دینگے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم وہ چٹھی دیکھنا چاہتے ہیں جو پارٹی سربراہ کی جانب سے بھیجی گئی، بادی النظر میں حمزہ شہباز کا وزارت اعلیٰ کا عہدہ گہرے خطرے میں ہے،بادی النظرمیں ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ سپریم کورٹ فیصلے کے برعکس ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے جس فیصلے کی آڑ لیکر ق لیگ کے ووٹ شمار نہیں کئے وہ پیرا کہاں ہے، دوران سماعت وکیل عرفان قادرایڈووکیٹ نے کہا کہ آرٹیکل 63ون اے کے تحت منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہونگے یہ عدالت کی تحقیق تھی نا؟ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے، عدالت کی تحقیق نہیں ہے۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پیر یا منگل کو فیصلہ سنا دینگے، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔ دورن سماعت چیف جسٹس نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کو طلب کر لیا، ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری تو پیش نہ ہوئے تاہم انکے وکیل عرفان قادر نے پیش ہو کر جواب جمع کرایا۔

چیف جسٹس نے وکیل کو کہا کہ آپ وہ پیرا پڑھ کر سنائیں جسکی بنا پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی، وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 63 اے کے مطابق فیصلہ دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ فرض کرلیں اسپیکر کی رولنگ غلط تھی تو پھر اگلا قدم کیا ہو گا؟ 

وکیل عرفان قادر نے مؤقف اختیار کیا کہ اس پر ہم تحریری جواب بھی دینگے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وکیل صاحب یہ سوموٹو کیس نہیں ہے اور ہم نے ریکارڈ بھی مانگا تھا کیا ریکارڈ آیا تھا ؟ ہم دیکھنا چاہتے ہیں ڈپٹی اسپیکر کے ہاتھ میں چوہدری شجاعت کا خط تھا اور ہم وہ خط دیکھنا چاہتے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈپٹی اسپیکر نے اس خط کی بنیاد پر رولنگ دی ہے اور بادی النظر میں آپ کی رائے یہی ہے کہ اسپیکر کی رولنگ درست ہے،ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے جواب جمع کرانے کیلئے وقت مانگا اور کہا کہ ہمیں کل تک کا وقت دیا جائے، عدالت نے حمزہ شہباز کو رسمی اختیارات دیتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ڈائریکشن کی خلاف ورزی پر رپورٹ کرسکتا ہے، جمہوری روایت یہی ہے کہ پارلیمانی پارٹی طے کرتی ہے کہ کس کی حمایت کرنی ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ آپ اس رولنگ کو کس بنا پر دفاع کرنا چاہتے ہیں؟ کیا الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بنیاد بنا کر دفاع کرنا چاہتے ہیں؟وکیل ڈپٹی اسپیکر نے کہا عدالت کا وقت قیمتی ہے میں مفصل دلائل دوں گا، عدالت نے کہا آپ بتا دیں ہمارے آرڈر کا کونسا حصہ ہے جس کی تشریح ہونا ہے۔

 وکیل ڈپٹی اسپیکر نے کہا ہائیکورٹ نے اسی آرڈر کی بنیاد پر فیصلہ کیا جس پر یہ الیکشن ہوا ، عدالت نے پوچھا کیا اس فیصلے کیخلاف نظر ثانی اپیل دائر کی گئی؟ نظر ثانی اپیل دائر نہیں ہوئی تو پھر آپ کیسے اعتراض کرسکتے ہیں، ٹھیک ہے آپ ایک قابل وکیل ہیں جو ہم کہا اس پر عمل نہیں کیا۔

ڈپٹی اسپیکر نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر سپریم کورٹ کے حکم کا ذکر کیا، ڈپٹی اسپیکر نے دس ووٹ مسترد کر دیئے، ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلقہ پیرا پڑھ کر سناتے ہوئے کہا ڈپٹی اسپیکر نے اسی فیصلے کو اپنی سمجھ کے مطابق رولنگ دی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس میں کیا لکھا ہے جو سپیکر صاحب سمجھے ہیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا فیصلے میں پارلیمانی پارٹی اور ممبر دو فریق ہیں، فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کیخلاف ممبر ووٹ نہیں دے سکتا، وکیل ڈپٹی اسپیکر نے کہا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں آئین میں پارلیمانی پارٹی ہی کہا گیا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اب آپ بتائیں کہ اس فیصلے کو ڈپٹی اسپیکر نے کیسے سمجھا ہے؟ 

وکیل ڈپٹی اسپیکر نے کہا ڈپٹی اسپیکر سے ابھی ملوں گا اور تفصیلی ہدایات لوں گا، ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے سے اتنے زیادہ بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے،اگر ہم سمجھ لیں کہ پارلیمانی پارٹی جماعت کے سربراہ کے نیچے آتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہم سمجھنا چاہتے ہیں کہ فیصلہ کو کیسے سمجھا؟

