حبا خان
کسی بھی قوم کا سرمایہ اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے اگر وہی اپنی فکر اور اپنی سوچ کو سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے میں اڑائے اور پان اور گٹکے کی پیک میں بہائے، تو اس قوم کا مستقبل کیسا ہوسکتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ نوجوان طبقہ اس تیزی سے اس لت کی طرف کیوں راغب ہے؟ گٹکا اور مین پوری کھا کر خود کو تازہ دم تصور کرنے کی خوش فہمی میں کیوں مبتلا رہتے ہیں۔
ہر دوسرا نوجوان تمباکو، گٹکا، مین پوری کا بلا جھجک استعمال کرتا نظر آتا ہے۔ یہ جانے بنا کہ ان مضر صحت اشیاء کی تیاری میں کن اجزاء کا استعمال ہوتاہے، یہ صحت کے لیے کس قدر مضر ہیں، اس کا بے دریغ استعمال کر تے ہیں۔
نوجوانی میں صحت سے بے پروائی، غلط دوستوں کی صحبت منفی عادتوں کی طرف مائل کرتی ہے، جس کا اثران کے مستقبل پر بھی پڑتا ہے۔ نوجوان اپنی ذمہ داریاں و فرائض کو سمجھیں اور مضرِ صحت اشیا ء کے استعمال سے اجتناب برتیں اور ایسے دوستوں کی صحبت ہمیشہ کے لیے ترک کردیں ، جو انہیں غلط سمت کی طرف مائل کرتے ہیں۔ شہر تو شہر دیہی علاقوں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد اس نشے میں مبتلا ہوتی جارہی ہے۔
اس کے ساتھ طلباء میں سگریٹ کا استعمال بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ایک گھنٹہ پان سگریٹ کی دکان کے باہر کھڑے ہوکر اندازہ کر سکتے ہیں کہ زیادہ تر نوجوان ہی ہیں، جو یہاں کا رخ کرتے ہیں اور دھواں چھوڑتے ہیں کی عمریں بھی پندرہ سے پچیس سال تک ہوتی ہیں۔ کئی نوجوان سگریٹ کے ساتھ تمباکو والے پان، میٹھی سپاری اور گٹکا کھاتے ہیں۔
ان کو دیکھ کر کوئی بھی ذی شعور یہی سوچ سکتا ہےکہ سگریٹ کاکش لگاتے اور گٹکا کھاتے نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں۔ انہیں علم ہی نہیں کہ یہ اشیاء ذہنی طور پر کمزور کر دیتی ہیں، قوتِ فیصلہ اورخود اعتمادی ختم ہوجاتی ہے۔ چند لمحوں کے سکون کے لیے جس زہر قاتل کا استعمال وہ کر رہے ہیں، وہ ان کی زندگی اور مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ کیا فائدہ ایسے عارضی سکون کا جس سے زندگی بھر کی تکلیف مقدر بن جائے۔