محمد شاہد اقبال
اگر آپ کا کوئی دوست یا بزرگ آپ کے کسی کام میں غلطی کی نشان دہی کرتا یا تنقید کرتا ہے، تو کیا آپ اُس سے خفا ہوجاتے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تویہ رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہےکہ آپ خود پسندی کا شکار ہیں، لیکن اگر آپ خود پرہونے والی تنقید کے جواب میں اپنا ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں اور جس غلطی کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروائی جارہی ہوتی ہے، اُسے درست کرنے کی بھر کوشش کرتےاور اپنے ناقد کو اپنا دشمن سمجھنے کے بجائے اُسے ایک مہربان شخص تصور کرتے ہیں، تو پھر یقیناً آپ عام لوگوں سے مختلف اور ایک عقل مند انسان ہیں، نوجوانوں کی اکثریت نہیں جانتی کہ تنقید سے کیسے اپنی شخصیت نکھاری اور غلطیوں کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ وہ نوجوان، جو دوسروں کی تنقید، اپنے بڑوں کی ڈانٹ کو خندہ پیشانی اور صبر سے سنتے، اُس کی روشنی میں اپنے اطوار اور اعمال کا جائزہ لیتے ہیں، وہ زندگی میں ہرقدم پر کام یاب و کامران رہتے ہیں، وہ خود احتسابی کے ذریعے جائزہ لیتے ہیں کہ ان کے کام کی کوتاہیاں یا منفی باتیں کون سی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ نہ صرف اپنی شخصیت یا کام کی کمزوریوں کا جائزہ لیتے ہیں بلکہ انہیں سدھارنے کی بھر پور کوشش بھی کرتے ہیں۔
بہت سے نوجوانوں کو اگر گھر کے بزرگ ، اساتذہ یا دفتر میں باس کی طرف سے ڈانٹ پڑتی ہے، تو وہ منہ بسور کے بیٹھ جاتے ہیں، یا کئی کئی دنوں تک ان سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے، ایسے نوجوان زندگی میں کبھی کچھ حاصل کر پاتے ہیں اور نہ ہی آگے بڑھ پاتے ہیں۔ یاد رکھیں اگر ہمارا کوئی اپنا، اساتذہ یا بزرگ کسی کوتاہی یا کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہیں، تو اس میں ہمارے ہی لیے بہتری پوشیدہ ہوتی ہے، جو ہمیں اپنا سمجھتا ہے، وہی چاہتا ہے کہ ہمارا کام غلطیوں سے پاک اور شخصیت نکھری ہوئی ہو، ورنہ غیروں کو کیا فکر کہ اصلاح کریں۔
اگر دوست ہی دوست سے بے تکلف نہ ہوں، تو پھر ایسی دوستی کس کام کی۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ تنقید کرنے پر اپنے بڑوں اور خیر خواہوں کا شکر یہ ادا کریں کہ جن کی وجہ سے اپنی خامیاں دور کرنے کے مواقع میسر آتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو شخص بھی آپ پر تنقید کرتا ہے ،وہ آپ کا حقیقی ہمدرد ہے، اُس کی طرف سے کی جانے والی تنقید آپ سے بے پناہ محبت کے جذبہ کا اظہار ہی ہے۔ الفاظ کی چوٹ وہی شخص برداشت کرسکتا ہے ،جو ظاہری سطح سے بلند ہوکر چیزوں کو دیکھنے کا عادی ہو۔
اس زاویہ نگا ہ سے اگر آپ بھی سوچیں گے تو آپ کے پیاروں کے ’’تنقید کے نشتر ‘‘ آپ کے لیے’’ احسانات کے تحفے ‘‘بن جائیں گے۔ الفاظ تو ایسی بے رنگ کی تصویروں کی مانند ہوتے ہیں، جن میں آپ اپنی پسند کے کوئی بھی رنگ بھر سکتے ہیں۔ اپنے پیاروں کے تنقیدی الفاظ میں ہمیشہ ’’بھلائی کے رنگ‘‘ بھریں آپ دیکھیں گے اس طرزعمل سے آپ کی زندگی رنگین ہوجائے گی، جو نہ صرف آپ کو بھلی معلوم ہوگی بلکہ دوسروں کے لیے بھی قابل تعریف اور قابل تقلید بن جائے گی۔