وکیل ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ میں بھی خوش قسمتی یا بدقسمتی سے وہی سمجھا ہوں ڈپٹی اسپیکر نے سمجھا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا وکیل صاحب یہ از خود نوٹس نہیں یہ پٹیشن ہے سمجھیں، اگر آپ ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے مختصر تحریری جواب دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم نے ریکارڈ منگوایا تھا وہ لایا گیا ہے یا نہیں، ڈپٹی اسپیکر نے پارٹی سربراہ کے خط کی بناء پر فیصلہ دیا وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔

وکیل ڈپٹی اسپیکر نے کہاریکارڈ بارے مجھے معلوم نہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی لیڈر کی کیا حیثیت ہے یہ بتانا ہے،بادی النظر میں جس فیصلے کے تحت وزیر اعلیٰ رہنے کا کہا ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ بھی اس کے خلاف ہے، اس دوران وزیر اعلیٰ کا عہدے پر رہنا کیا حیثیت رکھتاہے؟

حمزہ شہباز کے وکیل بھی اس معاملے پر ہدایات لیکر معاونت کریں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے ہم نے تین چیزوں کو دیکھنا ہے آرٹیکل 63 اے، سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی کیا آئینی حیثیت ہے،فرض کریں ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کو غلط سمجھا تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے وزیر اعلیٰ کا اسٹیٹس پر سوالیہ نشان ہے، ہم نے صوبے کی گورننس کے پیشِ نظر اسکے وزیر اعلیٰ رہنے کا فیصلہ دیا،صوبے کی گورننس کو ہم خالی نہیں چھوڑ سکتے، ڈپٹی اسپیکر کے وکیل وقت چاہتے ہیں، ان حالات میں کسی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے پر رہنا ہے، وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کو سیاسی مفاد کے بغیر خدمات انجام دینے کا کہا ہے۔

وکیل تحریک انصاف علی ظفر نے کہا حمزہ شہباز نے اس دوران دھونس دھاندلی اور سیاسی مخالفین کو دبایا، بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ عدالتی فیصلے کیخلاف ہے، حمزہ شہباز کو کابینہ کی تشکیل دینے سے روکا جائے، حمزہ شہباز پہلے بھی اختیارات کا غلط استعمال کرچکے ہیں،آپ اتوار کو سماعت کرلیں یا پیر کو کرلیں۔

چیف جسٹس نے کہا کل سن لیتے ہیں اگر سماعت مکمل نہ ہوئی تو آسلام آباد میں سن لینگے، پہلے بھی آپ کو موقع دیا تھا کہ آپ سسٹم میں خلا نہ چھوڑیں، آپ لوگ نہ مانے اور باہر نکل گئے خیر وہ آپ کا فیصلہ تھا، ملک پہلے ہی مشکل حالات کا شکار ہے، پیر یا منگل تک اس پر فیصلہ دینگے اس سے زیادہ دیر نہیں کرینگے۔

آپ کو پتہ ہے ملک انہی حالات کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، ہم سوموار تک ملتوی کرتے ہیں وزیر اعلیٰ کی کارکردگی پر چیک رکھیں گے، دیکھیں گے وزیر اعلیٰ قانون کے مطابق تقرریاں و تبادلے کرتے ہیں یا نہیں، اب کیس کی سماعت اسلام آباد میں ہوگی۔

دوران سماعت وکلاء اور دیگر افراد کی بڑی تعداد نے کمرہ عدالت میں داخلے کی کوشش کی،سکیورٹی حکام وکلاء کو روکنے میں ناکام رہے،دھکم پیل میں عدالت نمبر ایک کے داخلی دروازے کے شیشے ٹوٹ گئے جسکے بعد صحافیوں سمیت اضافی افراد کو عدالت سے باہر بھیج دیا گیا۔ 

ابتدائی سماعت کے بعد عدالت نے عبوری تحریری حکم میں لکھا کہ ڈپٹی اسپیکر کا نقطہ نظر عدالت اعظمی کے فیصلے کی حتمی وضاحت نہیں کرتا ، عدالت نے دیکھنا ہے کہ ہمارا فیصلہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں، یہ معاملہ ہمارے سابقہ فیصلے کی وضاحت کا ہے، ڈپٹی اسپیکر ریکارڈ اڑھائی بجے ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی عدالتی معاونت کریں۔

قبل ازیں چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں رات گئے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں ڈپٹی اسپیکر نے غیر قانونی اور غیر آئینی رولنگ دیکر مسلم لیگ ق کے 10 ووٹ شمار نہیں کئے۔

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی بھی خلاف ورزی ہے، عدالت ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی ووٹ کائونٹ پر رولنگ کالعدم قرار دے۔

اہم خبریں سے مزید